سویڈن میں ہنگامے اور حکومت کے اقدامات

سویڈن میں ہنگامے اور حکومت کے اقدامات

Profilbildet til Arif Kisana

سویڈن میں ہنگامے اور حکومت کے اقدامات

کالم نگار عارف کسانہ
گذشتہ ماہ اسٹاک ہوم کے کچھ علاقوں میں جہاں تارکین وطن کی بڑی تعداد آباد ہے وہاں ہونے والی ہنگامہ آرائی اور گاڑیوں کو جلانے کے واقعات نے سب کو محو حیرت کر دیا کہ سویڈن جیسے پر امن اور بہترین سماجی بہبود کا نظام رکھنے والے ملک میں ایسا کیوں ہو رہا ہے۔اگرچہ ان ہنگاموں کی شدت دو ہزار پیرس اور دو ہزار ایک میں لندن میں ہونے والے ہنگاموں سے کہیں کم تھی۔اور پھر یہ چند ہی دنوں بعد اختتام پذیر بھی ہو گئے۔لیکن سویڈش حکومت نے عوامی احتجاج کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔تاکہ نہ صرف صورتحال بہتر ہو بلکہ مستقبل میں بھی ایسے ناخوشگوار واقعاترونماء نہ ہوں۔نہ تو حزب اختلاف نے اسے ہنگامہ آرائی کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔اور نہ ہی حکومت نے اسے طاقت سے دبانے کی کوشش ی۔بلکہ اپنی خامیوں کی اصلاح کی ہے اور تارکین وطن کے علاقوں کو مزید سہولتیں دینے کا اعلان کیا ہے۔تارکین وطن کے امور کے وزیر ایرک اولن ہاگ نے تھینستھا کا باقاعدہ دورہ کرتے ہوئے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ اس علاقے میں کیوں کوئی باقائدہ مسجد نہیں۔انہوں نے امتیازی سلوک کے بارے میں محتسب کو ایک سو ملازمتوں کی آسامیوں کو تھینستا اور رنکے بی کے علاقے میں منتقل کرنے کا اعلان بھی کیا۔جس سے علاقوں میں کام اور ملازمتوں کی صورتحال بہتر ہو گی۔اس کے ساتھ ہی اسٹاک ہوم کے میئر اسٹین نورڈن نے سولہ سو آسامیوں کو تارکین وطن اکثریتی کے آٹھ علاقوں میں منتقل کرنے کا اعلان کیا۔انہوں نے حکومت سے بھی مطالبہ کیا کہاس سلسلے میں مزید اقدامات کرے۔ان اہم حکومتی اقدامات سے نہ صرف صورتحال بہتر ہو گی بلکہ تارکین وطن کو مزید روزگار کی سہولتیں ملنے سے ایک صحتمند معاشرے کی تشکیل ہو گی۔پاکستان میں بھی عوام نے ووٹ کے ذریعے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔اب توقع ہے کہ نئی حکومت عوامی فلاح کے منصوبے عمل میں لائے گی۔وہاں مسائل ذیادہ اور وسائل کم ہیں لیکن بہتر منصوبہ بندی اور قوت عمل سے پانچ سالوں میں عوام کے کئی مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔خصوصاً تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اہم اقدامات کی ضرورت ہے۔اگر عوام کو ان دونوں شعبہ جات میں سہولتیں ملی تو انہیں کافی حد تک ریلیف مل سکتا ہے۔تعلیم اور صحت ریاست کی ذمہ داری ہونی چاہیے اور تمام شہریوں کو یہ یکساں طور پر ملنی چاہیے۔
ایک اور اہم انسانی المیہ جس کی جانب نہ تو کوئی توجہ دی جاتی ہے اور نہ ہی بار بار پیش آنے والے حادثات جن کے نتیجے میں کئی قیمتی جانوں کا نقصان ہوتا ہے کوئی سنجیدہ کوشش کی جاتی ہے۔وہ ہیں آگ لگنے کے واقعات۔لاہور میں ایل ڈی اے پلازہ ہو یا کراچی کی فیکٹری میں آگ لگنے کے واقعات۔اس جیسے واقعات اکثر و بیشتر ہوتے ہیں اور صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر کوئی منصوبہ بندی یا قابل عمل طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا۔آگ سے بچائو کے لیے ایک قومی پالیسی اور ایک منظم اتھارٹی قائم کرنے کی ضرورت ہے۔سویڈن سے اس ضمن میں بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے جہاں 1991 سے ریاستی سطح پر ایک فائر پروٹیکشن ایسوسی ایشن قائم ہے۔جو عوام الناس میں آگہی اور تربیت کے مواقع فراہم کرتے آ رہے ہیں۔تمام اسکولوں میں ابتدائی جماعت کے طلباء کو بھی آگ سے بچنے کی مشقیں کرائی جاتی ہیں۔اور ہر دفتر میں ملازمین کو آگ سے بچائو کا کورس کرایا جاتا ہے۔پھر تمام نجی اور سرکاری ادارے اور دفاتر آگ بجھانے والے آلات رکھنے کے پابند ہیں۔حکومتی ادارے انہیں چیک کرتے رہتے ہیں۔عوام میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ آگ سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟اور اگر کوئی ناگہانی صورتحال پیدا ہو جائے تو اس سے کیسے انسانی جان کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔میڈیا کے ذریعے حکومتی اور نجی ادارے عوامی شعور بیدار کر سکتے ہیں۔آگ لگنے کی اہم وجوہات اور اس کے پھیلائو میں آکسیجن ،حرات اور ایندھن کی مثلث کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔انخلاء کے راستے کھلے اور تجاوزات کے بغیر ہوںاور حفاظتی آلات درست حالت میں ہوں۔ایسے اقدامات کرنے سے انسانی جانوں اور املاک کی حفاظت ممکن ہے۔
کشمیر کونسل ای یو نے اسٹاک ہوم میں ایک روزہ کیمپ لگا کر ایک ملین دستخطی کی مہم میں سویڈش عوام کو بھی شریک کیا۔کشمیر میںجاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مسلہء کشمیر کے حل کے لیے کشمیر کونسل ای یو اپنے سربراہ علی رضا کی قیادت میں متحرک ہے۔اور اب تک برطانیہ فرانس ناروے اور کئی یورپین ممالک میں اپنی مہم چلا چکی ہے۔اور مستقبل میں اٹلی پولینڈ اور دیگر یورپین ممالک میں یہ سلسلہ جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔کونسل ایک ملین دستخط یورپین یونین کے حوالے کرے گی۔تاکہ وہ مسلہء کشمیر پر بحث کر کے ممکنہ قرارداد پاس کرے اور مسلہء کشمیر اپنے حل کی طرف بڑھے۔اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوںمیں کمی واقع ہو سکے۔Free Kashmir سن نوے کے تحت کشمیر کونسل کی مہم کا سویڈن میں بہت خیر مقدم ہوا اور کشمیر کمیٹی سویڈن اپنے صدر بر کت حسین کی معیت میں شامل تھی۔اس مہم میں دو بچوں عدیل حسین اور حارث کسانہ نے بھی بھر پور حصہ لیا۔اور بہت سے سویڈش انکی لابنگ سے متاثر ہوئے اور ادستخطی مہم کا حصہ بنے۔
کشمیر کونسل ای یو کی دستخطی مہم یورپی عوام میں مسلہء کشمیر کو اجاگر کرنے کی اہم کوشش ہے۔لیکن مسلہء کشمیر کے حل کے لیے جب تک کشمیری رہنما ایک نکاتی ایجنڈا یعنی کشمیر کی آزادی پر متفق نہیں ہوتے یہ مسلہء حل نہیں ہو سکتا۔کشمیری رہنمائوں کا اپنا طرز عمل کشمیر کی راہ میں رکاوٹ ہے۔پہلے سے نظریاتی تفریق موجود ہے۔کچھ الحاق پاکستان کو اور کچھ خود مختاری کو اپنی منزل قرار دیتے ہیں۔پھر مزید تقسیم سیاسی جماعتوں کی صورت میں موجود ہے۔ایک ہی نظریے کے حامل سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھنے کے بھی روادار نہیں۔بھارتی مقبوضہ کشمیر کے سیاستدان بلکہ دوسری جانب والے اسلام آباد کے زیر اثر ہیں۔جدو جہد آزادی میں نہ ہی ایک قیادت ہے اور نہ ہی واضع لائحہ عمل ۔کشمیری قیادت کو مل کر سوچنا ہو گا کہ لاکھوں قربانیوں کے باوجود کیوںتحریک آزادی سرد ہو رہی ہے اور دنیا مسلہء کشمیر کو کیوں بھول رہی ہے۔یورپی یونین ہو یا اقوام متحدہ آزادی کوئی بھی کسی کو طشتری میں رکھ کر نہیں دیتا۔بلکہ اسے وہ قوم خود حاصل کرتی ہے۔کشمیر کی موجودہ صورتحال میں اور کسی کا فائدہ ہو یا نہ ہو دونوں طرف کے سیاستدانوں کابہت فائدہ ہے اور وہ اس مسلہء کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں جب تک کشمیری رہنماء اپنا قبلہء درست نہیں کرے گی ریاست جموں کشمیر تاج آزادی نہیں پہن سکے گی۔

اپنا تبصرہ لکھیں