سن سٹی ہوٹل

افسانہ نگار

ارم ہاشمی 

’’ایک روز وہ اگرسن سٹی ہوٹل کے اندر کی سیر کر آئے تو ہرج ہی کیا ہےْ ‘‘۔اس خیال نے اسے کئی دنوں تک پریشان رکھا۔یہاں تک اس کے دماغ میں ناسور بن کر رہ گیا۔آخر ایک روز ظافرنے تہیہ کر لیا کہ وہ سن سٹی ہوٹل ضرور جائے گا۔
وہ سالہا سال سے اس شہر میں رہ رہا تھا ،سینکڑوں مرتبہ سن سٹی ہوٹل کے قریب سے گزرا مگر سن سٹی ہوٹل کے اندر داخل ہونے کا کبھی اسے خیال تک نہ آیا۔خیال آتا بھی کیوں کر۔۔۔اس کی تنخواہ پندرہ ہزار روپے تھی ۔ایک بیوی اور دو بچے۔صبح و شام سن سٹی ہوٹل کے تذکرے سن سن کر اس کے دل میں کرید ہوئی کہ آخر ہوٹل میں ہے کیا؟؟اس عظیم الشان عمارت کے اندر دن رات کیا شگوفے کھلتے ہیں جو ہر شام حسن کی متوالیاں رنگ و بو میں مہکتی ہوئی خراماں خراماں آتی ہیں۔اورسن سٹی ہوٹل کے بلند و بالا دروازے کے اندر داخل ہو کر نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔کیا بوڑھے کیا جوان۔کیا عورت کیامرد ۔سبھی نامعلوم کشش کے تحت سن سٹی کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔آخر ایک روز اس نے ہتھیار ڈال دئیے اور اب وہ سنجیدگی سے اس بات کے ہر پہلو پر غور کرنے لگا۔
گھر کا کرایہ،راشن کا خرچ،بچوں کی اسکول فیس،بجلی،گیس،پانی کا بل ۔۔ضرورتیں منہ کھولے کھڑی تھیں مگر ۔۔۔وہ عزم کر چکا تھا۔اس نے گھر کے کرائے سے چمچماتے بٹنوں والی قمیص اور براؤن رنگ کی پتلون خریدی ۔راشن کے خرچ سے بوٹ آگئے اور بچوں کی اسکول فیس بوٹائی میں صرف ہو گئی۔جیب میں رومال ڈال کر وہ صحن سے گزر کر سیڑھیوں سے نیچے اترنے لگا ۔سیڑھیاں جو بجنسہ ایسی تھیں جیسے آزاد نظم۔کوئی اینٹ کھڑی ہوئی ،کوئی گری ہوئی ،کوئی پڑی ہوئی۔گلی سے گزرتے ہوئے اس نے لمحہ بھر کے لئے بھی پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھامبادا اسکی ضرورتیں یا بیوی اسے اشارے سے واپس بلا لیں۔نکڑ پر گھوم کر اس نے پنواری کی دکان پر دم لیا۔
’’ایک پان بھیا‘‘۔
’’میٹھا‘‘۔
’’نہیں ‘‘۔پان کا بیڑہ کلے میں دے ،ہونٹوں میں سگریٹ ٹھونس دھواں اڑاتا چل پڑا۔چند قدموں پر ہی اسے احساس ہوا کہ وہ چل رہا ہے۔پیدل چل رہا ہے ۔پیدل چل کر سن سٹی ہوٹل جا رہا ہے۔اس نے خود پہ لعنت بھجتے ہوئے دل ہی دل میں کہا’’ابے گدھے،الو کے پٹھے،کنجوس مکھی چوس۔۔آج !!۱آج جبکہ تو سن سٹی ہوٹل جا رہا ہے۔تیری یہ گت۔۔ یہ روز کی گرد آلود سڑک،دھول اڑاتا رستہ،یہ تیرے گرتے پڑتے پیر‘‘۔
’’او رکشے والے‘‘
رکشے والے نے گھوم کر دیکھا۔
’’خالی ہے‘‘۔
رکشے والا مرعوب ہو گیا۔
’’چلو‘‘وہ رکشے پر سوار ہو گیا۔
’’سن سٹی ہوٹل ‘ ظافرنے آنکھوں پر سے گرد اڑاتے ہوئے رکشے والے کے حلق میں پھنسی ہوئی ’’کہاں ‘‘ کا جواب دیا۔
گھر سے سن سٹی ہوٹل تک ظافر اس بات سے بے خبر رہا کہ وہ رکشے پر سوار ہے یا اڑن کھٹولے پر۔ سرسراتے ہوئے نرم لباس ،عطر بیز زلفیں ،شعلہ بداماں رخسار ،خمار آگیں آنکھیں،اڑتی ہوئی خوشبوئیں،گھلتے ملتے رنگ،کھنکتے جام،کانوں میں رس ٹپکاتے نقرئی قہقہے۔۔۔
رکشہ ایک دھچکے سے رکا۔اس نے کرایہ دینے کے بعد نظر اٹھا کر دیکھا سامنے سن سٹی ہوٹل اپنی پوری شان و شوکت سے نظر آرہا تھا۔
وہ ٹھٹھک کر رہ گیا۔سن سٹی ہوٹل کے سامنے کار پاکنگ ایریا تھا جہاں لمبی تام دھام کاریں کھڑی تھیں۔ہوٹل کی بلند و بالا کھڑکیوں کے اندر کی
جانب رنگین پردے تھرکتے ہوئے صاف نظر آرہے تھے۔ ظافر آگے بڑھا مگر اسکی رفتار دھیمی ہو گئی پھر وہ جیسے گھسٹتا ہوا آگے بڑھنے لگا یہاں تک کے دروازے کے قریب پہنچ کر پسینہ پسینہ ہو گیا۔اس کے دماغ میں ہتھوڑے چلنے لگے،قدم بھاری ہو گئے۔۔۔۔اس نے دیکھا کہ سن سٹی ہوٹل کا دروازہ بہت بلند ہے اور وہ خود بہت حقیر۔اس قدر حقیر کہ چیونٹی بھی اسے دیو پیکر مخلوق دکھائی دینے لگی۔۔۔
نہیں ،نہیں،نہیں۔۔وہ واپسی کے لئے مڑا مگر چند گل رخوں کے گرداب میں چکر کھاتا ہوا سن سٹی ہوٹل کے اندر پہنچ گیا۔اس جگمگاتے ہال میں پہنچ کر ایک بار تو ظافر کو یوں لگا جیسے وہ بھری محفل میں عریاں ہو گیا ہے۔سنبھلنے کی ہر ممکن کوشش کے باوجود وہ قریب پڑ ی ہوئی ایک کرسی پر گر کر ہاپننے لگا۔اسے نظر اوپر اٹھانے کا حوصلہ نہ ہوا۔جیسے سب لوگ اس کی جانب دیکھ دیکھ کر چہ میگوئیاں کر رہے ہوں۔لیکن جلد ہی اسے معلوم ہو گیا کہ اس کی ذات سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔سب اپنے اپنے مشاغل میں محوہیں۔
ہال میں ظافر کے ذہن پر ہیبت طاری کر دینے والی کئی چیزیں تھیں مثلا طویل و عریض پردے،بجلی کے گھومتے قمقمے یا وہ آرکسٹرا والے۔ان میں ایک شخص دو بڑے جھنجھنے اس طرح بجا رہا تھا جیسے حاضرین کو گھونسے دکھا رہا ہو۔اور سامنے دیوار پر لگا ہوا وال کلاک ۔۔۔
عجیب ،پراسرار شکل کا،وہ گونگا کلاک کیا کہتا تھا۔۔۔
وہ منہ سے کچھ نہیں کہتا تھا لیکن اس کے تیور بدلتے رہتے تھے۔
دیواروں کے ساتھ صوفوں اور میزوں کی قطاریں طویل ہوتی چلی گئیں تھیں۔ ان پر لوگ اس انداز میں بیٹھے تھے جیسے ہال کی فضا سے راہ فرار اختیار کر کے گوشہ گیر ہو گئے ہوں۔ہال کے بیچوں بیچ سرمئی رنگ کی اسٹیج بنی تھی۔ظافرنے اسٹیج پر نظریں گاڑ دیں۔سرمئی رنگ اسٹیج جیسے گدلے پانی سے لبریز تالاب،گدلا ،گہرا ،ٹھہرا ہوا پانی،خاموش پراسرار گدلا گہرا۔۔۔گہرا۔۔گہرا پانی۔اسٹیج سجائی جا رہی تھی۔بیک اسٹیج پر ’’فینسی ڈریس شو‘‘ کے خوشنمابینر آویزاں تھے۔ہال بجلی کی روشنی سے بقعہ ء نور بنا ہوا تھا۔لوگ عجیب عجیب لباس زین تن کئے ہوئے تھے۔کوئی کیمخواب،شیروانی او ر آڑے پاجامے میں نواب بنا ہوا تھا۔کوئی سلک کے کرتہ اور دھوتی میں سیٹھ معلوم ہو رہا تھا تو کوئی کوٹ پتلون میں بالکل انگریز۔کچھ نے جنگلیوں سا لباس پہنا تھا۔ظافرکے ذہن پر افسردگی طاری ہونے لگی۔
اگر گھر کا جنجال مایا ہے تو یہ سب بھی مایا ہے۔یہ رنگ و روپ ،یہ باجے گاجے،یہ نقرئی قہقہے، یہ سر مستیاں ۔۔۔سب مایا ہے۔اسے ہر چیز بے معنی دکھائی دے رہی تھی۔وہ اپنے آپ سے ناخوش تھا۔
بینڈ ایک عجیب سحر آلود نغمہ بجا رہا تھا۔جس سے تمام خوابیدہ امنگیں اور خواہشیں بھڑک رہی تھیں۔باہر سماج کی نعش پڑی تھی۔اور یہاں ہونٹ سے ہونٹ مل رہے تھے۔چنگاریاں اٹھ رہی تھیں۔باہر شعلے اٹھ رہے تھے۔دل جل رہے تھے۔گھر جل رہے تھے۔۔۔
پھر جیسے ہال میں سناٹا چھا گیا۔جج فیصلہ سنانے آچکے تھے۔’’فینسی ڈریس فرسٹ۔۔‘‘سب ہمہ تن گوش ہو گئے۔’’لباس بھوکے دیس کا بھوکا باسی‘‘ لوگوں کی بے چینی بڑھی’’محمد ظافر‘‘اور ہال تالیوں کے شور سے گونج اٹھا۔ایک صاحب نے ظافر کو آئینہ لا کر دیا اور ہنس کر کہا ’’آپ بھی تو اپنے ڈریس کو انجوائے کیجئے‘‘۔ظافرکے چہرے پر بے چارگی اور مفلوک الحالی کے تمام مبہم نقوش اور گہرے ہو گئے۔وہ سب کی نظریں بچا کر سن سٹی ہوٹل سے باہر نکل آیا۔باہر آکر گھر کی ضرورتیں اس کی میلی میلی آنکھوں کے گرد ناچنے لگیں۔اس نے ایک
مرتبہ چاروں طرف دیکھا۔وہ اپنی حماقت پر خود سے سخت خفا تھاآخر یہ کیاحرکت تھی۔وہ سن سٹی ہوٹل کیوں آیا ؟
لیکن اس کے باوجود وہ مسکرایا۔یہ شام۔۔یہ شام اسے زندگی بھر نہیں بھولے گی۔اس حماقت کی بدولت وہ پہلے کی نسبت زیادہ دانا ہو چکا تھا۔

اپنا تبصرہ لکھیں