سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا شوشہ

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا شوشہ

 

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا شوشہ

 

 

 

کالم نگار  |  لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم

اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ مقامی سطح پر لوگوں کے مسائل بطریق احسن حل کرنے کیلئے پنچائت ، دیہی کونسلز یا لوکل باڈی گورنمنٹس کے نظام کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ضرور ذہن میں رکھ لیا جائے کہ ڈاکٹر جب مریض کی بیماری کی صحیح تشخیص کر بھی لے تب بھی وہ مریض کو اینٹی بائیٹک دینے سے پہلے مریض کے خون کا کلچرٹیسٹ کرواتا ہے ، یہ جاننے کیلئے کہ اس مریض پر کونسی اینٹی بائیٹک اثر کرے گی چونکہ اگر ایک دوا ایک مریض پر موثر ہے تو ضروری نہیں وہی دوا دوسرے مریض پر، جس کو بالکل وہی بیماری ہے، بھی موثر ہوپھر ایک ہی دوا کے مختلف مریضوں پرSide effectsمختلف ہوتے ہیں اس لئے ڈاکٹر دوا کو بدلنے پر مجبور ہو جاتاہے اس لئے یہ ضروری نہیں کہ یورپ میں کامیابی سے چلنے والا کوئی نظام پاکستان میں بھی کامیاب ہو جائے۔
پاکستان ایک ruralised ملک ہے جہاں تقریبا70فیصدی لوگ دیہات میں رہتے ہیں اس کے علاوہ ناخواندگی ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے۔ ملک کے قوانین کمزورہیں ان کو لاگو کرنیوالی تقریبا ساری حکومتی مشینری بدیانت اور نااہل کارندوں سے بھری پڑی ہے۔ کرپشن ہماری ہڈیوں کے گودے میں بھی گھس چکی ہے۔ وڈیرے اور جاگیردار اقتدار کے ایوانوں میں دندناتے پھرتے ہیں۔ مفلسی اور مہنگائی نے لوگوں کو اس قدر بدحال کیا ہوا ہے کہ ان میں اپنے حقوق مانگنے کیلئے بھی دو ٹانگوں پر کھڑے ہو نے کی جرات اور سکت نہیں۔ شہروں کے انگریزی سکولوں کی پیداوار یا پائپ اور سگار پینے والے یورپ سے تعلیم یافتہ بیوروکریٹ اسلام آباد کے آرام دہ ایوانوں میں بیٹھ کر ایسا نظام نہیں ترتیب دے سکتے جو ڈبن پورا چکوال، خضدار،رتوڈیرو یا صوابی میں رہنے والے حقہ اور لسی پینے والے عوام کیلئے موزوں ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کا دیا ہوا بلدیاتی نظام برسرا قتدار ناظموں کیلئے تو ایسا موج میلا تھا جس نے کرپشن کے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ۔ کسی ترقیاتی منصوبے پر اگر ایک سو میں سے چالیس روپے لگے تو باقی60 روپے ناظم ٹھیکیدار اور انجینئر کی جیب میں گئے۔ کوئی آڈٹ نہیں، کوئی احتساب نہیں، تقریبا ہر ضلع میں آٹھ سالوں تک محتسب کی پوسٹ خالی رکھی گئی۔ سیاسی مخالفین اس وقت تک پستے رہے جب تک انہوں نے ضلعی ناظم کی دہلیز پر غیر مشروط طور پر اپناسر نہیں رکھا۔ سروس انڈسٹری کے بہتر حالات، بین الاقوامی مالی، بوم اور دہشتگردی کیخلاف جنگ میں غیر مشروط اور یکطرفہ شمولیت کی وجہ سے جب پاکستانی حکومت کے ہاتھ میں بہت سارے فنڈز آئے تو ان کو ملک کے مروجہ بلدیاتی نظام کے مہرے چوس گئے ورنہ جو ترقیاتی کام ہوئے ان سے دو گنا اور زیادہ کام ہو سکتے تھے۔ چکوال ضلع میں تین سیمنٹ فیکٹریاں لگیں، لوگوں کے حقوق کے تحفظ پر معمور لوگ ٹھیکے لے کر امیر ہو گئے لیکن خیر پور کا کھردیر اور دو لمیال کا اعوان اپنی آبائی زرعی زمیں کھو جانے اور کٹاس میں ہونے والی پانی کی قلت پر آج بھی رورہا ہے۔ سپین سوئٹزر لینڈ اور یورپ کا نظام، بہترین ہونے کے باوجود ایسے ملک میں نہیں چل سکتا جہاں بدقسمتی سے راہبر راہزن ہوںاس لئے ایک تو مشرف کا بلدیاتی نظام موجودہ شکل میں پاکستان کیلئے موزوں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی والے کمشنری نظام چاہتے ہیں اور باقی بھی تقریبا ہر صوبے نے مروجہ بلدیاتی نظام کو رد کیا ہے جس میں میٹر ک پاس ناظم کو ضلع کے ڈی سی اور ایس پی کے اوپر بٹھا دیا گیاتھا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ڈپٹی کمشنر کو اسکا ڈرائیور کہے کہ آپ اب ضلع میرے احکامات کیمطابق چلائینگے اور میں آپ کی سالانہ رپورٹ بھی کسی سے لکھواں گا۔ میرے خیال میں یونین کونسلر کے ناظم منتخب ہونے چاہئیں لیکن ضلعی ناظم امریکی صدر کی کابینہ کی طرح ایک اہل اور تعلیم یافتہ ٹیکنوکریٹ نامزد ہو جو چیف منسٹر کے احکامات پر عمل درآ مد کروائے۔ بہرحال موجودہ بلدیاتی نظام کو بدل کر، پاکستان کے ہر صوبے میں پچھلے ساڑھے چار سالوں میں بلدیاتی انتخابات ہوجانے چاہئیں تھے۔ ایسا نہ ہونے کی وجوہات جو راقم تک پہنچیں وہ یہ ہیں:
()دسمبر2010تک جنرل مشرف کے نظام کو قانونا تبدیل نہیں کیا جا سکتاتھا اور ان کا دیا ہوا نظام کسی صوبے میں بھی قابل قبول نہ تھا۔
()2011کا سال انتخابی فہرستوں کے تیار ی اوران میں گھپلوں کو دور کرنے کی نذر ہو گیا۔
()2012کا سال اب قومی انتخابات کا سال ہے اس وقت بلدیاتی انتخابات ممکن نہیں چونکہ اب تو چند ماہ میں عبوری حکومت بننی ہے جس کے بعد قومی انتخابات کی تیاری عروج پر پہنچ جائے گی۔
() بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے اگر ملکی سیاسی فزا خراب ہو گی توا س کا اثر قومی انتخابات پر پڑ سکتا ہے جو قابل قبول نہیں۔
قارئین سندھ میں زرداری صاحب کی پارٹی کا ایم کیو ایم سے عجلت میں معاہدہ اس لئے نہیں کہ اس سے اہل کراچی کی کوئی بہتری مقصود ہے ، یہ تو قومی انتخابات مخر کرانے کی ایک سازش ہی معلوم ہو تی ہے یا پھر ایم کیو ایم کو دانہ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ مسلم لیگ کی طرف نہ جائے۔ آصف زرداری اچھی طرح جانتے ہیں۔ سندھ کے اندر دو طرح کے نظام کسی لحاظ سے بھی صوبے کے مفاد میں نہیں۔1994میں بے نظیر کے دوسرے دور میں جب کراچی میں بوری بند لاشیں مل رہی تھیں اور حالات اتنے ابتر تھے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے وزیراعظم کو تقریبا دو ماہ تک کرا چی لینڈ کرنے سے روکے رکھا ۔ تو اس وقت کچھ حلقوں سے یہ سفارش آئی کہ کراچی اور اندرون سندھ کے پولیس آئی جی الگ الگ ہونے چاہئیں۔ اس سفارش کو بے نظیر بھٹونے یہ کہہ کرمسترد کر دیا تھا کہ یہ سندھ کی تقسیم کی جانب پہلا قدم ہو گا اور میں یہ نہیں ہونے دوں گی۔اسی طرح وہ کہتی تھیں کہ صوبہ سرحد کیساتھ پختون خواہ کا اضافہ صرف جذباتی نعرہ ہے اس سے صوبے کو ملے گا کچھ نہیں لیکن لسانی اور نسلی بنیادوں پر صوبے کی توڑ پھوڑ ہو سکتی ہے اور عظیم پشتونستان بنانے کا خواب دیکھنے والی بیرونی طاقتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں جس سے ملکی سلامتی متاثر ہو گی۔اس وقت کے وزیراعلی آفتاب شیر پا کے منہ سے بھی ہم نے پختون خواہ کا مطالبہ کبھی نہیں سنا۔
قارئین آصف علی زرداری کو اللہ تعالی نے بہت خوبیاں بھی یقینا دی ہو ںگی، یہی وجہ ہے کہ اللہ نے ان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کرسی صدارت پر بٹھایا اسکے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پچھلے چار ، پانچ سالوں میں آصف علی زرداری نے اقتدار میں آنے اورا س پر اتنی لمبی مدت تک قابض رہنے کیلئے ہر سیاستدان کو تگنی کا ناچ نچایا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان ساڑھے چار سالوں میں پاکستان نے اپنی ساکھ کھودی، معاشی اور مالی بحران بدترین درجوں کو چھونے لگا، ہم بین الاقوامی تنہائی کا شکار ہو گئے، بیرونی ڈرون حملوں نے ہمارے وقار اور بے گناہ لوگوں کا خون کیا، کراچی میں قتل وغارت روز کا معمول بن گئی، بلوچستان آزادی کے نعرے لگانے لگا۔ صرف اسفند یار ولی کے ووٹ لینے کیلئے سابقہ صوبہ سرحد کو پختون خواہ کہہ کر نسل پسندی کو ہوا دی، جس سے ہزار ہ میں بارہ لوگ قتل ہوئے اور پنجاب ، بلوچستان اور سندھ میں نئے صوبوں کی بات ہونے لگی۔ ایم کیو ایم کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے نئے بلدیاتی نظام کی شکل میں سندھ کی تقسیم کے بیچ بو ڈالے۔ پنجاب کو توڑنے اور نفرت کے بیچ بونے کیلئے قومی انتخابات سے صرف چندہ ماہ پہلے جنوبی پنجاب میں ایک صوبہ بنانے کیلئے نیا کمیشن بنا ڈالا۔ اعلی ترین عدالت کے چیف جج کو حکومت کے ایک سنیٹر نے اتنی گالیاں دیں کہ لوگوں کی ہمددردیاں مزید چیف جسٹس کے ساتھ ہو گئیں اور اپنی ٹیم میں زیادہ تر داغ دار لوگ رکھ کر صدر صاحب نے اپنے دامن کو بھی مزید داغ دار کر لیا اس لئے یہ سچ ہے کہ آصف علی زرداری ہماری تاریخ کے چالاک، شاطر اور سب سے ہو شیار سیاستدان بن کے ابھرے ہیں لیکن پیپلز پارٹی سمیت ساری سیاسی جماعتوں کے کارکن اور ہر طبقہ فکر کے محب وطن پاکستانی اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر ایمانا یہ فیصلہ بھی کر یں کہ کیا آنے والا تاریخ دان ہمارے موجودہ قابلِ احترام صدر صاحب کو ایک ایسے سٹیٹس مین کا درجہ دینے کو تیار ہو گا جس نے پاکستان کی سیاست، صحافت، معیشت اور عدالتی میدان میں ہماری آئندہ آنیوالی نسلوں کیلئے قابل فخر نشانات چھوڑے ہوں؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر زرداری صاحب کو کا میاب سیاستدان کہنے والے ان کو ایک ایسا غیر دور اندیش اور ناکام سیاستدان کیوں نہیں کہتے جس کو اللہ تعالی نے ایک جلیل القدر عہدے پر فائز ہونے کا اعزاز تو بخشا لیکن پھربھی وہ اپنی ساکھ سنوارنے کی بجائے خالی ہاتھ اپنی جھولی میں صرف اور صرف مزید بدنامی کی چنگاریاں لیکر لوٹے ۔ میں نے ایک دفعہ میاں نواز شریف صاحب سے پوچھا کہ آپ نے بھی آصف علی زرداری صاحب پر تکیہ کیا اور نا امید ہوئے۔کیا یہ آپ کی بحیثیت سیاستدان ناکامی نہیں؟ ان کا جواب تھا کہ اگر صدر مملکت کے عہدے پر فائز ہمارا کوئی بھائی قرآن کریم ہاتھ میں لے کر ہم سے کوئی وعدہ کرئے تو پھر آپ ہی بتائیں ہمارے پاس تکیہ نہ کرنے کی کتنی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ اس پر میں لاجواب تھا۔

اپنا تبصرہ لکھیں