سفر ہے شرط (قسط نمبر2)

ڈاکٹر شہلا گوندل
اوسلو

جمعہ والے دن، رضوانہ اور میں عین دوپہر کے اڑھائی بجے اوسلوبس سٹیشن پہنچ گئے۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے ہمارا استقبال کیا۔اپنے سامان کو گھسیٹتے ہوئے ہم دونوں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو ایک شلوار قمیض میں ملبوس پاکستانی چہرے والی خاتون نظر آئیں۔ ان کے پاس گئیں تو انہوں نے خود ہی پوچھ لیا کہ آپ غزالہ باجی کے ساتھ ٹور پر جا رہی ہیں۔ میں نے اور رضوانہ نے بیک آواز ہو کر کہا جی ہاں! انہوں نے اپنے چہرے پر ہزاروں من مسکراہٹ سجا کر کہا میں روبینہ ہوں اور گروپ میں کھانے کی ذمہ دار ہوں۔اسی لیے آپ کے پاس اتنے ذیادہ تھیلے ہیں رضوانہ نے خوشی سے استفسار کیا۔کچھ دیر ہم لوگ وہیں کھڑے ہو کر بس کا انتظار کرتے رہے۔بعد ازاں دو بھلی مانس خواتین نے آ کربتایا کہ اگر ہم پاکستانی گروپ کے ساتھ جا رہے ہیں تو سڑک کی دوسری طرف آ جائیں۔بس دوسری طرف سے روانہ ہو گی۔ ہم لوگ پھر اپنا سامان اور روبینہ باجی کے بھی کچھ تھیلے اٹھا کر دوسری طرف پہنچ گئے۔وہاں پر کافی خواتین اور کچھ بچے بھی جمع ہو چکے تھے۔ساتھ ہی ہلکی ہلکی بارش بھی شروع ہو چکی تھی۔ ہم نے جلدی سے ایک عمار ت کے شیڈ کے نیچے پناہ لی۔تھوڑی دیر میں بس بھی آ گئی تمام خواتین تیزی سے اسکی طرف لپکیں۔اور دھڑا دھڑا بس میں سامان رکھا جانے لگا۔ایک بڑی سی سفید کار بس کے بالکل پاس آ کر کھڑی ہو گئی اور اس میں سے سامان خوردو نوش بس میں منتقل ہونے لگا۔منجمد پراٹھے، انڈے چاول، کیک رس، مکھن، پنیر، دودھ،ڈبل روٹیاں، چنے، مرغی،کباب، چائے، کافی،ٹشو رول، فسٹ ایڈ باکس ہر وہ چیز جس کی ضرورت پڑ سکتی تھی بس میں رکھ لی گئی۔تمام بچے اور خواتین بھی بس میں سوار ہو چکے تھے۔موہنی صورت، نرم لحجے اور شیریں آواز والی شاہدہ نام لے کر سب کی موجودگی کی تصدیق کرنے لگیں۔جب سب کی حاضری لگ چکی تو پھر انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو متلی کی شکائیت ہے تو وہ ان سے متلی کی دواء لے سکتا ہے۔اس حد تک خیال کیے جانے کی مجھے ہر گز توقع نہیں تھی۔ خیر ابتدائی رسمی کاروائی کے بعد بس اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئی۔ آہستہ آہستہ اوسلو شہر کی عمارتیں پیچھے رہنے لگیں
اور بس کی کھڑکی سے درخت پانی اور دور تک پھیلے کھیت نظر آنے لگے۔بچپن میں جو تصویریں ہم بناتے تھے تکونی چھت والا گھر اس کے ساتھ ایک درخت اس کے پیچھے پہاڑ اور اس کے ساتھ ایک چشمہ، اس کے اوپر ایک چھوٹی سی پلی، اور منظر کے پیچھے قوس قزاح!!! کون جانتا تھا یہ منظر حقیقت بن کر ایک دن ہمارے سامنے ہو گا۔ناروے میں وہ سارا منظر جو ہماری تصویروں میں ہوتا تھا ہر وقت دعوت نظارہ دیتا ہے۔میں اور رضوانہ اپنے بچپن میں کھوئے ہوئے ارد گرد کے ماحول سے بے خبر پیچھے کی طرف بھاگتے منظروں میں گم چھوٹے چھوٹے بچے بن چکے تھے۔ اپنی پہلی پہلی تصویر کے خدو خال سمیٹتے ہوئے اچانک ہماری سماعتوں سے اللھم صلے علیٰٰ کی آواز ٹکرائی۔ہمارے گروپ کی خواتین بس کا مائیک لے کر درود پاک پڑھ رہی تھیں۔رضوانہ تو باقائدہ ان کے ساتھ مل کر درود پاک اور نعت پڑھنے لگی۔لیکن میں آنکھیں موندے ان کی ادائیگی سے لطف اندوز ہونے لگی۔ذکر اس پاک ہستی کا تھا جن کی ذات وجہء وجود کائنات ہے ۔جنہوں نے ہمیں ہمارے مقصد حیات سے روشناس کرایا۔عشق اور ادب کے اس اعلیٰ مقام پر زبان گنگ، کان سراپا سماعت اور آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔میرا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔مختلف خواتین نے بہت سا نعتیہ کلام پڑہا۔اگرچہ انکی آواز،ادائیگی اور تلفظ بہت اعلیٰ درجہ کا نہیں تھا لیکن انکے جذبے اور عقیدت رسول کسی تعارف کے محتاج نہیں تھے۔
اسی عشق رسول نے تو میری ملاقات میرے شوہر نامدار سے کرائی تھی۔انہوں نے مجھے احمد ندیم قاسمی کی نعت سنا کر اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اسکی دولت ہے فقط نقش کف پاء تیرا
ان دنوں ان کے بٹوے میں واقعی نقش کف پاہوا کرتا تھا۔وہ میں نے ان سے لے لیاتھا۔ وہی نقش میرا مہر محبت بھی تھا۔اور شادی کے بعد حق مہر بھی
بقول علامہ اقبال
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
اسی عشق اور اسی نقش کف پا کی بدولت ہمیں ایک دوسرے کی رفاقت،اعلیٰ تعلیم،ناروے کا سفر، اولاد بھرپور ازدواجی زندگی اور سکون قلب نصیب ہوئے۔۔۔۔
میرے خیالات کا سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب بس ایک کھلی سی عمارت کے سامنے رکی۔ سب لوگ باہرنکل کے اپنا سامان اتارنے لگے۔ تھوڑی دیر میں عمارت کا چوکیدار نمودار ہوا اور چابیاں شاہدہ کے حوالے کیں۔ عمارت دو حصوں پر مشتمل تھی اور ہمیں عقبی حصے میں جگہ دی گئی تھی۔ صدر دروازے سے ہم ایک راہداری میں داخل ہو گئےجس کےدونوں طرف کمرے تھے اور تقریبا وسط میں بائیں جانب سے سیڑھیاں اوپر کی منزل کی طرف جا رہی تھیں۔ راہداری کے آخر میں ایک عقبی دروازہ بھی تھا جو باہرجھیل کی طرف کھلتا تھا۔اس وقت تو ہر کسی کو اپنا کمرہ حاصل کرنے کی جلدی تھی لیکن——
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں