سفر ہے شرط(قسط نمبر5)

ڈاکٹر شہلا گوندل


ٹیکسیاں روانگی کے لیے تیار تھیں اور سب لوگ اپنی نشستوں پر براجمان ہو چکے تھے- شاہدہ نے کمرہ نمبروں کے حساب سے حاضری لگاتے ہوۓ سب کی موجودگی کی توثیق کی- ان کی طرف سے روانگی کا اشارہ ملتے ہی دونوں ڈرائیوروں نے ٹیکسیوں کا رخ انسپیریا سائنس سینٹر کی طرف موڑ دیا- فراٹے بھرتی ہوئی ٹیکسیاں منٹوں میں منزل مقصود پر پہنچ گئیں اور ہم نے اپنے آپ کو ایک جدید طرز کی بہت ہی خوبصورت عمارت کے سامنے پایا۔ عمارت کے داخلی دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر ہم سب نے ڈھیروں تصویریں بنائیں اور گروپ فوٹو بھی بناۓ- اسی اثناء میں شاہدہ ٹکٹ خرید کر لا چکی تھیں جو ایک بینڈ کی شکل میں ہماری کلائیوں میں آ گۓ- ایک قطار میں ہم سب عمارت میں داخل ہو گۓ جہاں دیو ہیکل ڈائنو سار ہمارے استقبال میں کھڑے تھے-
سرخ، سبز، سرمئی، مٹیالے، مختلف رنگوں کے، ہر عمراور جسامت کے بہت سارے ڈائنو سارجنکو دیکھتے ہی ہمارا بچپنا عود کر واپس آ گیا-اس دو منزلہ عمارت میں نچلی منزل میں زیادہ تر ڈائنو سارہی تھے، بڑے ، چھوٹے،انڈوں سے نکلتے ہوۓ بچے،اور انڈے- دم ہلاتے، منہ کھول کر چنگھاڑتے ہوۓ عفریت دیکھ کر ہم نے بچوں کی طرح خوف اور انبساط کی ملی جلی کیفیت کا سامنا کیا- ویسے بھی ہمارے علاوہ وہاں پر کافی سارے بچے اپنے والدین کے ساتھ آۓ ہوۓ تھے- رضوانہ کا کہنا تھا کہ زیادہ تر بچے اپنے باپوں کے ساتھ تھے کیونکہ ویک اینڈ پر نارویجین مائیں بچوں کو انکے باپوں کے حوالے کرکے خود دوسرے کام نپٹاتی ہیں اور باپ اپنے بچوں کو گھماتے پھراتے ہیں- یوں گھر کے کام بھی بآسانی ہو جاتے ہیں اور بچے بھی خوب موج کرتے ہیں- سب لوگوں کی طرح ہم نے بھی ہرڈائنو سارکے ساتھ کھڑے ہوکر مختلف پوز بنا بنا کے تصویریں اور ویڈیوزبنائیں-
نیچے والے ہال کو مسخر کرنے کے بعد ہم لوگ اوپر والے ہال میں چلے گۓ جہاں پر بہت سارے سائنسی مظاہر کے آلات لگے ہوۓ تھے۔ کہیں مقناطیسیت، کہیں برقیات، کہیں دباؤ اور کہیں کشس ثقل کا مظاہرہ۔ بچوں کو سائنس کے عوامل سمجھانے کے لیے بہترین جگہ۔ اس کے علاوہ بہت ساری ویڈیوگیمز بھی تھیں وہاں پر۔ میں نے اور رضوانہ نے سارے ہال کا تفصیلی جائزہ لیا، ایک دوکھیلوں میں حصہ لیا، سینٹی میٹروں میں اپنے قد کی بالکل درست لمبائی معلوم کی اور واپس نیچے والے ہال میں آگۓ۔ ایک کونے میں دو بچے لکڑی کے مختلف سائز کے ٹکڑوں کو اوپر تلے رکھ کے ایک بڑا سا مینار بنانے میں مصروف تھے- انہوں نے بڑی مہارت سے کافی اونچا مینار بنا لیا تھا اور اب وہ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے تھے کیونکہ ذرا سی لغزش سے سارا مینار زمیں بوس ہو جاتا۔ پاس ہی دو کرسیاں اور ایک میز پڑا تھا جس پر میں اور رضوانہ بیٹھنا چاہتے تھے لیکن ایک کرسی پر ایک بہت ہی خوبصورت، کالے بالوں اور گلابی گالوں والی بچی بیٹھی لکڑی کے مینار کا بننا دیکھ رہی تھی۔ شکل سے وہ کسی عرب ملک کی لگ رہی تھی۔ رضوانہ نے مجھے خالی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود اس بچی کا گال تھپتپاتے ہوۓ نوشک میں اس کا نام پوچھا۔ بچی نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ ڈر کے ساتھ ہی کھڑے اپنے والد کے پاس چلی گئی اور یوں انتہائی غیر محسوس طریقے سے وہ کرسی خالی ہو گئی- رضوانہ اس کرسی پر بیٹھ گئی اور ہم دیر تک اپنی حرکت اور اس بچی کی معصومیت پر ہنستے رہے۔ اس روز ہم بھی چھوٹے چھوٹے بچےہی تھےجو اپنی بے ضرر ہو شیاری پر بڑے شاداں تھے- اس دوران بچے لکڑی کے ٹکڑوں سے مینار کی بلندی میں مزید اضافہ کر چکے تھے-ہم نے تالیاں بجا کر ان بچوں کو داد دی اور اب ہمیں بھوک بھی محسوس ہو رہی تھی۔ بیگ سامان خورد و نوش سے بھرا ہوا تھا اس لیے کوئی فکر نہیں تھی- ہم نے پراٹھا کباب رول کے ساتھ پیپسی کا ایک ایک کین پیا اور اللہ کا شکر ادا کیا جس نے بھوک میں اتنے شاہی لنچ سے نوازا-ساتھ ہی ساتھ بچوں کے کھیل کی داد بھی جاری تھی اور اب تو کافی لوگ ادھر اکٹھے ہو چکے تھے۔ ہمارے گروپ کے لوگ بھی اب ادھر آ گۓ تھے۔ وہ بھی ان بچوں کو دیکھ کر تالیاں بجا رہے تھے، تصویریں اور ویڈیوز بنا رہے تھے۔ ہمارے پاس جو اضافی رول تھے وہ ہم نے اپنے کچھ گروپ ممبران کو دے دیے تاکہ وہ بھی ہماری طرح پیٹ پوجا کر لیں- بچے اب تک بڑے انہماک سے مینار کو بنانے میں مصروف تھے اور انہوں نے لکڑی کا آخری ٹکڑا تک مینار پہ رکھ دیا تھا۔ ان نارویجین بچوں کی مستقل مزاجی نے ہمیں بہت متاثر کیا- پھر خود ہی انہوں نے ہاتھ مارمار کےاسے زمین بوس کردیا۔ ہر طرف لکڑیوں کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے اور کھیل ختم ہو چکا تھا۔ اسی دوران بالائی ہال میں ایک شو کا وقت بھی ہو چکاتھا۔ ہم لوگ اوپر جا کر وہ شو دیکھنے کے لیے قطار میں کھڑے ہو گۓ۔ ان بچوں اور لنچ کے چکر میں ہم پہلے ہی ایک دو ایسے شوز نہیں دیکھ پاۓ تھے-جلد ہی ہماری باری آ گئ اور ہم ایک بڑے سے دروازے سے گزر کر ایک ہال میں داخل ہو گۓ۔کوئی پچاس کے قریب دو رویہ کرسیاں لگی ہوئی تھیں اور درمیان میں راہداری تھی۔ سامنے ایک چھوٹا سا سٹیج بھی تھا اور چھت پر گول گنبد نما سکرین لگی ہوئی تھی۔ جب سب لوگ بیٹھ چکے تو روشنیاں گل کر دی گئیں اور ایک بہت ہی پیاری اور سمارٹ نارویجین لڑکی سٹیج پر آئی اور اس نے نوشک میں خوش آمدید کہا اور ساتھ ہی گنبد نما سکرین پر منظر بدلنے لگے۔ ہم سب سر اٹھا کر اوپر چھت کی طرف دیکھنے لگے۔پہلے ہمیں تاروں بھرا آسمان نظر آیا اور پھر ایک سیٹلائیٹ جس نے زمین کے گرد پورا چکرلگایا-جلد ہی ہم چاند پر پہنچ گۓ۔ تین جہتی فلم اور نوشک لڑکی کی کمینٹری نے اس سارے منظر کو حقیقت کے قریب ترین کر دیا تھا۔
ہم لوگ خلاؤں کے مسافر بن کر ستاروں کے سنگ سنگ چل رہے تھے۔ چاند کے بعد سارا نظام شمسی اور پھر پوری ملکی وے کہکشاں بہت پیچھے رہ گۓ تھے۔ اب ہم مختلف بروج سے گزر رہے تھے۔ میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو،حوت، حمل، ثور، جوزا، سرطان، اسد، سنبلہ، پورے بارہ بروج منظر پر ابھرے اور بہت پیچھے رہ گۓ۔ میرے دل ودماغ میں قرآن پاک کی سورۃ نمبر پچاسی ، البروج کی پہلی آیت، “اور آسمان برجوں والے کی قسم ” گونجنے لگی۔

یقینا یہ بہت بڑی قسم ہے جو خالق کائنات نے کھائی ہے۔اس کے بعد نجانے کتنی کہکشائیں اور بلین ٹریلین نوری سالوں کے فاصلے پر موجود اجرام فلکی۔ اتنی بڑی کائنات، اتنا مکمل اور درست حساب۔ اگر تخلیق اتنی عمدہ اور وسیع ہے تو خالق کیا ہو گا؟ سبحان اللہ۔ ہر تخلیقی شاہکار دیکھنے کے بعد خیال تو اس کے خالق کی طرف ہی مڑ جاتا ہے نا ! میرے خیالات کا سلسلہ اس وقت منقطع ہوا جب ہمارا واپسی کا سفر شروع ہوا اور ہم انہیں راہوں سے ہوتے ہوۓ واپس اس ہال میں پہنچ گۓ جہاں نوشک بچی نوشک میں ہماری تشریف آوری کا شکریہ ادا کر رہی تھی-پوری کائنات کی سیر ہم نے چند لمحوں میں کر لی تھی۔ روشنیاں جل چکی تھیں اورکہکشاؤں کی سیر کا وہ سہانا سفر ختم ہو چکا تھا۔ اب وہ لڑکی دروازے میں کھڑی سب جانے والوں کا شکریہ ادا کر رہی تھی۔ میں نے بھی باہر نکلتے ہوۓ اس کا بہت زیادہ شکریہ ادا کیا حالانکہ میری نوشک کی علمیت چند جملوں اور کچھ الفاظ تک محدود ہے- باہرآتے ہی ڈائنوسار شو شروع ہو چکا تھا۔ عمارت کے وسط میں موجود سب سے بڑے ڈائنوساروں کے گرد دھواں ہی دھواں تھا، ساتھ انکی آوازیں اور چنگھاڑ۔ ہم لوگ ادھر سیڑھیوں میں ہی رک گۓ۔ سب لوگ دونوں منزلوں میں اور سیڑھیوں پر کھڑے وہ مناظر دیکھ رہے تھے۔ ایک نوشک لڑکا، ہاتھ میں مائیک پکڑے نوشک میں ڈائنوسارز کے بارے میں بتا رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ مجھے تو ایک لفظ سمجھ نہیں آیا لیکن اتنا تو میں بھی جانتی ہوں کہ اس مخلوق کی پیدائش اور پھر معدومیت کےبعد، انکی ہڈیوں سے اللہ تعالی نے ہم انسانوں کے استعمال کے لیے نامیاتی ایندھن کے ذخائر پیدا کیے۔ میری محویت اس وقت ٹوٹی جب مجھے ایک زوردار چھناکے کی آواز آئی۔ یہ رضوانہ کی پلاسٹک کی بنی ہوئی پانی سے بھری بوتل تھی جو اس کے ہاتھ سے چھوٹ کے سب سے بڑے ڈائنوسارکے قدموں میں گر کر کرچی کرچی ہو چکی تھی۔ میں نے پلاسٹک کو اس سے پہلے کبھی اس طرح ٹوٹتے ہوۓ نہیں دیکھا تھا۔ شو ختم ہوا تو ہم نے ٹوٹی ہوئی بوتل کی باقیات میں سے رضوانہ کی دوائی والی ڈبی ڈھونڈ نکالی جو بوتل کے ڈھکن میں تھی۔ ایک آدھ گولی بچی تھی جبکہ باقی ساری ڈائنوسارز کے انڈوں میں گم چکی تھیں۔ اس کے علاوہ ایک اور شو بھی تھا جو وقت کی کمی کے باعث ہم لوگ نہیں دیکھ پائے۔ باقی گروپ ممبران نے وہ اس وقت دیکھ لیاتھا جب ہم لوگ لنچ میں مصروف تھے۔ خیر کھانا بھی ضروری تھا۔ اسکے بعد ہم لوگ سووینئرز کی دوکان پر گۓ۔ رضوانہ نے اپنی دونوں بیٹیوں کے لیے تحائف خریدے اور میں نے بھی اپنے چاروں بچوں کے لیے چیزیں لیں۔ بڑی بیٹی کے لیے نیک تمناؤں والےسبز رنگ کے گروئنگ کرسٹل، بڑے بیٹے کے لیے آور گلاس، چھوٹی بیٹی کے لیے لپ اسٹک کی شکل والا اریزر، سٹرابری والی پینسل، اور چھوٹے بیٹے کے لیے ارضی نقشے والی گیند۔۔۔۔۔ تین دن کے بعد خالی ہاتھ بچوں کے پاس جانا اچھا نہیں لگنا تھا نا ! اور ہاں باریک لکھی ہوئی چیزوں کو پڑھنے اور ہاتھ کی لکیروں کو دیکھنے کے لیے ایک محدب عدسہ بھی لیامیں نے۔ خریداری کے بعد وہاں پر موجود صوفوں پر بیٹھ کے آتے جاتے بچوں، خواتین و حضرات اور ان کی حرکات و سکنات کا بھر پور مشاہدہ کیا۔ خاموشی سے بیٹھ کرصرف مشاہدہ کرنا میرا پرانا اور پسندیدہ مشغلہ ہے۔ میری محویت اس وقت ٹوٹی جب ٹیکسیوں کی آمد کا اعلان ہوا۔ ایک بار پھر اپنا رخت سفر سمیٹ کر ہم لوگ ٹیکسیوں میں سوار ہو چکے تھے۔ اس بار منزل ہمارا ریسٹ ہاؤس تھی اور ہم تقریبا تین چار گھنٹوں کے اس مختصر سےٹرپ میں کائنات کے کھربوں سالوں پہ محیط سفر کا مشاہدہ کر آۓ تھے۔ خالق کائنات نے ایسے ہی تو نہیں فرمایا “اور زمین کی سیر کرو”۔ واپسی پر کئی ہنگامہ خیزیاں ہماری منتظر تھیں !!! مزید جاننے کے لیے انتظار کیجیے اگلی قسط کا۔۔۔ جاری ہے۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں