سفرہے شرط(قسط نمبر3)

ڈاکٹر شہلا گوندل

اعلان کیا گیا کہ سب اپنا سامان راہداری میں رکھ کے اوپر کامن روم میں اکٹھے ہو جائیں ۔ وہاں پر سب کو اپنے اپنے کمرے الاٹ کیے جائیں گے۔
ہم نے اپنا سامان راہداری میں رکھا اور کامن روم میں پہنچ گئے۔ صاف ستھری میزوں کے ساتھ تقریبا 50 کے قریب کرسیاں ترتیب سے لگی ہوئی تھیں۔ ساتھ ہی چھوٹا سا واش روم بھی تھا۔ ایک کھڑکی سے خوبصورت جنگل کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ ایک دروازہ باہر بالکونی میں بھی کھلتا تھا اور بالکونی سے سڑھیاں نیچے صدر دروازے تک چلی جاتی تهـیں-ہم نے بالکونی میں کھلنے والے دروازے کے ساتھ دو کرسیوں پر قبضہ کیا اور آرام سے بیٹھ کر باقی خواتین کی سرگرمیوں سے لطف اندوز ہونے لگیں۔ انکی اپنے کمروں کےحصول کے لیے فکر مندی، دوسری خواتین کے ساتھ کمرے کی شراکت کے مسائل، کون کسی کے ساتھ رہ سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
گروپ میں بچوں نے اس شام بڑا کام کیا۔ بس میں لادا گیا سامان خوردونوش تقریبا بچوں نے ہی بالکونی والے دروازے سے کامن روم سے ملحقہ باورچی خانے میں منتقل کیا- سارے بچے فرشتوں کی طرح قطار اندر قطار لفافے اور تھیلے اٹھا اٹھا کر لارہے تھے- بچوں نے آتے ہی ٹیم ورک کا آغاز کر دیا تھا اور بڑے اندیشئہ قیام شب میں گھلے جا رہے تھے۔ مختلف آوازوں کی بھنبھناہٹ میں ایک بارپھر ایک نرم اور شیریں آواز سماعتوں میں رس گھولنے لگی۔ یہ شاہدہ تھیں جو سب کو یقین دہانی کرا رہی تھیں کہ سب کو کمرے ملیں گے لیکن پہلے ہم کاغذ پہ موجود کمرہ نمبروں میں چار چار کے گروپ بنا لیں۔ میں اور رضوانہ دو لوگ تھے اور دو اور لوگوں کے ساتھ ہم نے کمرے کی شراکت داری کرنا تھا۔ مختلف گروپ بننے لگے۔ ایک بار پھر رضوانہ کی حاضر دماغی ہمارے کام آئی اور اس نے ایک ایسی خآتون کے ساتھ گروپ بنا لیا جنکے ساتھ ان کا بارہ تیرہ سال کا بیٹا تھا۔ یہ تو ہم دیکھ ہی چکے تھے کہ کمروں میں دو منزلہ بستر تھے اس لیے ہمیں اپنےساتھ ان لوگوں کا انتخاب کرنا تھا جو با آسانی اوپر والے بستر پر سو سکیں۔ رضوانہ تو اوپر والے بستر پر چڑھ سکتی تھی لیکن میرے لیے تو یہ تقریبا نا ممکن تھا۔ بچے والی خاتون کا انتخاب کرنے میں ہمارا مقصد یہ تھا کہ بچہ اوپروالے بستر پر جا سکتا تھا اس لیے ایک دو منزلہ بستر وہ ماں بیٹا لے لیتے اور دوسرا میں اور رضوانہ! ہم نے جلدی سے اپنا گروپ بنا کر شاہدہ کے پاس کمرہ نمبروں میں سے ایك میں اپنے نام لكهـوا دئیے- ہمارے کمرے کا نمبر 107 تھا اور ہمارے کمرہ ساتھیوں کے نام عابدہ اور بن یامین تھے۔ 107 کے نمبر پر یکدم میں چونک پڑی- یہ میرے اس گھر کا نمبر تھا جہاں میں نے اپنا بچپن اور لڑکپن گزارا تھا- میرا 107 نمبر گھر جہاں پر رہتے ہوئے میں نے میٹرک اور ایف ایس سی کی۔ وہ گھرجہاں میری ماں کی آوازیں آج بھی بازگشت بن کر گونجتی ہیں۔ جہاں میرے ابا جان میرے سوتے ہوئے چہرے سے عینک اتار کر اور بستر پہ پڑی کتابیں اٹھا کر سائیڈ ٹیبل پر رکھتے تھے- جہاں میرا بھائی بجلی کا مین سوئچ بند کر کے مجھے پڑھائی سے اٹھاتا تھا تاکہ میں کھانا کھا لوں۔ آہ میراگھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بار پھر میں اپنے لڑکپن اوراوائل جوانی کے دنوں میں کھو چکی تھی——- ابھی جاری ہے

اپنا تبصرہ لکھیں