سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی دینے کے لئے استعمال کیا جانے والا پھندہ کون اور کہاں تیار کرتا ہے، اس کی قیمت کتنی ہوتی ہے؟ انتہائی حیران کن معلومات پہلی مرتبہ آپ بھی جانئے

سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی دینے کے لئے استعمال کیا جانے والا پھندہ کون اور کہاں تیار کرتا ہے، اس کی قیمت کتنی ہوتی ہے؟ انتہائی حیران کن معلومات پہلی مرتبہ آپ بھی جانئے

پھانسی دینے سے قبل جیل حکام ہی تمام امور انجام دیتے ہیں۔ جس رسے سے پھانسی دی جاتی ہے، وہ ساہیوال جیل میں قیدی بناتے ہیں، جس کی قیمت 12ہزار روپے تک ہے۔ جلاد کے بقول یہی رسہ تمام جیلوں میں پھانسی کے لئے استعمال ہوت اہے۔ اس نے مزید بتای اکہ ”پھانسی دینے سے قبل قیدی کا وزن کیا جات اہے۔ بہت کم قیدی ایسے ہوتے ہیں جو سوکلو وزن کے ہوتے ہیں۔ ایک روز قبل قیدی کی پھانسی کی ریہرسل کی جاتی ہے۔ اس کی گردن کی پیمائش کی جاتی ہے۔ قیدی کے وزن کے مطابق رسہ ڈالا جاتا ہے اور اسی وزن سے ڈبل وزن کا ایک مٹی کا گٹو (توڑا) باندھا جاتا ہے اور اس وزن کو لٹکا کر رسے کو چیک کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل اور چیف چکر کی ذمہ داری ہوتی ہے تاکہ اگلے روز صبح کے اوقات میں کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو۔ یہ پھانسی سے ایک روز قبل کی ریہرسل ہے۔“ کیا کبھی کسی کوپھانسی دینے میں تردد بھی ہوا اور یہ احسا س ہوا کہ اسے میرے ہاتھوں سے پھانسی نہیں ہونی چاہیے تھی یا پھر کبھی کسی کو پھانسی دینے سے انکار بھی کیا؟ تو اس نے کہا ”تردد تو اس صورت میں ہو کہ ہم کسی کو جانتے ہوں او ریہ معلوم ہو کہ یہ بے گناہ ہے۔ ظاہر ہے جو پھانسی کا قیدی ہوتا ہے، وہ دس بارہ برس عدالتوں میں پہلے اپنا کیس لڑتا ہوا پھانسی کے تختے تک پہنچتا ہے۔ اس سے ہماری کوئی شناسائی نہیں ہوتی۔ ہاں البتہ جیل ملازمین جن کے پاس وہ سالہاسال رہتا ہے، ان لوگوں کو بعض اوقات کسی کے پھانسی پانے پرافسوس ہوسکتا ہے،یا پھر کوئی معروف شخصیت ہوتی ہے تو اس پر تردد کیا جاسکتاہے، جیسا کہ بھٹو کے حوالے سے کہا جات اہے۔ یہ بات بھی میں نے اپنے بڑوں سے سنی ہے کہ جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے لئے صادق مسیح کو کہا گیا تھا ، اس وقت دو جلاد تھے۔ ایک صادق مسیح اور دوسرا تارا مسیح۔ دونوں بھائی تھے۔ یہ دونوں میرے قریبی رشتے دار ہیں۔ صادق مسیح کو جب بھٹو کو پھانسی دینے کو کہا گیا تو اس نے انکار کردیا اور کہا کہ وہ بھٹو کو پھانسی نہیں دے گا۔ اس پر تارا مسیح کو کہا گیا کہ وہ پھانسی لگائے۔ چنانچہ دوسرے بھائی تارا مسیح نے بھٹو کو پھانسی دی تھی۔ یہ بات ہم نے اپنے بڑوں سے سنی ہے۔ یہ واقعہ ایسا ہے کہ تاریخ میں کسی جلاد نے کسی کو پھانسی دینے سے انکار کیا تھا۔ اس کے علاوہ اور ایسا کوئی واقعہ میری زندگی میں نہیں ہوا جو میں کہہ سکوں کیونکہ ہم لوگوں کی نوکری ہی لیور کھینچنے کی ہے، چاہے وہ کوئی عام شخص ہو یا ملک کا وزیراعظم ہو۔ اس وقت دونوں ہمارے لئے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارے بڑے پھانسی پانے والے مجرموں کے بارے گھر میں بات کیا کرتے تھے۔ اس وقت وہ اپنے اپنے تجربات ایک دوسرے کو بتارہے ہوتے تھے کہ اس نے آج کس کو پھانسی پر لٹکایا اور اس کی کیا کیفیت تھی۔ یا پھر اس شخص کی جان کتنی دیر میں نکلی وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے بڑے یہ بھی بتاتے تھے کہ 1985ءتک سزائے موت کے قیدیوں کو دیکھنے والوں میں مقتولین کے وارثوں کو بھی اجازت ہوتی تھی کہ وہ قاتل کو تختہ دار پر چڑھتے ہوئے دیکھ سکتے تھے لیکن بعد میں اس پر جونیجو دور میں پابندی عائد کردی گئی۔ میرے ذاتی خیال میں اس پر پابندی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس وقت قیدی کی جو حالت ہوتی ہے، اس کے پیش نظر اس کی معافی کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ جس طرح وہ پھانسی گھاٹ تک لایا جات اہے، اگرمقتول کے وارث اسے دیکھ لیں تو بہت ممکن ہے کہ ان کا دل پسیج جائے اور وہ اسے معاف کردیں۔ لیکن اب ایس انہیں ہوتا۔ اس لئے زیادہ تر قیدیوں کو لٹکادیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستانی عدالتوں میں قتل کے فیصلے بہت دیر سے ہوتے ہیں۔ اس کے پس پشت یہ مقصد بھی کارفرماہوتا ہے کہ عدالتیں ایک تو ٹھوس ثبوت کے بغیر کسی کو سزائے موت نہیں دیتیں۔ دوسرے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کیس کو زیادہ لمبا کیا جائے، مقتولین کے دل پسیج جائیں اور صلح کی کوئی صورت نکل سکے، تاکہ کسی کو پھانسی نہ دی جائے۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ نقصان مقتول کے ورثا کا ہاتا ہے، جو سالہاسال عدالتوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ بہرحال یہ عدالتی معاملات ہیں۔“ آکری وقت میں کبھی کسی قیدی سے کسی حوالے سے گفتگو بےھی ہوئی۔ اکثر قیدی کس قسم کی گفتگو کرتے ہیں۔ تو اس پر اس کا کہنا تھا ”بعض قیدی بڑے دھڑلے سے تختہ دار پر آتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ ہمیں موت کا کافی عرصے سے انتظار تھا، اب یہ انتظار ختم ہورہا ہے۔ رسی کو خود گلے میں ڈالنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ تختہ دار پر کھڑے ہوکر زور زور سے پاﺅں مارتے ہیں اور بڑھکیںلگاتے ہیں۔ بہت ساری شعبدہ بازیاں کرتے ہیں۔ جو قیدی توبہ تائب ہوجاتے ہیں، وہ کلمہ اورسورتیں پڑھتے ہوئے تختہ دار تک آتے ہیں۔ بعض قیدی نعرہ تکبر کی صدائیں بلند کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو جس پہرے سے نکال کر لایا جاتا ہے، وہاں دیگر قیدی انہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے سامنے ان کی سبکی ہو اور بعد میں یہ قیدی ان کے حوالے سے یہ بات نہ کریں کہ فلاں پھانسی پانے والا روتا ہوا گیا ہے۔ یعنی آخری وقت تک وہ اپنا وقار قائم رکھنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔“ یہ دوسرے قیدیوں سے الگ کال کوٹھڑی میں نہیں ہوتے اور انہیں دیگر قیدیوں سے بالکل الگ تھلگ نہیں رکھا جاتا؟ تو اس پر جلاد کے بجائے قیدیوں کی کوٹھریوں پر پہرہ دینے والے ملازم نے بتایا ”سزائے موت کا الگ بلاک ہوت اہے، جس میں باقی لوگوں کی گنتی بھی ہوتی ہے۔ اس بلاک میں سب کی الگ الگ تاریخیں لگی ہوتی ہیں۔مثلاً سزائے موت کے سیشن کورٹ سے پھانسی پانے والیے الگ بلاک میں ہوتے ہیں، جن کا کیس اب ہائیکورٹ میں ہوگا۔ اسی طرح ہائیکورٹ سے پھانسی پانے والیے الگ ہوں گے، جن کا کیس سپریم کورٹ میں چل رہا ہوگا اور سپریم کورٹ والے الگ ہوں گے، جن کی معافی کی اپیل صدر کے پاس موجود ہوگی اور آخری پہرہ ان کا ہوتا ہے جن کی صدر سے اپیل خارج ہوچکی ہوتی ہے اور ان کی پھانسی کی تاریخ مقررہوجاتی ہے۔ یہ تمام پہرے ایک ہی سزائے موت بلاک میں ہوتے ہیں۔ اس لئے سب ایک دوسرے کو دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک سزائے موت کے قیدی کو نکال کر لایا جاتا ہے تو اسے دیکھنے والے بہت ہوتے ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر ان کا بھی یہی حشر ہونا ہے۔ بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو صلح کے بعد سزائے موت کے بلاک سے نکل جاتے ہیں۔“
آپ کے سامنے ایسا کوئی واقعہ ہوا ہو کہ کسی کو عین تختہ دار سے واپس کردیا گیا ہو؟تو اس نے بتایا ”پھانسی پانے والوں کو آخری وقت تک اس بات احتمال رہتا ہے کہ ان کو معا فی مل جائے گی اور یوں پھانسی پر لٹکنے سے بچ جائیں گے۔بہت سارے قاتل معافی حاصل کرکے پھانسی سے بچ جاتے ہیں۔لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ اور پھانسی گھاٹ پر عین تختہ دار پر معافی کے واقعات تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔واہ کینٹ کے ایک مجرم کو پھانسی دینے کے لیے مجھے اٹک جیل بلا یا گیا۔اس کا نام نہیں بتاﺅں گا۔وہ ایک پکی عمر کا شخص تھا۔اس نے زمین کے تنازعہ پر قتل کیے تھے۔واقعہ یہ تھا کہ 14کنال زمین پر کسی سے اس کا جھگڑا ہوا۔اس پر اس شخص کا بھائی قتل ہوگیا،تو اس نے سیشن کورٹ میں اپنے دو مخالفین کو جن پر اسے یقین تھا کہ انہوں نے اس کے بھائی کو قتل کیا ہے ،پیشی کے موقع پر بھری عدالت میں قتل کردیا۔جب کہ سیشن جج کے ریڈر کو بھی کندھے پر گولی لگی اور اس کا بازوضائع ہوگیا۔عین وقت پر جب کہ اس کی پھانسی ہونی تھی ،اس کے لواحقین نے صلح کی کوشش شروع کردی تھی ،اور مدعی اسے معاف کرنے کے لیے آگئے۔اس کی وہ بھابھی جس کا شوہر قتل ہوا تھا اور اس کے بھتیجے بھی آگئے اور اسے کہنے لگے کہ صلح کی بات ہو گئی ہے۔اس پر اس نے پوچھا کہ صلح کس شرط پر ہوئی ہے ،تو انہوں نے کہا کہ 14کنال زمین مدعیوں کو دی جائے گی۔اپنا گھر بار چھوڑ کر دوبارہ واہ کینٹ کے علاقے میں نہیں آئے گے۔مدعی سپرنٹنڈیٹ کے دفتر میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ہم انہیں یہ سب کچھ لکھ کر دیں گے تو وہ آپ کو معاف کردیں گے۔اس پر اس شخص نے کہا کہ یہ صلح مجھے منظور نہیں۔میں علاقہ بھی چھوڑ دوں گا ،گھر بار بھی چھوڑ دوں گا ،لیکن زمین انہیں نہیں دوں گا۔البتہ زمین بیچ کر اس کی قیمت انہیں دے دوں گا ،وہ زمین انہیں کسی صورت نہیں دوں گا،جس کے لیے میرا بھائی قتل ہوا ،اور اس کے بعد مجھ سے دو قتل ہوئے اور ایک شخص کا بازو ضائع ہوا۔اس کی بھابھی اور بچوں نے بہت زور لگایا کہ خدارا ضد چھوڑ دیں اور یہ 14کنال زمین انہیں لکھ دیں۔لیکن اس شخص نے یہ بات مان کر نہ دی۔چنانچہ عین وقت پرجو صلح ہورہی تھی،وہ وہیں ٹوٹ گئی اور وہ شخص پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مجھے سو فیصد یقین تھا کہ پھانسی نہیں ہوں گی ،لیکن اس شخص نے صرف14کنال زمین کی قیمت دینے پر رضا مندی ظاہر کی ،لیکن زمین کسی صورت انہیں نہ دینے کی ضد پر اپنی جان دے دی۔

اپنا تبصرہ لکھیں