ساون بھادوں اور بارہ ماسہ

Selected byAbdul Mateen Muniri
 انتظار حسین  
 
ہم تو گھروں میں بند بیٹھے رہے مگر بتانے والے بتاتے رہے کہ قیامت کی بارش ہوئی ہے۔ جا بجا جل تھل ہو گئے۔ صبح دم اٹھے تو مطلع صاف تھا۔ بھادوں کے تیور کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ساون کی جھڑی مشہور ہے۔
بھادوں میں جھڑی نہیں لگتی۔ بس دم کے دم میں گھٹائیں امنڈتی ہیں۔ جھل تھل ہو جاتے ہیں۔ بس اسی طرح دم کے دم میں گھٹا چھنٹ جاتی ہے تارے نکل آئے یا دھوپ چمکنے لگی۔ ساون بھادوں سال کے مہینوں میں نرالے مہینے ہوتے ہیں۔ ان کی اپنی ادا ہوتی ہے۔ گھڑی میں رَن میں‘ گھڑی میں بن میں۔ ارے ہم کیا کھا کے ان مہینوں کو بیان کریں گے۔ انھیں کچھ بیان کر پائے ہیں تو وہ بارہ ماسے والے ہیں۔ اے لو ایک بارہ ماسے بلکہ بارہ ماسے سے بڑھ کر تیرہ ماسہ ہمارے سامنے ہے۔ بھادوں کا بیان ملاحظہ کیجیے ؎
لگا بھادوں برسنے خوب گھنگھور
اٹھا چاروں طرف سے مور کا شور
گرج بادل کی اور دادر کی بولی
مرے دل میں لگی ہے جیسے گولی
گھٹا کالی کبھی جھک جھک کے آئیں
برس کے دم کی دم میں صاف جائیں
سکھی بھادوں بھی دیکھو خوب برسا
مگر برسات کو جی میرا ترسا
زمیں سے آسماں تک جل کا اک تھل
سکھی آتش بجھی میری نہ اک پل
سکھی ری عقل سے یہ میں نے چینا
کہ ہے منحوس بھادوں کا مہینا
بھرن برسے کبھی ہو صاف جائے
لگے گرمی کبھی جاڑا ستائے
ارے ہنسا تُو اڑ کر پی سے کہنا
بہت پردیس میں ہر گز نہ رہنا
بارہ ماسوں میں ساون بھادوں کچھ اسی رنگ سے بیان کیے جاتے ہیں۔ مگر بیچ بیچ میں یہ جو لفظ ایک نئے رنگ کا اعلان کر رہے ہیں جیسے آتش‘ عقل‘ منحوس۔ بارہ ماسے میں تو یہاں وہاں تک ہندی رنگ چھایا ہوتا ہے۔ عربی فارسی لفظوں کا تو مشکل ہی سے گزر ہوتا ہے۔
اصل میں اس وقت ہمارے سامنے الخیر یونیورٹی (بھمبر) کے شعبہ اردو کے شایع کردہ مجلہ تحقیقی زاویے کا تازہ شمارہ ہے۔ وہاں بارہ ماسوں پر کام کرنے والے ایک نو وارد محقق نے ہماری آنکھوں سے اوجھل ایک اور ہی بارہ ماسہ دریافت کر ڈالا ہے۔ اردو میں سب سے معروف بارہ ماسہ نہ افضل جھنجھانوی کا ہے جس کا عنوان بکٹ کہانی ہے۔ اس کا تازہ ایڈیشن اسی عنوان سے پچھلے برسوں میں اتر پردیش اردو اکیڈمی (لکھنئو) نے شایع کیا تھا۔
ہندی اور دوسری علاقائی زبانوں میں اس کی جو مشکل بنی تھی اس سے نباہ کرتے ہوئے افضل نے سراسر اسی لسانی رنگ کو روا رکھا تھا جس میں فارسی عربی لفظوں کو مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ مگر شاعری کتنی ہی مقامی رنگ میں رنگی ہوئی ہو اردو شاعر کو اس وقت تک لطف نہیں آتا جب تک وہ عربی فارسی کا ہلکا سا چھنٹا نہ دے لے۔ ادھر الخیر یونیورسٹی کے نو وارد محقق۔ ڈاکٹر سہیل عباس نے اردو مخطوطوں کی کھدائی کر کے ایک نیا بارہ ماسہ برآمد کیا ہے۔ یہ انیسویں صدی کے اواخر کی تحریر ہے۔ اس کے مصنف کا نام ہے طالب۔ طالب صاحب نے بہت کچھ گھومتے پھرتے لکھا ہے۔
آج یہاں کل وہاں۔ گھومتے پھرتے بندرا بن جا پہنچے۔ یہ بارہ ماسہ وہیں بیٹھ کر لکھا گیا اگرچہ شایع ہوا مطبع اودھ اخبار لکھنئو سے۔ تو یہ جدت طالب صاحب نے دکھائی ہے کہ اس میں فارسی عربی لفظوں کا بھی چھینٹا دیدیا ہے۔ آخر انھیں یہ بھی تو ثابت کرنا تھا کہ ہندی ملی جلی اردو میں بھی بارہ ماسہ لکھا جا سکتا ہے۔ عنوان انھوں نے کتنی گاڑھی اردو میں لکھا ہے جیسے یہ بارہ ماسہ تصوف کی کتاب ہے۔ عنوان ہے مثنوی رموز العارفین معروف بہ تیرہ ماسہ طالب۔ مگر طالب صاحب نے بارہ ماسہ کو تیرہ ماسہ کس خوشی میں بنا دیا۔ محقق بتاتا ہے کہ بارہ ماسے ہندی کیلنڈر کے حساب سے لکھے جاتے ہیں۔ ’’اور چونکہ بکرمی سمت میں ہر چوتھے برس لوند کا مہینہ ملا کر تیرہ مہینے بن جاتے ہیں۔ اس لیے طالب نے بھی لوند کا مہینہ ملا کر تیرہ ماسہ لکھا ہے‘‘۔
اس تیرہ ماسے میں ایک امتیازی وصف ہمیں یہ نظر آیا کہ اس میں اشیا کے نام بڑے اہتمام سے گنائے گئے ہیں۔ جیسے پرندوں کے نام‘ رنگوں کے نام‘ غذائوں‘ مٹھائیوں اور پکوانوں کے نام۔ خیر ان رنگا رنگ ناموں کا ذکر بعد میں آئے گا۔ پہلے ذرا اس بارہ ماسے کے ابتدائیے پر نظر ڈال لیجیے۔ بارہ ماسے کو اردو کا جامہ پہناتے پہناتے تھوڑا اسلامی تہذیب کا رنگ بھی دیدیا گیا ہے ؎
پیا کی حمد لگتی ہے پیاری
پیا میرا خدا میں اس پہ واری
ارے وہ صانع بے مثل و یکتا
کیا ارض و سما ہے جس نے پیدا
مگر ہے یہ طفیل اس مصطفی کا
بیاں اس کی کروں میں کیا ثنا کا
اسی نے کفر اور یاں شرک توڑا
بنا کے اے بوا شریعت کا کوڑا
صفت پھر چار یاروں کی کروں کیا
کیا ہے دین احمد کو ہویدا
درود اور فاتحہ پڑھ ان پہ جانی
سخن کی پھر سنا طالب کہانی
لیجیے چیزوں کے نام جس شوق سے یہ گناتے ہیں وہ رنگ بھی دیکھ لیجیے۔ یہ رنگوں کا بیان ہے ؎
کپاسی‘ کشمشی رنگت رنگائی
رنگائی یاں کسی نے سبز کائی
امّوا‘ کاسنی‘ زنگاری‘ خاکی
کرنجوہ و سنہرا اور لاکھی
بسنتی‘ صندلی‘ جستی‘ و زردی
پسند آئی کسی کو لاجوردی
ملا گیری‘ کسی نے کہربائی
کسی نے دیکھو عنابی رنگائی
شنجرفی‘ شربتی‘ ماشی وآبی
پیازی اور ککریزی گلابی
ارے اس شخص نے تو رنگوں کی قطار لگا دی ہے۔ اس سے آگے بھی کتنے رنگ گنائے ہیں۔ مگر ہمیں ایک ڈیڑھ اور مثال بھی تو پیش کرنی ہے۔ ملاحظہ کیجیے اب غذائوں اور ذائقوں کی رنگا رنگی ؎
کسی نے کوفتہ اور کھایا قلیہ
دہی پوری کسی نے کر کے دلیا
کسی نے شیر مال اور نان آبی
خطائی نان کھائیں بھرر کابی
کسی نے بھرتہ بیگن کا پکایا
کسی نے گوبھی کی بھجیا کو کھایا
کوئی کھائے کریلا‘ مولی‘ شلجم
کسی کو دال اور روٹی کا ہے غم
زمیں قند‘ اور میٹھی‘ کوئی آلو
کوئی کھائے شکر قند اور رتالو
واضح ہو کہ یہ مغلئی دسترخوان نہیں ہے۔ نان قورمہ بریانی ندارد۔ یہ تو قصباتی دیہاتی کھانا پینا ہے۔ اسی حساب سے غذائوں کے نام گنائے ہیں۔
اب ذرا پرندوں اور چارپایوں کا بیان بھی ہو جائے؎
پرند اور چار پائے واں ہیں بھینا
شتر‘ شیر اور چڑیا‘ پدی‘ مینا
ٹٹیری‘ پودنا‘ خرگوش‘ گلگل
اری روباہ و جھانپل اور کویل
بیا‘ تیتر‘ بٹیر اور کنج ہیں واں
پوا، ہدہد‘ پپیہا‘ ارے مری جاں
کبوتر‘ مرغ اور صدہا گلہری
چکور و باز اور طائوس ٹھہری
وغیرہ وغیرہ

ساون بھادوں اور بارہ ماسہ“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں