(سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن ؒ کے نام)

راجہ محمد عتیق افسر
اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات ،قرطبہ یونیورسٹی پشاور
03005930098، attiqueafsar@yahoo.com
کچھ دن پہلے ایک تحریر نظر کے سامنے سے گزری جس میں لکھا تھا کہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے جو لٹریچر چھوڑا ہے اس میں ایک کتاب سید منور حسن ؒبھی تھے۔ اس ایک جملے نے سید منور حسن ؒ کی شخصیت کو جامع ترین انداز میں بیان کر دیا ہے ۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے جو تحریریں لکھی ہیں اور جو تحریک برپا کی ہے اس کی مجسم شکل سید منور حسن ؒ نے اپنی زندگی میں خود کو اس کا پیکر بنا کر دنیا کے سامنے رکھ دی ہے ۔ قرون اولی میں خاصان خدا کے اخلاص اور للہیت کے بارے میں جو کچھ پڑھا تھا وہ سب سید منور حسن ؒ کی شخصیت میں عملی طور پر نظر آتا ہے ۔ عصر حاضر میں قرونِ اولی ٰ کی یادگار ایسے وقت میں ہمیں داغ ِ مفارقت دے گئی جب دنیا میں نیکی کے پروردہ لوگ چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ۔ گزشتہ برس 26 جون 2020 کو سید منور حسن ؒ کی رحلت کی دلخراش خبر دل پہ بجلی بن کر گری تھی ۔سید منور حسن ؒ کی رحلت سے جماعت اسلامی سمیت عالمی اسلامی تحاریک میں جو خلاء پیدا ہوا وہ کبھی پورا نہیں کیا جا سکے گا۔ قیادت کے معاملے میں قحط الرجال کا شکار امت مسلمہ کے لیے سید منور حسن ؒ کا انتقال ایک حادثے سے کم نہیں ۔اندھیری شب میں چراغ بن کر قافلے کو روشنی دینے والارہبر انہی تاریک راہوں میں قافلے کو چھوڑ کر منزل مراد کی جانب روانہ ہو گیا۔ اللہ تعالی ٰ اس مرد ِدرویش کی خدمات کو اپنے دربار میں قبول فرمائے اور انہیں آخرت میں نبی مہربان ﷺ کے قول کے مطابق ان امتیوں میں شامل فرمائے جو بغیر کسی حساب و کتاب جنت میں داخل ہوں گے۔آمین
گھنے درخت کے نیچے سلا کر چھوڑ گیا
عجیب شخص تھا سپنے دکھا کے چھوڑ گیا
سید منور حسن نامی اس کتاب کی ترتیب بھی نرالی ہے اسکا پہلا باب ہی ہجرت ہے ۔آپ کی پیدائش 1941 کو دہلی میں ہوئی اور آپ اس وقت ایک طفل ناتواں تھے جب آپ کے بزرگوں نے پاکستان کی خاطر ہجرت کی ۔ اپنا سب کچھ ایک ایسی ریاست کی خاطر چھوڑ کرنکلے جو اسلامی نظام زندگی کی خاطر قائم ہوئی ۔ اب چشم تصور سے وہ مناظر دیکھیئے اور محسوس کیجیے کہ کس کرب کے ساتھ ایک طفل ناتواں نے وہ سفر طے کیا ہوگا ۔راستے کی تکالیف کو کیسے دیکھا ہوگا کیسے سہا ہو گا ۔ہجرت کے لیے نکلے قافلوں کو لٹتے پٹتے اور قافلے والوں کو خنجروں اور برچھیوں کی نذر ہوتے دیکھا ہو گا۔ان کے دل و دماغ میں پاکستان کے ساتھ وطنیت کا تعلق کس قدر مظبوط ہوا ہو گا ۔ایک محفوظ گھر کی صورت میں ملنے والے وطن کے لیے ان کے جذبات کیا ہوئے ہوں گے ۔پھر ایک نئی سرزمین پہ بے سرو سامانی کے عالم میں نئے سرے سے آبادکاری کیسے کی گئی ہو گی۔یہ سب کچھ انہوں نے بچپن میں دیکھا ہوگا تو ان کی پوری زندگی میں اس کے کیا اثرات ہوئے ہوں گے ۔ان کی شخصیت پہ پاکستانیت کی چھاپ کس حد تک گہری ہوئی ہو گی ۔
غربت کی ٹھنڈی چھاؤں میں یاد آئی اس کی دھوپ
قدر وطن ہوئی ہمیں ترک وطن کے بعد
اس کھلی کتاب کا دوسرا باب بھی ہجرت ہی ہے ۔ سید صاحب کو اگر صحیح معنوں میں مہاجر الی اللہ کہا جائے تو یہ ان کی شخصیت کی سب سے بہترین نمائندگی ہو گی ۔ہجرت کی سختیوں سے گزر کر پاکستان آنے والے اس خاندان نے تعلیم کے ساتھ وابستگی جاری رکھی۔ منور حسن صاحب کے والد شعبہ تعلیم سے تعلق رکھتے تھے ۔ ایک مدرس کے گھر پرورش پانے کی وجہ سے تعلیم کے ہر زینے پہ امتیازی درجات کے ساتھ قدم رکھا۔ایک جانب تعلیم میں اعلی کارکردگی دکھائی تو دوسری جانب غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی اپنا لوہا منوایا۔اپنی قابلیت اور قائدانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر آپ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم این ایس ایف کے مرکزی صدر بن گئے ۔ یہ تنظیم سیکولر اور سوشلسٹ نظریات رکھنے والی پاکستان کی سب سے بڑی تنظیم تھی ۔ اسکے مرکزی صدر کے عہدے پہ فائز ہونے کا مطلب پاکستان کے تمام ملاحدہ کا سربراہ ہونا تھا ۔مگر اسی وقت رب نے انہیں اپنی رحمت میں لے لیا ۔ وہ ایک بار پھر ہجرت کر گئے ۔ اس بار انہوں نے وطن نہیں بدلا بلکہ اس بار انہوں نے نظریہ بدلا ۔ وہ سیکولر اور شوشلسٹ نظریات کو چھوڑ کر سید ابولاعلی ٰ مودودی ؒ کے قافلے میں شامل ہو گئے ۔ اسلامی جمیعت طلبہ میں شامل ہونے کے بعد مختلف منازل طے کرتے ہوئے اسلامی جمیعت طلبہ کے ناظم اعلی ٰ بن گئے ۔ وہ الحاد کی چوٹیوں سے ہجرت کر کے اسلامی نظریہ حیات کے آفاق میں پناہ گزین ہوئے اور تا حیات انہی آفاق پہ ستارہ بن کر چمکتے رہے ۔
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح ِ امم کی حیات کشمکش انقلاب
سید منور حسن نامی اس کتاب کا ایک باب جہاد فی سبیل اللہ بھی ہے ۔جب 1965 میں بھارت نے پاکستانی سرحدات کو عبور کرنے کی کوشش کی تو پاکستان کے شہریوں نے افواج پاکستان کے ساتھ مل کر دشمن کے عزائم کو خاک میں ملایا۔آپ اس وقت اسلامی جمیعت طلبہ کے ناظم اعلی ٰ تھے ۔ ناظم اعلی ٰ کی حیثیت سے آپ نے تمام پاکستان میں جمیعت کے کارکنان کو شیری دفاع میں حصہ لینے کی ہدایات جاری کیں ۔ ان کی ہدایت پہ وطن عزیز کے تمام گوشوں میں اسلامی جمیعت طلبہ نے شہری دفاع کے فرائض انجام دیے ۔یہی وہ بنیاد تھی جس پہ 1971 میں البدر اور الشمس کی صورت میں دفاع پاکستان کی تنظیمیں بنیں اور پندرہ ہزار کے لگ بھک شہداء کو وطن عزیز پاکستان کے اسلامی تشخص کو دشمن کے عزائم سے بچانے کے لیے قربان کردیں ۔ البدر اور الشمس کے شہداء تحریک اسلامی کے لیے آخرت کا اثاثہ اور وطن عزیز پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہیں ۔دشمن سے نبرد آزما ہونے والے قافلے رکے نہیں افغانستان ، کشمیر اور دیگر ستم رسیدہ علاقوں میں امت مسلمہ کے شاہین مسلسل رسم ِشبیری ادا کررہے ہیں ۔سید منور حسن نے ہر موقع پر ان تحاریک کی حمایت کی اور ایسا جوش اور ولولہ عطا کرتے رہے جس کی بدولت ان تحاریک کو نئی روح عطا ہوئی ہے۔سید منور حسن ؒ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے امیر جماعت اسلامی پاکستان کی حیثیت سے جماعتی پالیسی دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دی کہ جو لوگ ریاست پاکستان پہ کسی بھی طرح حملہ آور ہوتے ہیں ان کے ساتھ جماعت اسلامی کا کوئی تعلق نہیں ۔اگر جماعت اسلامی کے ساتھ وابستگان کا کسی ایسے گروہ یا اشخاص سے تعلق ہے جو ریاست کے خلاف ملوث ہیں تو وہ جماعت اسلامی سے تعلق ختم کر دیں یا ان ریاست دشمن عناصر سے لا تعلقی اختیار کریں ۔ یہ فیصلہ انہوں نے اس وقت کیا جب سیاسی قیادتیں دہشت گردوں کے خوف کی وجہ سے محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے تھیں ۔عالمی دباؤ کے تحت جنرل مشرف کی گھماؤ پالیسی(یو ٹرن) پہ سید صاحب نے شدید تنقید کی کیونکہ اسی غلط پالیسی کے نتیجے میں پاکستان کے اداروں اور آبادی کو شدید جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ۔سید منور حسن نے امریکہ کےاتحادی بن جانے کی پالیسی پہ سوالات اٹھائے۔ان سوالات کی بنیاد پہ انہیں میڈیا پہ فوج مخالف کے طور پہ پیش کیا گیا۔اسکے باوجود سید منور حسن ؒ نے مقتدر اداروں کا قانون کے دائرے کے اندر رہ کر مردانہ وار مقابلہ کیا۔سید منور حسن ؒ ہی وہ شخصیت تھے جنہوں نے دوران جنگ فوج کے شانہ بشانہ وطن عزیز کے لیے دشمن سے لڑنے کی طرح ڈالی لیکن مقتدر اداروں نے انہی کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کیا۔
خون سے ہم نے گلشن سینچا رنگ بھی بخشا پھولوں کو
پہلی فصل میں اہل چمن نے پیش ہمیں کو خار کیے
لٹریچر اگر مولانا مودودی ؒ کا ہو تو وہ دعوت الی اللہ سے خالی نہیں ہو سکتا ، اسی طرح اس کتاب کا ایک باب دعوت الی اللہ بھی ہے ۔ سید منور حسن ؒ نے تحریک اسلامی کو اختیار کرتے ہوئے بھی اس کے ایک ایک پہلو کو جانچ کر اسے سمجھ کر اختیار کیا تھا۔ سید صاحب نے اسی تحریک کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا دیا تھا ۔آپ نے اپنی گفتگو ، اپنی تحریر اور اپنی تقریر کے ذریعے خود کو تحریک اسلامی کے لیے وقف کیے رکھا اور داعیان حق کے لیے ایک دھڑکتے دل کا کردار ادا کرتے رہے ۔آپ اسلامی جمیعت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور دعوت الی اللہ کی راہ پہ چلتے ہوئے اسکے سب سے اعلی ٰ درجے تک جا پہنچے ۔ بعد ازاں آپ جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے تو انہوں نے دعوت الی اللہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ۔ آپ نے اپنی شیریں گفتگو اور انداز تحریر کے ذریعے جماعت اسلامی کی تنظیم کو وسعت دی ۔شیریں سخن تو تھے ہی ، آپ کی باتیں پھول بن کر برستی تھیں ۔ جس نے آپ کو بولتے ہوئے سنا ہے اس پہ سحر طاری ہوا ہے ۔ مستیٔ کردار سے پر آپ کے الفاظ دل کی کھیتی کو سیراب کرتے تھے اور سننے والے کی شخصیت پہ اپنا اثر چھوڑتے تھے ۔ آپ اور آپ جیسے دیگر مخلصین کی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ کراچی جیسی گنجان آبادی میں جماعت اسلامی عوام کے دلوں کی ڈھڑکن بن گئی۔کارکن کی حیثیت سے جماعت اسلامی کا پرچم تھامے سید منور حسنؒ جماعت اسلامی کے قائد بن گئے۔ آپ تقریبا 22 برس تک جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل رہے اور پھرقاضی حسین ؒ احمد کے بعد جماعت اسلامی کی امارت سنبھالی ۔آپ نے جماعت اسلامی کے امیر کی حیثیت سے کارکنوں کی راہنمائی کی اور مشکل وقت میں آگے بڑھنے کے لیے راہ ہموار کی ۔بقول اقبال ؒ طاغوت کو اگر خطرہ ہے تو اسی سیاست اسلامی سے ہے ۔
الحذر آئین پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفریں
موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لئے
نے کوئی فغفور و خاقان، نے فقیر رہ نشیں
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں
جماعت اسلامی تطہیر افکار اور تعلق باللہ کی تحریک ہے جو بندوں کو رب سے جوڑنے کا عزم رکھتی ہے ۔اجتماعی و انفرادی زندگی میں خدا خوفی اور تقوی ٰ اس کی خصوصیت ہے ۔ منور حسن ؒ نامی اس کتابِ رشد کا ایک نمایاں باب خشیئت الٰہی اور زہد بھی ہے ۔ منور حسن ؒ ایک صوفی و درویش منش انسان تھے۔ایک ایسے وقت میں جب دنیا نیک ہستیوں سے خالی ہو صدق و صفا کا پیکر بن جانا اور دین کی خاطر عزیمت کی زندگی کو اختیار کرنا ایک کڑی آزمائش سے کم نہیں ۔ سید صاحب نے ایک طویل عرصہ مرکزی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان اور بعد ازاں امیر جماعت اسلامی پاکستان بھی رہے ۔ آپ پارلیمان کے رکن بھی رہے اور 1977 کے الیکشن میں اسوقت کے مقبول ترین وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو سے بھی زیا دہ ووٹ حاصل کر کے اسمبلی کے ممبر بنے لیکن جب آپ کے اثاثوں کی بات ہوئی تو ایک چھوٹے سے گھر ،جو وراثت میں ملا تھا کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں تھا بلکہ ان پہ کچھ قرض تھا ۔اس دور میں اگر عمر بن عبدالعزیز ؒ کی جھلک دیکھنا ہو تو سید منور حسن ؒ اس کی مثال ہے ۔آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں دیکھ کر خدا یاد آجاتا ہےجنہیں سن کر دلوں میں ایمان بڑھ جاتا ہے جن کی اقتداء کر کے اپنا آپ جنت کا مسافر معلوم ہوتا ہے ۔ آپ امیر جماعت تھے جب آپ کے بچوں کی شادیاں ہوئیں توان کی تقاریب میں وزیر اعظم سمیت وی آئی پی شخصیات نے شرکت کی اور ضیافت چائے اور جلیبی سے کی گئی ۔ یہی نہیں جو تحائف ان کے بچوں کو ملے تھے وہ بھی مرکزی بیت المال میں جمع کرا دیے کیونکہ وہ بھی انہیں امیر جماعت کے منصب کی وجہ سے ملے تھے ۔طویل عرصہ مرکز جماعت میں رہنے کے بعد امیر جماعت کی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ جب اپنے گھر کراچی کی جانب روانہ ہوتے ہیں تو اپنی تمام متاع ایک سوٹ کیس میں ڈال کر روانہ ہو جاتے ہیں ۔ غرض ان کے لباس ، ان کے طور اطوار اور ان کی گفتگو میں سادگی اور انکسار جھلکتا تھا۔ یہ انکسار تو دیگرشخصیات میں بھی نظر آتا ہے لیکن فوٹوشیشن، خود نمائی اور تشہیر ان کی شخصیت کو نکھارنے کے بجائے بگاڑنے کا باعث ہو تی ہیں اسکے برعکس سید منور حسن ؒ کی شخصیت میں پائی جانے والی تواضع و انکساری کسی بناوٹ کا مظہر نہ تھی بلکہ یہ انکی شب بیدار ریاضتوں کا اثر تھا جو ان کی شخصیت سے جھلکتا تھا۔
جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کی
الہی! کيا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سينوں ميں
تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقيروں کی
نہيں ملتا يہ گوہر بادشاہوں کے خزينوں ميں
اس کتاب کا ایک باب اسلامی سیاست بھی ہے ۔سید منور حسن ؒنے مولانا مودودی ؒ کی فکر کے مطابق سیاست کو خدمت اور اصلاح معاشرہ کا ذریعہ بنایا اور سیاست میں شرافت اور نیک نامی کو متعارف کرایا۔ آپ نے اصولوں کی سیاست کو اختیار کیا اور اخلاقیات کو ہمیشہ اولیت دی ۔علاقائی ملکی اور بین الاقوامی سیاست پہ آپ کی گہری نظر تھی ۔ عالم اسلام کے خلاف عالمی صیہونی ایجنڈے کو آپ نے کھل کر واضح کیا اور تحریک اسلامی کو اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے لائحہ عمل فراہم کرتے رہے ۔ صدر ایوب کے مارشل لاء اور جنرل یحیٰ کے مارشل لاء کے خلاف آپ نے عملی جدوجہد کی، بھٹو آمریت کے خلاف کمر بستہ ہوئے ۔آپ نے جمہوری دور میں بھی اور فوجی آمریت میں بھی اسلامی اصولوں کے مطابق سیاست کی ۔ حکمرانوں کے خلاف ڈٹ کر موقف کا اظہار کیا۔حکمرانوں کی اسلام دشمن پالیسیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور حتی الوسع کوشش کی کہ قوم کو غلامی سے نکال کر حقیقی آزادی سے ہمکنار کرائیں ۔یہ سید منور حسن ؒہی تھے جنہوں نے اتحادی سیاست کے بجائے جماعت اسلامی کی جداگانہ حیثیت سے الیکشن میں آنے کا فیصلہ کیا ۔ اس فیصلے سے اگرچہ کو ئی بڑا فائدہ نہیں ہوا لیکن خیبر پختون خوا میں اکثریتی پارٹی یعنی ی ٹی آئی نے از خود حکومت میں شمولیت کی دعوت دی ۔آپ نے موقف کو پیش کرتے وقت بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکرا جانے سے بھی گریز نہیں کیا ۔یہاں تک کہ ایک مقتدر حلقے نے آپ سے معافی کا مطالبہ کیا تو آپ نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر ایک قومی ادارے کی سیاست میں مداخلت پہ نوٹس لینے کی سفارش کر دی ۔قیادت اور سیادت کے لحاظ سے آپ اقبال کے اس شعر پہ پورا اترتے ہیں ۔
نگہہ بلند سخن دلنواز جان پُرسوز
یہی ہیں رخت ِ سفر میر ِ کارواں کے لیے
مولانا مودودی ؒ نے جتنی بھی کتب لکھی ہیں وہ خود کسی دوسری کتاب کا عنوان ضرور بنی ہیں ۔ مولانا کی یہ کتاب بھی متعدد نئی کتب کا عنوان ہے ۔ سید مودودی ؒنے جو کارواں شروع کیا سید منور حسن ؒ نے اس کارواں ی قیادت و سیادت کا حق ادا کیا ۔سید منور حسن ؒ نے اپنے پیچھے ایسے افراد تیار کر کے چھوڑے ہیں جو معاشرے ی رہنمائی کرتے رہیں گے اور انہیں منزل کا پتہ بتاتے رہیں گے ۔اللہ تعالی ٰ منور حسن ؒ کے تربیت یافتہ افراد کو ایمان و صحت کے ساتھ عمر دراز عطا فرمائے اور انہی نیک سیرت ہستیوں کو معاشرے اور امت مسلمہ کی باگ ڈور تھمائے تاکہ بھٹکی ہوئی انسانیت اللہ رب العزت کی طرف لوٹ آئے اور اس زمین پہ عدل کی حکمرانی قائم ہو ۔اقبال ؒ نے اپنی زندگی میں اگر مولانا مودودی ؒ کے تیار کردہ یہ اشخاص دیکھے ہوتے تو وہ اپنے مندرجہ ذیل اشعار کا جواب دیتے ہوئے ضرورکہہ دیتے کہ ميں جنھيں آسمانوں ميں زمينوں ميں ڈھونڈتا تھا وہ گوہر نایاب مجھے ملا ہے مولانا مودودی ؒ کےجان نشینوں میں :
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار
شاعر کی نوا مردہ و افسردہ و بے ذوق
افکار میں سرمست نہ خوابیدہ نہ بیدار
وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار
اقبال ؒکےمطلوب مرد مجاہد مولانا مودودی ؒ نے تیار کیےان میں ایک سید منور حسن ؒ بھی تھے جو پرفتن دور میں بھی ایک پاکباز اور دیندار زندگی گزار کر ہمارے لیے ایک مثال چھوڑ گئے ۔ اللہ تعالی ٰ مرحوم کی خدمات جلیلہ کو اپنے دربار میں قبول فرمائے اور سید منور حسن ؒ کے تربیت یافتہ افراد سے قوم کی رہنمائی اور امامت کا کا م لے اور ہمیں بھی ان برگزیدہ ہستیوں کا فیض عطا فرمائے اور ان کے نقش قدم پہ چلنے ی توفیق عطا فرمائے۔آمین ۔

اپنا تبصرہ لکھیں