زبان پر مہر لگانے کی تیاری میں حکومت !

نہال صغیر
این ڈی ٹی وی پر پابندی کی خبر پر مشہور سماجی کارکن شبنم ہاشمی نے اپنے ٹوئیٹ میں فیض کے کچھ اشعار لکھے ہیں ۔
زبان پہ مہر لگی ہے تو کیا ،
کہ رکھ دی ہے حلقہ زنجیر میں زبان میں نے
/ متاع لوح قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
،کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
مودی حکومت کے ابتدائی ایام میں ہی غالبا اپنی سالگرہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایمرجنسی کا خطرہ ٹلا نہیں ہے ۔اس وقت بھی کئی صحافیوں نے اس جانب اشارہ کیا تھا کہ مودی حکومت ناکامی کی صورت میں جب بری طرح تنقید میں گھر جائے گی تب وہ وہی فارمولہ اپنائے گی جو اندرا گاندھی نے ایمر جنسی کی صورت میں اپنایا تھا۔آج مطلع صاف ہو تا جارہا ہے ۔مودی حکومت بڑی تیزی کے ساتھ غیر اعلان شدہ ایمرجنسی کی جانب گامزن ہے ۔اس سلسلے کی پہلی کڑی این ڈی ٹی وی پر یک روزہ پابندی ہے ۔یہ حکومت کا ایسڈ ٹیسٹ ہے ۔اس میں کامیاب ہو جانے کے بعد اس سے آگے قدم بڑھائے گی ۔ایسا لگتا بھی ہے کہ مودی حکومت غیر اعلان شدہ ایمرجنسی نافذ کرنے میں پوری طرح کامیاب ہو جائے گی ۔ایسا کہنے کی وجہ بھی ہے کہ ابھی تک جن معاملات کے سلسلے میں غیر اعلان شدہ پابندی لگتی جارہی ہے اس کے لئے احتجاج میں وہ قوت نہیں دکھتی جو نظر آنی چاہئے ۔حکومت نے بڑی کامیابی کے ساتھ وطن پرستی اور گائے پرستی کو عوام کے دماغ میں ٹھونسنا شروع کردیا ہے ۔اس سلسلے میں کوئی کھل کر مخالفت نہیں کررہا ہے بلکہ دفاعی پوزیشن میں کچھ بیانات ہیں اور بس ۔یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ دفاعی پوزیشن میں زیادہ سے زیادہ آپ خود کو محفوظ کرسکتے ہیں لیکن جنگ نہیں جیت سکتے ۔اگر اس آمرانہ طرز عمل پر کامل فتح چاہئے تو پوری قوت سے صدائے احتجاج بلند کریں جس سے ایوان اقتدار کو کوئی مثبت اور واضح پیغام جائے ۔بے جان احتجاج اور پوچ رویہ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
موجودہ حکومت کی جانب سے این ڈی ٹی وی پر پابندی ہمیں 1982 میں جگن ناتھ مشرا کی پریس بل کی یاد دلا تا ہے جب بہار اسمبلی نے پریس کے اختیارات کو محدود کرنے اور آزادی صحافت پر قدغن لگانے کے لئے بل پاس کیا تھا ۔جب نہ تو الیکٹرانک میڈیا کا وجود تھا اور نہ ہی سوشل میڈیا کی کوئی سوچ تھی ۔لیکن اس وقت جو چیز بہت اہم تھی وہ تھا صحافت کا ایماندارانہ مزاج اور ان میں صحافتی برادری کے تئیں اتحاد و یگانگت ۔آج 34 سال بعد ہم دیکھتے ہیں کہ صحافیوں اور اخبارات یا میڈیا کے مالکان میں باہم اتحاد اشتراک کی کمی ہے ۔آئے دن صحافیوں کو غنڈہ عناصر کے عتاب کا شکار ہونا پڑتا ہے ۔بات بات پر ان کے خلاف مقدمات کئے جاتے ہیں ۔لیکن کوئی ان کی خیر خبر لینے والا نہیں ہے۔ابھی کل ہی ٹاٹا کے دفتر کے سامنے صحافیوں کو غنڈوں نے پیٹا ۔بعد میں مقدمات درج ہوئے لیکن کیا اس سے صحافیوں کو کام کرنے اور سوال پوچھنے کی آزادی کا احساس مل پائے گا ۔ان تین دہائیوں میں وقت کتنا بدل گیا ہے ۔کل صحافی اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے ساری پریشانیوں کو جھیل جاتا تھا ۔اسے سکون تھا کہ وہ ایک مشن کے ساتھ ہے ۔وہ مشن تھا معاشرے سے خوف کو دور کرنا اور خوف مسلط کرنے والوں کو خوفزدہ کرنا ۔لیکن آج پورا معاشرہ خوف کا شکار ہو چکا ہے ۔جس کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری تھی کہ وہ معاشرے کے برے عناصر کو طشت از بام کرے وہ خود خوف کا شکار ہے یا سرمایہ داروں اور مافیا کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکا ہے ۔ایک بہار پریس بل کے خلاف صحافیوں نے ملک گیز پیمانے پر جو اتحاد کا شاندار نمونہ پیش کیا تھا وہ ہی کافی ہے ان کی سنجیدگی کو ثابت کرنے کے لئے جب ایک دن یا دو دن احتجاجاً پورے ملک سے کوئی اخبار شائع نہیں ہو ا تھا ۔صحافیوں کے اس بے مثال اتحاد نے جگن ناتھ مشرا کو وہ متنازعہ بل واپس لینے پر مجبور کردیا تھا ۔لیکن آج ہم اس کی سخت کمی محسوس کرتے ہیں۔کافی کاوشوں کے بعد ایک ماہ قبل مہاراشٹر میں ریاست گیر پیمانے پراپنا احتجاج درج کروایا تھا ۔ایسا نہیں ہے کہ اچھے صحافی موجود نہیں ہیں ۔وہ موجود ہیں لیکن خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں ۔میں خود بھی حق گوئی کی پاداش میں تنہائی کا شکار ہوں۔ایسے صحافیوں کی حمایت کا اعلان تو کیا جاتا ہے احتجاج بھی ہوتا لیکن اس میں وہ قوت نہیں کہ وہ حکومت کے آمرانہ رویہ کو تبدیل کرسکے ۔اسے یہ سوچنے پر مجبور کردے کہ اگر اس نے اپنی آمرانہ روش میں تبدیلی نہیں کی تو حکومت گر بھی سکتی ہے ۔بقول انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹر کمل جھا ’بری صحافت شور زیادہ مچا رہی ہے ،جو پانچ سال قبل اتنا شور نہیں مچا رہی تھی ۔ان کا کہنا ہے کہ اچھی صحافت مر نہیں رہی بلکہ توانا ہو رہی ہے ۔لیکن مجھے ان کے اس خیال اختلاف ہے ۔آج اچھے صحافی اور اچھی صحافت ممکن ہے کہ مضبوط ہو رہے ہوں لیکن یہ بات تو حقیقت ہے کہ وہ توانا کے ساتھ ہی تنہا بھی ہو رہے ہیں ۔ان کی تنہائی کا ہی فائدہ اٹھا کر ان کی آواز خاموش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ان کے سوال اٹھانے پر سوال اٹھائے جارہے ہیں ۔ان سے کہا جارہا ہے کہ وہ سوال نہ اٹھائیں ۔اس رویہ پر ہی رویش کمار کہتے ہیں ’’ہمارا کام ہی سوال پوچھنا ہے ،ہم سوال نہیں پوچھیں گے تو کیا کریں گے‘‘۔غور سے پڑھئے ان کے اس بیان میں کتنی بے بسی ہے ۔میں نے محسوس کیا ہے کہ ان کی باتوں اور سوال پوچھنے کی سنجیدگی میں بھی تبدیلی آرہی ہے ۔آخر وہ بھی انسان ہے اگر وہ تنہا ہو جائے گا تو ایک دن خاموش بھی ہو جائے گا ۔یہ نقصان رویش کمار کا نہیں ہمارا ہو گا ۔ضرورت ہے کہ ہم بے حسی کی چادر اپنے اوپر سے ہٹائیں اور حق گو صحافی اور ایمادارانہ صحافت کی حمایت میں صرف زبانی نہیں عملی طور پر بھی میدان میں آئیں ۔ ہمیں خود کو نقصان سے بچانے کے لئے یہ بتانا ہوگا رویش یا راجدیپ جیسا صحافی تنہا نہیں ہے ۔اگر وہ ہماری آواز ہے تو ہم بھی اس کی قوت ہیں۔
اپنا تبصرہ لکھیں