روزے کاکیا مقصدہے اور یہ کیوں فرض ہیں۔

روزے کاکیا مقصدہے  اور یہ کیوں فرض ہیں۔
عارف کسانہ

Profilbildet til Arif Kisana

عارف کسانہ

سویڈن

نما ز و روز  و حج و زکوات
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں

رمضان کا چاند نظر آتے ہی سب ایک دوسرے کو مبارک با د  دے رہے تھے۔ سب بہت خوش نظر آ رہے تھے ۔ فرقان نے اپنے چچا سے پوچھا کہ سب لوگ کیوں خوش ہو رہے ہیں اور ایک دوسرے کو رمضان کی مبارک کیوں دے رہے ہیں؟  بیٹا رمضان بہت مبارک مہینہ ہے۔ یہ اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے اور اِس میں مسلمان روزہ رکھتے ہیں اوربہت عبادت کرتے ہیں۔روزہ پانچ ارکانِ اسلام میں سے ایک ہے اوریہ نماز اور زکوٰة کی طرح فرض ہے۔ لوگ خوش ہورہے ہیں کہ اُن کی زندگی میں ایک بار پھر یہ مبارک مہینہ آیا ہے۔ رمضان کے مہینہ میں ہی اللہ تعالٰی نے قرآن نازل کیا تھا ۔ قرآن کا ملنا اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اِس پر چل کر ہم اِس دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے یہ بھی کہا ہے کہ قرآن ملنے پر خوشی منانی چاہیے اِسی لیے رمضان کے بعد ہم عید منا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
روزہ کا مطلب کیا ہے۔ فرقان نے پوچھا۔
اُس کے چچا بتانے لگے کہ عربی زبان میںروزہ کو صوم کہتے ہیںاور اِس کا معنی ہے  اپنے آپ کو روکنا ، اپنے آپ پر ضبط کرنا۔ مطلب یہ کہ صبح صادق سے پہلے سے لے کر غروبِ آفتاب تک  اپنے آپ کو کھانے پینے اور تمام برائیوںسے مکمل روکنا۔اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں کہا ہے کہ روزے مسلمانوں پر فرض کیے گئے ہیں جس طرح پہلی اُمتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔ اور یہ گنتی کے دِن ہیں یعنی رمضان کا پورا مہینہ روزے رکھنا ہوتے ہیں۔
روزے کیوں فرض کئے گئے ہیں۔ کیا اللہ تعالٰی نے اِس کی وجہ بتائی ہے۔ فرقان نے پھر پوچھا۔
چچا جان۔ اللہ تعالٰی نے جو بھی ہیں حکم دیا ہے ساتھ ہی اُس کی وجہ بھی بتائی ہے۔ قرآنِ پاک میں ہے کہ روزے اِس لئے فرض کئے گئے ہیں تاکہ تم متقی بنو۔ متقی کا مطلب یوں سمجھو کہ اگر ایک شخص جھاڑیوں کے درمیان سے گذر رہا ہو اور اُس نے کپڑے بھی قدرے کھلے پہنے ہوںتو وہ اپنے کپڑوں کو اُن جھاڑیوں سے بچا کر چلتا جائے اِسی طرح زندگی میں جو برائیوں اور غلط کاموں سے بچ کر چلنے کو خواہش رکھے وہ متقی ہو گا اور روزہ  رکھنے سے یہ مقصد حاصل ہوتا ہے۔روزہ رکھنے سے اللہ پر ایمان کا اظہار ہوتا ہے۔روزہ دار اگر بالکل اکیلا بھی ہے اور اُسے خوب بھوک اور پیاس ہے ، کوئی اُسے دیکھ بھی نہیں رہا مگر وہ نہ کچھ کھائے گا نہ پیئے گا کیونکہ اُسے یقین ہے کہ اللہ اُسے دیکھ رہا ہے۔ یہی ایمان اور سوچ اُس کے ساتھ جب ہمیشہ رہتی ہے تو وہ برائیوں اور غلط کاموں سے بچا رہتا جو کہ روزوں کا مقصد ہے۔
فرقان ۔آپ کا مطلب ہے کہ روزہ انسان کی اصلاح اور تربیت کرتا ہے
چچا جان۔ بلکل۔ روزہ نظم و ضبط سکھاتا ہے۔ سحری کے وقت جب ہم کھا رہے ہوتے ہیں لیکن جونہی روزہ بند ہونے کا وقت ہوتا ہے ہم کھانا پینا فوراََ بند کردیتے ہیں اور سارا دِن کھانے پینے کی چیزوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے اور افطاری کے وقت ہی کھاتے اور پیتے ہیں۔ اِس طرح کے ڈسپلن کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ اس سے قوتِ برداشت اور مشکل حالات میں کام کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ایثار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور دوسروں کی ضروریات کا بھی احساس ہوتا ہے۔ یہ ایک ماہ کی مسلسل تربیت ہے جو سال کے باقی گیارہ مہینوں کے لئے ہوتی ہے کہ جس طرح اِس ماہ میں غلط کاموں اور برائیوں سے اپنے آپ کو بچایا ہے اِسی طرح بعد میں بھی رہا جائے۔
فرقان۔ روزے کے بارے میں ہمارے پیارے رسولۖپاک نے کیا فرمایا ہے۔
چچا جان۔ آپۖ نے فرمایا ہے کہ روزہ گناہوں سے بچنے کے لئے ایک ڈھال ہے۔حضور پاک ۖنے یہ بھی فرمایا ہے کہ جس شخص نے روزہ رکھنے کے باوجود جھوٹ بولنا اور دوسرے بُرے کام کرنے نہیں چھوڑے اُس کے روزے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اِسی طرح ایک موقع پر آپۖ نے کہا کہ کچھ لوگوں کو روزے سے بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا کیونکہ وہ روزہ رکھ کر بھی وہ غلط کام کرتے ہیں جن سے اللہ نے منع کیا ہے۔ اِس سے واضع ہوگیا ہے کہ روزے کا مقصد صرف بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں بلکہ اپنے کردار کی تعمیر ہے اور جن بُری باتوں سے اللہ نے روکا ہے اُن سے روزے کی حالت میں اپنے آپ کو روکے رکھیں۔ جب رمضان میں یہ تربیت حاصل ہو جائے تو پھراگر سارا سال اُسی طرح بُرائیوںسے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں تو روزے کا مقصد حاصل ہو گا۔
فرقان۔ روزہ رکھنا کن لوگوں پر فرض ہے۔
چچا جان۔ رمضان کے روزے رکھنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہیں۔ بچوں پر روزے رکھنا فرض نہیں لیکن اگر وہ رکھنا چاہیں اور آسانی سے رکھ سکیں تو وہ ایسا کرسکتے ہیں مگر بالغ ہونے کے عمر یعنی چودہ سال کے بعد روزے رکھنا فرض ہیں۔
فرقان۔ چچا جان کِن لوگوں پر روزہ فرض نہیں۔

چچا جان۔ اللہ تعالی ہمارے لئے آسانی چاہتے ہیں اور جو بھی کسی حکم کو ماننے کے قابل نہیں ہوتا اُسے رعائیت دیتے ہیں۔ اِسی لیے قرآن مجید میں ہے اگر کوئی سفر پر ہو یا بیمار ہو اور روزہ نہ رکھ سکے تو وہ رمضان میں نہ رکھے اور سال کے دوسرے دنوں میں رکھ لے اِسے روزہ قضا کرنا کہتے ہیں۔ جو بہت بوڑھے ہوں، جو عورتیں اپنے چھوٹے بچوں کو دودھ پلاتی ہوں یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے نہ رکھ سکیں انہیں بھی اجازت ہے کہ وہ بعد میں رکھ لیں۔ جن لئے روزہ رکھنا بہت ہی مشکل ہو وہ بھی قضا کرسکتے ہیں اور جو لوگ اپنی صحت کی وجہ سے کبھی بھی روزہ نہیں رکھ سکتے وہ کسی ایک مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلا دیں اور اگر زیادہ ضرورت مندوں کو کھلا سکیں تو اور بہتر ہے، اِسے فدیہ دینا کہتے ہیں۔لیکن جو شخص بھی روزہ رکھ سکے اُسے ضرور رکھنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ روزہ رکھ لینا تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھ سکو۔
فرقان۔ چچا جان کیا روزے میں کام کاج کرنا مشکل نہیںہوتا۔
چچا جان۔ روزے میں کام کاج اُسی طرح کرنا چاہیے جس طرح عام دِنوں میں کرتے ہیں۔ مسلمانوں نے تو روزہ رکھ کر بہت سخت کام کیے ہیں۔ مکہ کے کافروں کے ساتھ مسلمانوں کی پہلی لڑائی رمضان کی ١٧ تاریخ کو ہوئی تھی۔ مسلمانوںکی تعداد صرف ٣١٣ تھی جبکہ کافروں کی تعداد اُن سے تین گنا زیادہ تھی اور اُن کے پاس جنگ کا سامان بھی زیادہ تھا۔ مگر مسلمانوں نے اللہ کے بھروسہ پر حضور پاک ۖ کی قیادت میں روزہ رکھ کر جنگ لڑی اور اور کافروں کو شکست دے دی۔ جنگِ بدر کے دِن کو یومِ فرقان بھی کہا جاتا ہے اِس کا مطلب ہے جس دِن حق اور باطل میں فرق بلکل واضع ہوگیا۔اِس جنگ میں صرف چودہ مسلمان شہید ہوئے جبکہ ٧٠ کافر مارے گئے جن میں اُن کا سردار اور رسول پاکۖ کا سخت دشمن ابو جہل بھی شامل تھا۔ مسلمانوں نے ٧٠ کافروں کو گرفتار بھی کر لیا جنہیں بعد میں رہا کردیا۔ تمہیں رمضان اور روزے کے بارے میں کافی باتیں میں نے بتا دی ہیں اب ہم نماز ادا کرنے چلتے ہیں اور پھر سحری کی بھی تیاری کرنی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں