رمضان کی برکات

تاریخ:27-5-15

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

از ڈاکٹر رخسانہ جبین
جنت سا ل بھر سے سجائی جا رہی ہے کچھ بہت ہی معزز مہما نوں کے استقبال کی تیا ریاں ہو رہی ہیں ۔یہ کو نسا مو قع ہے کہ جنت کے سارے دروازے کھول دیے گئے ہیں اور فر شتے آواز لگا رہے ہیں ” اے خیر کے طا لب آگے بڑھ اور بُرا ئی کے طا لب رک جا ۔” ( تر مذی ۔ابن ما جہ )
یہ کو ن سے دن ہیں کہ ر حمت ،مغفرت اور جنت کی سیل لگی ہے، آوازیں دے دے کر بلا یا جا رہا ہے کہ آئو اپنے گناہ معاف کرا لو ۔
آئو ! کہ رب مہر با ن ہے اس سے جو کچھ ما نگو گے عطا کر ے گا ر حمت کی مو سلا دھار با رش بر سنے کو ہے ۔اپنے اپنے دامن پھیلا لو جتنی جتنی رحمت اور بر کت سمیٹ سکتے ہو سمیٹ لو !
آئو کہ شیا طین با ندھ دیے گئے ہیں ۔”دو زخ کے سارے دروازے بند کر دیے ہیں ”(متفق علیہ)
رب تمھارے قر یب آنے کو بے تا ب ہے ۔تمھیں اپنا بنا نے کو تیار ہے ۔آگے بڑھو اس کے دامن رحمت و محبت کو تھا م لو ۔اس سے مانگ کر تو دیکھو ۔اس کے آگے جھک کر تو دیکھو ۔یہ جھکنے کے دن ہیں ،یہ تو بہ و انا بت کے دن ہیں، یہ رمضان المبا رک کے دن ہیں ،یہ بر کت و رحمت کی را تیں ہیں ۔
رمضان المبارک آیا ہی چا ہتا ہے۔ آئیے کچھ سو چیں ، کچھ طے کر لیں کہ رحمت و بر کت کے اس بہتے در یا سے ہم کس طر ح زیا دہ سے زیا دہ جھو لیا ں بھر سکتے ہیں ۔کیسے زیا دہ نیکیاں سمیٹ سکتے ہیں اور تیس دن کی اس مشق سے ہم کس طرح اپنی شخصیت کے اندر ایک نکھار پیدا کر سکتے ہیں۔ اپنے جسم و رو ح کی بیماریوں اور آلو دگیوں کوکس طرح دھو کر پا ک صاف کر دار کی تعمیر کر سکتے ہیں ۔
آئیے سو چیں !مالک نے اپنے بندوں پر یہ رو زے کیوں اور کس مقصد سے فر ض کیے ؟ہم وہ مقصد کس طرح بہتر ین طر یقے سے حا صل کر سکتے ہیں ؟
یہ جا ننا بھی ضروری ہے کہ کون بد نصیب ہو تے ہیں جو ماہ رمضان المبارک پا تے ہیں لیکن نہ رحمتیںسمیٹتے ہیں، نہ کردار کی تعمیر کر پا تے ہیں ،نہ رب کو را ضی کر تے ہیں اور ہلاکت کا شکار ہو جا تے ہیں ۔
٭ ہر وہ کام جو حسن نیت ،سو چ بچار اور منصو بہ بندی کے ساتھ کیا جا تا ہے اعلیٰ طر یقے سے پا یہ تکمیل کو پہنچتا اور بہتر ین نتا ئج کا حا مل ہو تا ہے ۔آئیے! اس سال ہم بھی ایک منصو بہ بنائیں
٭ استقبال رمضان کیسے کر یں گے؟
٭ دوران رمضان خیر اور بھلائی کیسے سمیٹیں گے؟ اپنے اندر سے ایک نیا انسان کیسے دریا فت کر یں گے ؟
٭ بعد رمضان خو د کو کیسے پر کھیں گے کہ رب نے جو بنا نا چا ہا تھا ہم وہ بن پا ئے کہ نہیں ؟
اور ایسا ہر سال تا عمر کر یں گے یہاں تک کہ رب کے پا س پہنچیں تو وہ جنت کے سارے دروازے کھول کر فرشتوںکے جلو میں ہمارا منتظر ہو ۔
۔۔۔۔آمین ۔جو نہی رمضان المبارک کا چا ند نظر آئے رب کے آگے ہا تھ پھیلا دیں ۔صلوة حا جت ادا کر یں۔ اس لیے کہ اس کی تو فیق کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔
و ما تشاء ون الا ان یشاء اﷲ رب العالمین ۔(سورة التکویر 29)”اور تمھارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اﷲ رب العالمین نہ چاہے”
ر ب سے رمضان کی سا عتوں میں بر کت کی دعا ما نگیں ۔صحت اور عا فیت ما نگیں تا کہ کو ئی گھڑی ،لمحہ یا دن کسی و جہ سے ضا ئع نہ ہو ،وقت کے صحیح استعمال کی تو فیق ما نگیں ،گنا ہو ں سے مکمل طور پر بچنے کی کو شش میں اس سے مدد ما نگیں ،زیادہ عبادات ،زیادہ انفاق اور دیگر نیکیوں میں آگے بڑھ جانے کا جذبہ ما نگیں ۔
استغفار کر نے وا لا دل اور ذکر کر نے والی زبان ما نگیں ۔تد بر قر آن اور فہم قر آن کی تو فیق ما نگیں ۔
اور سب سے بڑھ کر اللہ سے یہ دعا ما نگیں کہ اے ہمارے رب! تو نے رو زے جس مقصد سے ہم پر فر ض کیے ہیں اس مقصد پر پور ا اتر نے کی تو فیق عطا فر ما اور ہمیں
بہتر ین تقویٰ عطا فر ما ۔ اور وہ تمام دعائیں جو ما ہ مقدس کے حو الے سے دل میں ہو ں ما نگیں کہ رب مہر بان ہے اور دینے کو بے تا ب ہے ۔
رمضان خیرو برکت کا مہینہ:
جب ہمارے رب کی رحمت پورے جوش میں ہوتی ہے ۔وہ رب جو ہر حال میں رحمان ورحیم ہے ۔جس کی رحمت ہر وقت ساری دنیا پر چھائی ہوئی ہے ۔لیکن اس خاص

ماہ میں خاص رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔رمضان کی ہر صبح اور ہر رات فرشتوں کو مقرر کر دینا ہے جو آواز لگاتے ہیں ۔
”اے خیر کی تلاش کرنے والے متوجہ ہو اور آگے بڑھ،اے برائی کے طالب رک جا ،اس کے بعد فرشتہ کہتا ہے،ہے کوئی اس کی مغفرت چاہنے والا کہ اس کی مغفرت کی جائے ،ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ اس کی توبہ قبول کی جائے ،ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کی جائے ،ہے کوئی سائل کہ اس کا سوال پورا کیا جائے ”(۔۔)
تصور کریں ،کوئی بہت بڑا بادشاہ،بڑا سخی ،بڑا مہربان ،منادی کر رہا ہے ،بہت کچھ دینے کو بے تاب ہے ،محل و دربار سجا کر بیٹھا ہے ،جنت مغفرت ہر چیز سستی کر دی ہے۔ رحمت اور محبت سے منتظر ہے کہ اس کے غلام ،اس کے بندے ،عباد الرحمن اس کی طرف رخ کریں ،ادھر متوجہ ہوں،ہیرے،جوہرات،تخت پوش ،اطلس و دیبا کے لباس ،سونے چاندی کے مکانات ،پھلوں سے لدے باغات،دودھ اور شہد کی نہریں ہیں اورحوریں اور غلمان،طرح طرح کے کھانے،خوان سجائے ،ساغر و جام تھامے، قطاروں میں استقبال کے لیے کھڑے ہیں ۔ہے کوئی جو اس پکار پر کان دھرے؟
”رمضان میں اﷲ جل شانہ متوجہ ہوتا ہے اپنی رحمت خاصہ نازل فرماتا ہے،خطائوں کو معاف فرماتا ہے ،دعائوں کو قبول فرماتا ہے ۔تمھارے تنا فس کو دیکھتا ہے اور فرشتوں پر فخر کرتا ہے پس اﷲ کو اپنی نیکی دکھائو،بد نصیب ہے وہ شخص جو اس مہینے میں اﷲ کی رحمت سے محروم رہ جائے”(طبرانی)
یعنی وہ مالک ارض و السموت عطا کرنے کو بے تاب ہے ،فرشتوں سے بھی یہ کہتا ہے کہ دیکھو میرے بندوں کا تنافس ،یعنی میرے بندے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔وہ میرے قرب کے لیے بے تاب ہیں۔وہ میرے دامن سے چمٹ جانے کے لیے ایک دوسرے سے مسابقت کر رہے ہیںاورایسا ہوتا ہے کہ
٭کوئی زیادہ قرآن پڑھ لیتا ہے۔
٭کوئی زیادہ ذکر ودعا کر لیتا ہے ۔
٭کوئی انفاق میں آگے بڑھ جاتا ہے۔
٭کوئی دوسروں کو دین سکھانے میںرات دن لگا دیتا ہے ۔
٭کوئی خدمت خلق میں بازی لے جانے کی کوشش کرتا ہے ۔
٭جنت کے تو سارے دروازے کھلے ہیں ۔ہر دروازے کی طرف مومنین کی دوڑ لگی ہے ،اوراپنے بندوں سے بے انتہا محبت کرنے والا اﷲ پیار ،محبت شوق سے بے حدو حساب نعمتیں آگے رکھے اپنے پیارے بندوں کو دیکھ رہا ہے ۔کون کس دروازے سے اس کی طرف ان نعمتوں اور انعامات کی طرف آتا ہے !بھلا کوئی اس سے بد نصیب بھی ہو گا جو منہ دوسری طرف پھیر کر کھڑا ہو۔جو دنیا کی چند روزہ زندگی کی طرف مگن ہو اور اس کے کان اس کی پکار سے بہرے ہوں ،اس کے دل کے سوتے بند ہوں۔اس کی آنکھیں اس محدود زندگی سے آگے نہ دیکھ سکتی ہوں۔نہ رمضان کی حقیقت سمجھے نہ قدر کرے نہ محنت کرے۔دنیا میں اس بچے سے زیادہ بدنصیب کون ہوتا ہے جس کی ماں اس کے لیے باہیں پھیلا کر بیٹھی ہو مگر اسے صرف کھلونے مطلوب ہوں اور ماں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے ۔۔۔۔۔۔بہت کوشش کے بعد ماں کہے گی دفع ہو جا اب میری طرف نہ آنا ۔دکھی ہو جائے گی،ناراض ہو جائے گی۔
لیکن اﷲ تو بار بار بلاتا ہے ۔ہر سال بلاتا ہے ۔طرح طرح سے ترغیبات دیتا ہے شاید بندوں کے دل میں کوئی بات اتر جائے اجر اتنا بڑھا دیا کہ”نفل کا اجر فرض کے برابر اور فرض کا اجر ستر فرضوں کے برابر”(متفق علیہ)
آج کی دنیا میں لوگ ‘سیل’ کے لفظ سے اچھی طرح واقف ہیں۔جہاں دکاندارمال کی قیمتیں کم کر دیتے ہیں ۔بہت بڑی سیل ہو تو ایک کی قیمت میں دو اشیاء دے کر کہتے ہیں لوٹ سیل۔
کسی نے سوچا ایک کے بدلے ستر؟کوئی تصور کر سکتا ہے ؟
ایک ہزار کا صدقہ دو ستر ہزار کا اجر لو،
ایک نیکی کرو ستر کا بدلہ پائو،
چار رکعت فرض نماز ادا کرو 280نمازوں کا اجر پائو،

ایک تسبیح(100) کلمہ طیبہ کی کرو 7000کا اجر پائو،
اور خود روزہ، اس کے اجر کی تو کوئی حد ہی نہیں،
حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رو ایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فر ما یا ” ابن ِآدم کا ہر عمل اس کے لیے کئی گنا بڑھا یا جاتا ہے یہا ں تک کہ ایک نیکی دس سے سات سو گناتک بڑھائی جا تی ہے لیکن اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ رو زے کا معا ملہ اس سے جدا ہے کیو نکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دو ں گا”(متفق علیہ)
اس سے مرادیہ ہے کہ رو زے کے اجر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ جس قدر چا ہے گا رو زہ دار کو اس کا اجر دے گا ۔مر اد یہ ہے کہ اللہ تعا لیٰ رو زے کی بے حدو حساب جزا دے گا جتنے گہرے جذبے اور اخلا ص کے ساتھ روزہ رکھیں ،اللہ تعالیٰ کا جتنا تقویٰ اختیار کر یں گے ،رو زے سے جتنے کچھ رو حا نی و دینی فو ائد حا صل کر یں گے اور پھر بعد کے دنوں میں بھی ان کے فو ائد کو برقرار ر کھنے کی کو شش کر یں ۔اللہ تعالیٰ کے ہا ں اس کی جز ابڑھتی چلی جا ئے گی ۔ (کتاب الصوم :ص ٣٣)
‘روزہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے”روزہ بہت مشکل لگتا ہے خصوصا گرمی کا موسم ہو ،دن لمبے ہوں ،ساتھ نوکری اور مشقت بھی ہو مزدوری بھی کرنی ہو طالبعلموں کو پڑھنا بھی ہو،امتحان بھی دینے ہوںٹیسٹ بھی دینے ہوں ،اساتذہ کو دن بھر پڑھانا ہو ،بچوں کے ساتھ سر بھی کھپانا ہو،خواتین کو چولہا بھی جھونکنا ہو اور دیگر خانگی ذمہ داریوں کے ساتھ چھوٹے بچوں کو سنبھالنا بھی ہو،تاجروں کو تجارت بھی کرنی ہو ،دن بھر دکان پر بیٹھنا ہے ،سودا سلف دوسرے شہر سے لانا ہے ،سفر بھی ہے محنت بھی ہے،روزہ بھی ہے ، یہ سب کچھ صبر کے بغیر ممکن ہی نہیں۔۔۔اور صبر کیسے آتا ہے جب اجر اور مزدوری سامنے ہو ،رب کی رضا نظر میں ہو،جنت کا تصور ہو۔
یہ جنت کیا ہے؟
بہت پر فضا مقام پر ،بہت بڑا گھر ،چاروں طرف سے باغات میں گھرا ہوا ،پھلوں سے لدے ہوئے باغ ،نہریں اور چشمے جاری ،ذرا تصور تو کریں، کسی پر فضا مقام کا مری ،نتھیا گلی ناران کاغان ،سوات ،نہیں اور کوئی سوئٹزر لینڈ۔اس سے بڑھ کر کوئی جگہ ۔۔۔ارے دنیا کی تو کوئی مماثلت ہی نہیں ۔وہاں تو دودھ اور شہد اور مشروبات کی نہریںہوں گی ۔ روح افزا،پیپسی،کوک ،مرنڈا سے بہت اعلی مشروبات ،جن کے اندر نہ کوئی فتور ہو گا نہ نقصان دہ،نہ کفار کو پیسے دینے کا خوف ،پھل” لا مقطوعة ولا ممنوعتہ ”نہ کبھی ختم ہوں گے ۔۔۔کہ سردی آگئی ہے اب آم نہ ملے گا گرمی آگئی ہے اب مالٹا نہیں ہے ۔نہ ممنوعہ کہ باغ کسی اور کا ہے توڑ نہیں سکتے ۔بہت مہنگا ہے خرید نہیں سکتے ۔وہاں مہنگا ضرور ہے پیسے دنیا سے لے جانے ہوں گے۔(ایمان اعمال صالحہ کی صورت میں)ہمیشہ ہمیشہ کی نعمتیں،اور گھر، پتھر چونے کے بنے ہوئے نہیں کہ ہر پانچ سال بعد پینٹ کروائیں،ہر پچاس سال بعد نیا بنائیں ۔ہیرے موتی جوہرات سے بنے ہوئے گھر سونے اور چاندی کی دیواریں۔کتنا بڑا گھر ؟پانچ کنال۔۔۔۔دس کنال۔۔۔۔سو کنال؟کئی ایکڑ۔۔۔۔۔نہیں زمیں و آسماں جتنی وسعت(کعرض اسماء ولارض)
کوئی مشقت نہیں کوئی کام نہیں کھانا پکا پکایا”ولدان مخلدون” ہر وقت نوجوان رہنے والے نوکر ،ہیرے موتیوں کی طرح خوبصورت ۔۔۔چاک و چوبند خدمت کے لیے حاضر۔۔خوبصورت ہم سن بیویاں(اور شوہر)باوفا،نیک اورصالح،اونچی مسندیں۔۔۔تخت ۔۔اطلس و دیبا کے لباس ہی نہیں، بستر بھی ۔۔۔اور ایسی نعمتیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں نہ کسی کان نے سنی اورنہ ہی کوئی تصورکر سکتا ہے دنیا میں۔
فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرة اعین جزاء بما کانو یعملون(سورہ السجدہ 17)”پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لیے چھپا رکھا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں”یہ جنت ہے روزہ دار کے صبر کا اجر ۔۔۔نیکیو کار روں کی نیکی کی جزا ۔۔۔۔
اے اﷲ کے بندو!اﷲ نے ان ساری چیزوں کی سیل لگا دی ہے رمضان میں مفت میں مل رہی ہیں۔رحمت ،مغفرت اور آتش دوزخ سے رہائی کا مہینہ بنا دیا ہے۔ ۔ پہلے ہی نیک ہیں تو پہلے دس دن میں ہی اس کی رحمتوں کے دریا سے سیراب ہو جائیں گے ۔۔کچھ گناہ نامہ اعمال میں ہیں تو دس دنوں کی عبادت اگلے عشرہ میں اس کی مغفرت کا حقدار بنا دے گی۔زیادہ گناہ گار ہیں تو بیس دن کی محنت وریاضت اور عبادت تو ضرور ہی آتش دوزخ سے رہائی پانے والے گروہ میںداخل کر دے گی ۔اور آخری دس دن گزرنے تک جنت کا کوئی دروازہ پکار رہا ہو گا ان شاء اﷲ۔۔
ذرا ٹھہریں!۔۔۔تھوڑا سا سوچیں بھلا اﷲ نے رمضان کو اتنا اعلی و ارفع کیوں کر دیا ۔۔یہ تو ساری ترغیبات ہیں۔۔۔بھلا یہ ترغیبات کیوں دیں؟ان
سوالا ت کے جواب انشاء اللہ ہم اگلی دفعہ دیکھیں گے۔ (”رمضان کی برکات سمیٹئے” کتاب سے اقتباس)

اپنا تبصرہ لکھیں