ذرا سی دھوپ رہنے دو ۔ 

عارف محمود کسانہ
اس حقیقت سے کسی کوبھی انکار نہیں ہوسکتا کہ اپنے آبائی وطن سے ہجرت کرکے وطن ثانی میں جا کر آباد ہونے والے اپنے ماضی اور اس سے جڑی ہوئی تہذیب و ثقافت کو کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتے۔ زندگی کے ابتدائی دور میں جس زباں میں واسطہ رہا اس کی چاشنی عمر بھر ختم نہیں ہوتی۔ بقول پروفیسر خواجہ اکرام اردو محض ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نام ہے۔ اردو کے عاشق دنیا میں جہاں بھی گئے انہوں نے وہاں اردو کی بستی بسا لی اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اردو کی بستیاں اس کا بین ثبوت ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ تارکین وطن کے دل اردو کی محبت سے لبریز میں اور وہ اس کی ترویج و اشاعت کے لیے کوشاں ہیں جبکہ وطن عزیز سے اردو کو دیس نکالا دیا جارہا ہے اور وہاں ایک عجیب نسل تیار ہورہی ہے جس کی زبان نہ اردو ہوگی نہ انگلش بلکہ یہ ’’ارانگلش‘‘ قسم کی کوئی چیز ہوگی۔ سویڈن اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ماہرین تعلیم کی جانب سے والدین پر زور دیا جاتا ہے کہ بچوں کے ساتھ مادری زبان میں بات کریں لیکن وطن عزیز کے اپنے زعم میں بڑے درجہ کے تعلیمی اداروں میں اردو بولنے پر بچوں کو جرمانہ کیا جاتا ہے۔ دنیا میں کسی ایک بھی ایسے ملک کا نام تو بتائیں جس نے اپنی زبان کو چھوڑ کر ترقی کی ہو؟ پاکستان میں سپریم کورٹ کے فیصلہ اور نئی حکومت کے آنے سے کچھ امید ہے کہ اردو کو اس کا مقام دیا جائے گا۔ آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر میں گذشتہ پینتیس سال سے اردو دفتری زبان کی حیثیت سے کامیابی کے ساتھ مروج ہے تو پاکستان اور اس کے صوبوں میں اسے نافذ کرنے میں کیا امر مانع ہے۔ تبدیلی کی دعویدار حکومت ، اس ضمن میں تبدیلی کب لائے گی، اس کے سب منتظر ہیں۔
دنیا میں اردو کی نئی بستیوں میں مشرقی تہذیب و ثقافت کی شمع کو روشن کرنے کی قابل ستائش کوششیں جاری ہیں۔ اس ضمن میں بہت سی جامعات میں اردو کی تدریس، اردو صحافت، ادبی محافل اور مشاعرے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں ایشین اردو سوسائٹی کے تحت ہونے والے ایک مشاعرہ کے بعد ایک غیر رسمی نشست میں اہل علم و دانش نے یورپ میں اردو کے مستقبل کے حوالے بہت بصیرت افروز گفتگو کی۔ جناب ضمیر طالب، فیضان عارف، ڈاکٹر ندیم حسین، جمیل احسن، محمد ادریس، کامران اقبال اعظم،آغا صفدر علی، سائیں رحمت علی، صدف مرزا،سجیلا عارف، شہناز منہاس اور دیگر کی رائے میں ٹی وی ڈرامے، فلم، موسیقی اور میڈیا نے دنیا بھر میں اردو کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے جس سے نئی نسل کی توجہ اردو کی جانب مبذول ہورہی ہے۔ یورپ میں اردو صحافت کی تاریخ لکھی جائے گی تو روزنامہ اوصاف لندن کی خدمات کو نمایاں طور پر لکھا جائے گا۔ میڈیا کے حوالے سے ایک منفی رجحان غیر ضروری اور بلاوجہ انگریزی الفاظ کا استعمال ہے جو اردو کے حسن کو گہنا رہا ہے۔ اہل علم نے اس امر پر بھی اتفاق کیا کہ یورپی ماحول میں رہتے ہوئے ہمیں اپنے بچوں کے ساتھ اپنی زبان میں ہی بات کرنی چاہیے۔ بچوں کے لئے زیادہ سے زیادہ ادب تخلیق کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں اردو زبان کا ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگریورپ میں آئندہ کچھ عرصہ کے بعد مشاعرے قصہ پارینہ بن جائیں گے۔ پبلک لائبریریوں میں اردو کتابوں کی تعداد میں اضافہ بلکہ اردو کتابوں کی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم وہاں سے اردو کتابیں اجراء کرواتے رہا کریں ۔ شرکاء نے ان تجاویزکے ساتھ مکمل اتفاق کرتے ہوئے دیگر احباب کو بھی اس کوشش کا حصہ بننے کی ترغیب دینے کا عزم کیا۔
ناروے میں اردو اب کے فروغ کے لیے متحرک تنظیم دریچہ کے جنرل سیکرٹری محمد ادریس لاہوری جو افسانہ نگار ہونے کے علاوہ اردو اور پنجابی کے بہت اچھے شاعر ہیں ان کا پہلا شعری مجموعہ’’ ذرا سی دھوپ رہنے دو ‘‘ نستعلیق مطبوعات لاہور نے پیش کیا ہے ۔ لاہور، اوسلو اور اسٹاک ہوم میں ا س کی تقاریب رونمائی بھی منعقد ہوئی ہیں اور ان کے مجموعہ کلام کو مقبولیت بھی حاصل ہورہی ہے۔ محمد ادریس کا آبائی وطن تو ریاست جموں کشمیر ہے لیکن وہ لاہور میں پروان چڑھنے کی وجہ سے انہوں نے اسے اپنے نام کا حصہ بنا لیا ہے۔وہ تین دھائیوں سے زائدعرصہ سے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں مقیم ہیں لیکن لاہور کو اپنے دل میں بسائے ہوئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ۔
ہیں لاہور کی سڑکیں دل کی شریانیں
سینے میں ہے جو نقشہ لاہور میں تھا
پاکستان کے ساتھ ان کے دل میں اپنے وطن ثانی کی محبت بھی موجزن ہے اور وہ اسے دیار غیر نہیں سمجھتے ۔ناروے کے قومی دن 17مئی کے حوالے سے ان کی آزاد نظم ملاحظہ ہو
اے مری دوسری جنم بھومی
تونے مجھے جنا نہیں لیکن
ماں سے بڑھ کے مجھے یوں پالا ہے
جیسے تیرا ہی خاک زاد ہوں میں
مجھ کو پہچان دی ہے عزت بھی
روزی روٹی کا وہ تحفظ بھی
جس کو انساں ترستے پھرتے ہیں
روز جیتے ہیں، روز مرتے ہیں
تیری ٹھنڈی فضا میں جذبوں کی
پوری شدت کی ایسی گرمی ہے
جیسی ماں کے بدن سے ملتی ہے
تیری دھرتی بڑی مقدس ہے
جس نے مجھ کو بنا لیا اپنا
میرا پورا کیا ہر اک سپنا
اے مرے ناروے سلامت رہ
ہنستا بستا تا قیامت رہ
ان کاتعلق ریاست جموں کشمیر سے ہے اسی لئے وہاں بہنے والے خون اور ہونے والے مظالم نے ان کی حساس طبیعت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ کشمیری مائیں ان کی ایک درد میں ڈوبی ہوئی آزاد نظم ہے جو قارئین کو بھی یقیناََ متاثر کرے گی۔ لکھتے ہیں
ماؤں نے
رحموں کی بھٹیوں کو دہکا لیا
وہ اپنے شہید ہونے والے
بچوں کے لہو کے گلال سے
جذبے کشید کرنے والے شوہروں سے
واصل ہوکر
ان شدید نفرتوں کو پال کر
جنم دینا چاہتی ہیں
جو پیدا ہوتے ہی
بیلٹ گن کے چھروں کو
اپنے روئی جیسے نرم بدن پہ روک لیں
ان وردی پوش بھیڑیوں کی
بے رحم آنکھوں میں جم جائے
جن کے اپنے گھروں میں جمنے جرثومے
ماؤں کی سوکھی چھاتیوں کا پسینہ چوستے
بے موت مر رہے ہیں۔
محمد ادریس لاہوری ایک درد مند دل رکھتے ہیں اور معاشرتی ناہمواریوں، زندگی کے تلخ حقائق ، جذبات، تجربات اور احساسات کو شعر کے قالب میں ڈھالنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ شعر ملاحظہ ہو۔
مت اٹھاؤ یہ ڈھیر کچرے کا
اس پہ بچہ غریب پلتا ہے

اپنا تبصرہ لکھیں