دیوانگی

زبیر حسن شیخ

صنف نازک پر اردو ادب و لغت کی بہت سی مہربانیاں ہیں اور جس میں ایک دیوانگی بھی ہے جو لغت کے اعتبار سے مونث ہے لیکن مذکر کے لئے بکثرت مستعمل ہے، بلکہ معتبر خیال کی جاتی ہے، صنف نازک کے لئے استعمال میں نہیں لائی جاتی اور صرف مرد حضرات کے نام سے منسوب ہوتی رہی ہے…..اب اس کی جو بھی وج تسمیہ ہوہم اسے اہل علم و ادب کی مہربانیوں میں ہی شمار کرتے ہیں – ہم میں سے اکثر نے کہیں نہ کہیں کسی دیوانہ کو ضرور دیکھا ہوگا…. ہاتھ میں کبھی پتھر لئے، کبھی چھری لئے تو کبھی آگ لئے گلی کوچوں میں پھرتے ہوئے .. لیکن اس حالت زار میں مجال ہے کوئی دیوانی نظر آجائے… فطرت نے صنف نازک کی دیوانگی کو انکی ذات میں محصور کررکھا ہے…دیکھنے والوں نے دیکھا ہوگا کہ اکثر کوئی دیوانہ کبھی اپنی دھن میں مگن ، اور کبھی خوفناک شکل و صورت بنائے، ا پنے خوف کو دوسروں پر حاوی کئے، گاں کی پگڈنڈیوں پر، شہر کی گلیوں میں اور دشت و بیاباں میں نظر آتا ہے..لیکن صنف نازک کو اس حال میں شاید ہی کسی نے دیکھا ہو…. ہاں اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تہذیب جدیدہ کی پروردہ خواتین اپنی ذات کے حصار سے باہر آنے میں عار محسوس نہیں کرتی ، اور ان میں ایک قسم کی دیوانگی پائی جاتی ہے جسے تہذیب جدیدہ “الٹرا ماڈرن ” کے نام سے منسوب کرتی ہے، لیکن چونکہ یہ دیوانگی بظاہر خود ان پر کوئی اثر نہیں کرتی اور ضرر رساں نہیں سمجھی جاتی اس لئے اسے دیوانگی قرار نہیں دیا گیا…. جبکہ یہ دیوانگی جسقدر خود دیوانی کے لئے اور دیوانگی کا شکار ہونے والوں کے لئے ضرر رساں ہوتی ہیں اتنی کوئی دیوانگی نہیں ہوتی جن کا ذکر آگے آیا ہے… یہ دیوانگی اور اس کے اثرات اہل نظر کو نا بینا کر کے چھوڑتے ہیں اور گواہی سے معذور قرار دیے جاتے ہیں اس لئے اسے ضرر رساں دیوانگی ثابت نہیں کیا جاسکتا….ویسے بھی اب اس دیوانگی کو انسا نی آزادی کے ساتھ منسلک کر کے اسے پیدائیشی حق قرار دے دیا گیا ہے… اس لئے اس دیوانگی پر بحث کرنا دیوانگی کو دعوت دینا ہے …..
عمو ما دیوانگی قابل معافی جرم قرار دیا گیا ہے، جب تک کہ وہ پرتشدد اور جانی و مالی طور سے نقصان دہ نہ ہوجائے….دیوانگی کی کئی قسمیں ہیں اور تمام کی تمام صرف دو خانوں میں تقسیم کی جاسکتی ہیں … ایک مثبت اور دوسری منفی…شدت دیوانگی منفی ہو جا ئے تو انسانی حس کو صفر درجہ پر لے جاتی ہے، اور اگر مثبت ہو جائے تو صبر کو انتہائی درجہ پر…دیوانگی سے واپسی کے امکانات بے حد قلیل ہوتے ہیں…. منفی دیوانگی عالم ہوش و حواس سے اپنے عروج کی طرف سرعت کے ساتھ مائل بہ پرواز ہوتی ہے لیکن اسی سرعت سے رجعت نہیں کرتی، بلکہ اکثرمرا جعت میں ناکام رہتی ہے اور دیوانہ کا کام تمام کر کے ہی دم لیتی ہے… جبکہ مثبت دیوانگی اس کے بر عکس ہوتی ہے اور جلد ہی رجعت بھی کر لیتی ہے اور مقام ہوش وحواس پر لوٹ آتی ہے… تعجب اس بات پر ہے کہ مثبت دیوانگی متعدی نہیں ہوتی جبکہ منفی دیوانگی متعدی ہوتی ہے- خوف سے پیدا ہونے والی منفی دیوانگی بڑی خوفناک ہوتی ہے….فی الحقیقت دیوانہ کبھی نہ کبھی اپنے ہوش و حواس میں ضرور رہا ہوتا ہے…. پتھر کی مار سے، چھری کی کاٹ سے اور آگ کی تپش سے واقفیت رکھتا ہے کہ یہ جبلی اور فطری امرہے…دیوانہ کبھی کبھی یہ محسوس بھی کرتا ہے کہ دیوانگی میں وہ خود کو زخم زخم کر سکتا ہے اور دوسروں کو بھی…. کبھی کبھی وہ دوسروں سے زخم ملنے کے خوف سے اسقدر خوفزدہ رہتا ہے کہ اسے یہ احساس ہی نہیں ہوپاتا کہ وہ خود اپنے ہاتھوں زخم اٹھا سکتا ہے، پھر بھی وہ گلی گلی گھومتا ہے اور اپنی طرح دوسروں کو بھی خوف زدہ رکھنا چاہتا ہے، یا دیکھنا چاہتا ہے.. دوسروں کو بھی دیوانہ بنانا چاہتا ہے بلکہ اکثر دوسروں کو دیوانہ ہی سمجھتا ہے- مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب دوسرے بھی اس طرح کی منفی دیوانگی میں مبتلا ہو جاتے ہیں… وہ بھی اپنے خوف پر قابو نہیں پاتے…. ظاہر ہے جب دو چار ایسے خوفزدہ دیوانے یکجا ہوجائیں اور کسی مجمع میں شامل ہوجائیں تو ایسی دیوانگی کو متعدی ہوتے دیر نہیں لگتی…. پھر لاٹھی ، پتھر اور آگ کا استعمال ناگزیر ہوجاتا ہے… فسادات، لوٹ مار، سیاست غلیظہ، غرورو انا اور ملک و قوم پرستی کی ناجائزجنگ میں ایسی دیوانگی کو دیکھا اور پرکھا جا سکتا ہے… یہی دیوانگی عقیدہ اور عقیدت میں نقص کا باعث بھی بنتی ہے، یہی دیوانگی قر ض و سود، معاشی نشیب و فراز، اخلاقی انحطاط اور صارفیت کے عروج سے پریشان حال انسانوں میں بھی نظر آتی ہے…خوف سے پیدا ہونے والی منفی دیوانگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک دیوانہ کثیر تعداد میں لوگوں کو دیوانہ بنا نے میں لا شعوری طور پر کامیاب ہوجاتا ہے… لا شعوری طور پر اس لئے کہ ایسی دیوانگی میں شعور ناکارہ ہو جاتا ہے ….
مثبت دیوانگی زندگی کے ہر شعبے میں پائی جاتی ہے، لیکن ہر ایک دیوانگی کے اسباب و علائم مختلف ہوتے ہیں… ایک مثبت دیوانگی وہ بھی ہے جو ادب میں جنون شوق سے تعبیر کی جا تی رہی ہے، اور جو اکثر مصلح قوم و ملت، خادم علم و ادب اور اہل فکر و نظر میں دیکھی اور پا ئی گئی ہے… ان کے علاوہ اہل دولت و ثروت و تجارت میں بھی یہ دیوانگی دیکھی گئی ہے….جہاں آخرالذکر نے معاشرہ میں گل و لالہ کھلائے ہیں ونہیں اول الذکر حضرات نے دشت کے دشت کو لالہ زار کر کے دکھایا ہے ….اسی طرح دیوانگی ہر ملک و قوم و نسل اور قبیلہ میں پائی جاتی ہے…. پچھلی چند دہاہیوں سے جہاں مسلمانوں میں مثبت دیوانگی کم ہوتی جارہی ہے ونہیں انہیں جب سے یہ علم و احساس ہوا کہ فرض نماز سے صرف دیوانوں کو رخصت ہے ، اور ہوش میں آتے ہی ادائیگی واجب ہے، یعنی فرض نمازوں سے فرار چاہنے والا کوئی دیوانہ ہی ہوسکتا ہے، مسلمان نمازی ہوتا چلا جا رہا ہے اورملت اسلامیہ منفی دیوانگی سے باہر آنے لگی ہے…. چند ایسے بھی ہیں جو اب بھی اپنے آپ کو عالم ہوش و حواس میں سمجھتے ہیں لیکن انہوں نے فرض نماز سے فرار حاصل کرنے کے لئے دیوانگی کو اپنا بنا رکھا ہے …لیکن وہ مثبت دیوانگی جس نے مصلح ملک و قوم و ملت، خادم علم و ادب اور اہل علم و فکر و نظر پیدا کئے تھے وہ اب مسلمانوں میں ناپید ہوتی جارہی ہے، چند ایسے بھی ہیں جو یا تو خرد کی حدود پار کر کے دیوانے ہوئے ہیں یا فرزانگی کا ڈھونگ رچا کر اپنا الو سیدھا کررہے ہیں….ایسی دیوانگی کا علاج کہتے ہیں حضرت لقمان کے پاس بھی نہیں تھا…. مگر جس دیوانگی کا علاج حضرت لقمان کے پاس تھا اور وہ کہتے رہے کہ خالق حقیقی کے ساتھ شرک نہ کرو تو اس دیوانگی میں کیا اپنے اور کیا پرائے اکثر سب مبتلا ہوجاتے ہیں…اور سب علاج سے پرہیز کئے بیٹھے ہیں-

ایک دیوانگی یہ بھی ہے جو مثبت و منفی دیوانگی کا مرکب ہے، اس لئے جنوں و خرد کی بحث کے دائرے سے باہر ہے…لیکن ہے تو دیوانگی ہی جس کا ذکر ضروری ہے اور جو موجودہ دور میں شریف انسان کا المیہ بھی ہے، کہ وہ اکثر ایکدوسرے کی محبتوں، رشتہ داریوں، حماقتوں، رواداریوں اور تنا زعات کے مارے ہوئے ہیں، ان میں کچھ فریب و خود فریبی اور غیرمتوازن روابط و تعلقات کے مارے ہویے ہیں- ان مسائل کا نہ کوئی سرا ہے اور نہ ہی کوئی فوری حل ، کیونکہ یہ سب مسائل ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں …ہاں طویل مدتی حل تو ہیں لیکن عمر کے پاس مدتوں کی رعایت کہاں….ان مسائل کی بہترین مثال مشرق وسطی میں روزگار میں زندگی کھپانے والے اکثر تارک الوطن حضرات کی زندگی سے اخذ کی جا سکتی ہے …جووہ لحظہ بھر پلٹ کر دیکھتے ہیں تو سب کچھ کل کی بات محسوس ہوتی ہے ، جب وہ ابتدا مذکورہ دائرے میں داخل ہوئے تھے …. انجانے خوف اور بیگا نی خوشیوں کے ہجوم میں رات اور دن ، ہفتے اور مہینے گزر جاتے جاتے … تنخواہ اٹھا تے ، خریداری کرتے ، ڈرافٹ بناتے ، تحفے تحائف روانہ کرتے یا جمع کرتے… جانی انجا نی مسرتوں کے عوض ان کا دل وہ سب کچھ خریدنا چاہتا جس سے نازک رشتوں کی اور کمزور تعلقات کی ڈور بندھی رہے… اپنے پرایوں کیذہن سے محو ہوجانے کا خوف کہیں دب کر رہ جا ئے… لوگوں کی نظروں میں کچھ مقام بن جایے … تارک الوطنی کا درد کہیں گم ہو جا یے … اجنبیت کی کسک سے نجات حاصل ہوتی رہے…رات دن کی محنت سے جو دولت کمائی ہے اس سے فرائض بھی ادا ہو تے رہیں اور عزیز و اقارب کے خواب بھی پورے ہوتے رہیں… اور ان تمام مراحل سے گزر کر مستبقل بھی محفوظ رہے- کسی کو کوئی شکایت نہ ہو…کوئی ناراض نہ ہو… اہل و عیال مطمعین و آسودہ ہوں… اور جو بچی کچی ناراضگی، شکائیتیں اور بے اطمعنانی ہے وہ اگلے سال تعطیل پر ختم ہوجائیں….تعطیلات یونہی جا ری رہے اور ترک تعلقی معطل رہے، تحفوں اور وعدوں کے لیں دین سے ، احسانات سے اور سخاوت سے … دل یہی چا ہتا ہے کہ یہ سلسلہ یونہی جاری رہے.. بس پھر سلسلہ جاری بھی رہتا ہے اور مذکورہ دائرہ بڑھتا رہتا ہے…اور اس کا پتہ ہی نہیں چلتا، احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ دیوانگی کیا گل کھلائے گی .. حتی کے عمر اور حالات گل کھلانے لگ جاتے ہیں.. پھر چمن کے چمن لٹ جاتے ہیں ، بلکہ اپنے پرایوں کے ہاتھوں لوٹ لئے جاتے ہیں …پھر گلوں کو چمن میں آگ لگاتے دیکھا جاتا ہے … گل و بلبل کو ملکر آشیاں جلاتے دیکھا جاتا ہے …. طائروں کو پر پھیلاتے دیکھا جاتا ہے ….عندلیب کو دوسروں کے چمن میں آہ و زاریاں کرتے دیکھا جاتا ہے تو بلبل کو طو طا چشمی کرتے . ..کلیوں کو چٹخنے کے بجائے آگ اگلتے دیکھا جاتا ہے …بنیادوں اور جڑوں کو سر پیٹتے، تنوں کو سسکتے اور پتوں کو ہوا دیتے دیکھا جاتا ہے . شجر اشجار کو موسم کے ساتھ رنگ بدلتے دیکھا جاتا ہے ….تتلیوں اور بھنوروں کو چمن میں ہنستے کھیلتے، اور رہے گل چیں تو انہیں اپنا اپنا چمن سجاتے اور باغباں پر الزامات و تہمتیں رکھتے دیکھا جاتا ہے… باغباں کو چمن کے دروازے پر بھوکا پیاسا دیکھا جاتا ہے …اور کبھی در بدر ہو کر خون روتے دیکھا جاتا ہے …پھر بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ..اس دیوانگی سے مراجعت نا ممکن ہو جا تی ہے…بلآخر باغباں کو تن و تنہا صحرا کی طرف لوٹتے دیکھا جاتا ہے ، اور کبھی تو اسی عالم دیوانگی میں ہی ملک عدم سدھا رتے دیکھا جاتا ہے … ایسی دیوانگی بھی عجب دیوانگی ہے کہ جسے دیکھا تو جاتا ہے لیکن کہا نہیں جاتا ….

اپنا تبصرہ لکھیں