دیار غیر نہیں بلکہ وطن ثانی

afkare tazaافکار تازہ
عارف محمود کسانہ
یورپ ، امریکہ اور دوسرے ممالک میں مستقل شہری کی حیثیت سے رہنے والوں کے لئے یہ دیار غیر نہیں البتہ وہ لوگ جو عارضی طور پر بیرون ملک رہ رہے ہوں اُن کے لئے وہ ملک دیار غیر ہوسکتاہے۔ جن لوگوں نے کسی دوسرے ملک میں قیام کے بعد وہاں کی شہریت حاصل کرلی، وہاں اپنا گھر بنا لیا، وہاں کی زبان سیکھ لی اور اُن کے بچے اس معاشرہ میں پروان چڑھ رہے ہیں وہ ملک اُن کے لئے دیار غیر نہیں بلکہ وطن ثانی ہے۔ اُن کی یہ ہجرت مستقل ہے اور اب اُن کا اور اُن کی آنے والے نسلوں کا مستقبل اسی ملک سے وابستہ ہے جہاں وہ مستقل شہری کی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ اُن کا وطن اب وہی ہے اور اُن کا جینا مرنا اسی سے وابستہ ہے ۔ انسانی تاریخ کی یہ ایک حقیقت ہے کہ ہجرت میں واپسی کا راستہ نہیں ہوتا۔ خودد رسول اکرم ﷺمکہ میں پیدا ہوئے اور ۵۳ سال وہاں رہنے کے بعد جب مدینہ ہجرت کرگئے تو پھر فتح مکہ کے بعد بھی واپس مدینہ تشریف لے گئے اور مکہ جو کہ اُن کا آبائی شہر تھا قیام نہ کیا۔ نہ صر ف رسول پاکؐ بلکہ تمام صحابہؓ بھی واپس مدینہ چلے گئے اور انہوں نے مکہ میں دوبارہ رہائش اختیار نہ کی۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب وہ ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل ہوتا ہے تو پھر وہی اُس کا ٹھکانہ بن جاتا ہے اور وہ اس کے لئے دیار غیر نہیں ہوتا۔ پاکستان ہمارا وطن تھا اور اُس سے محبت کبھی دل و دماغ سے محو نہیں ہوسکتی ۔ پاکستانی دنیا کے کسی خطہ میں بھی رہ رہے ہوں وہ ارض پاک کی مٹی کی خوشبو کو فراموش نہیں کرسکتے۔ اُن کے دل پاک وطن میں اپنے بہن بھائیوں اور والدین کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ دل وجاں سے پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کے لئے دعا گو ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اُن کا ماضی تھا ور جن ممالک میں اب وہ مستقل شہری کی حیثیت سے رہ رہے وہ اُن کا حال اور مستقبل ہے اور اس اعتبار سے سویڈن ہمارے لئے دیار غیر نہیں بلکہ وطن ثانی ہے۔ ایک مسلمان جغرافیائی طور پر مقید نہیں ہوسکتا کیونکہ ہر ملک ملک ما است کہ ملک خدائے ما است۔ہر ملک ہمارا ملک ہے کیونکہ ہر ملک رب کائنات کا ہے۔ جو لوگ اپنے آپ کو مغربی ممالک میں اپنے نظریات کی وجہ سے ذہنی کشمکش کا شکار ہیں اور اپنے آپ کو یہاں مس فٹ سمجھتے ہیں۔شہریت حاصل کرنے کے باوجود جہاں رہ رہے ہیں اسے پنا ملک نہیں سمجھتے انہیں چاہیے کہ یک طرفہ ٹکٹ لے کر اپنے آبائی وطن واپس چلے جائیں۔ جب میزبان ملک کی شہریت اختیار کرلی ہے تو اُسے اپنا ملک سمجھتے ہوئے حب الوطنی کا مظاہرہ کریں اور اس کی تعمیر و ترقی میں ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے کردار ادا کریں۔یورپ میں ہمارے مذہبی اجتماعات میں جہاں پاکستان کے لئے دعائیں کی جاتی ہیں وہاں میزبان ملک جہاں ہم رہ رہے ہیں اُسے بھی دعا میں یاد رکھنا چاہیے۔
چھ جون کو سویڈن کا قومی دن منایا جاتا ہے ۔ یہ دن جدید سویڈن کے معمار اول سمجھے جانے والے بادشاہ گستاف واسا کی ۱۵۲۳ء میں ہونے والی تخت نشینی کی یاد میں منایا جاتا ہے اور اس دن کا آغاز ۱۹۱۶ء سے ہوا جب سویڈن میں اولمپک کھیلیں منعقد ہوئیں۔ شروع میں یہ قومی دن نہیں تھا بلکہ اسے یوم پرچم کے نام سے منایا جاتا تھا اور اس دن سرکاری چھٹی بھی نہیں تھی۔ ۱۹۸۳ء سے سویڈش پارلیمنٹ نے اسے قومی دن قرار دیا لیکن سرکاری چھٹی ۲۰۰۵ء سے شروع ہوئی۔ چھ جون کو چھٹی دینے کے لئے مئی میں ہونے والی white monday کی چھٹی ختم کی گئی۔ اب یہ دن سرکاری اہتمام سے منایا جاتا ہے ۔ نیلے اور پیلے رنگ کے پرچم لہرائے جاتے ہیں ۔ سٹاک ہوم میں دنیا کے سب سے بڑے کھلی فضا والے عجائب گھر میں بادشاہ سلامت تقریب کے مہمان خصوصی ہوتے ہیں جہاں تمام ممالک کے سفیر بھی موجود ہوتے ہیں۔ فضاؤں میں سویڈن کے قومی ترانے کی گونج ہوتی ہے۔ یہ ترانہ رچرڈ دیبیک نے ۱۸۴۴ء میں لکھا اور ۱۸۹۰ء میں اسے قومی ترانے کی حیثیت سے اختیار کیا گیا۔ سویڈن کا قومی اس ملک کے قابل فخرماضی اور روشن مستقبل کی عکاسی کرتے ہوئے جذبہ حب الوطنی ابھارتا ہے۔ اس میں وطن کی توتعریف اور محبت کے لئے وہی جذبات ہیں جو پاکستان کے ملی نغموں سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد اور اے وطن پاک وطن میں ہیں ۔ اس ترانے کا اردو ترجمہ میرے مطابق کچھ یوں ہے ۔ سویڈن کی سرزمین کو مخاطب کرتے ہوئے شاعر کہتا ہیکہ
تو قدیم ہے اور بے شک تو آزاد ہے۔ تیرے شمال کا پروقار پہاڑی سلسلہ۔ تیری پرسکون فضاؤں کو سلام
تیری سوہنی دھرتی، روئے زمین کا حسین ترین خطہ، تیرا سورج، تیرا آسمان، تیری سر سبز زمین۔ تو زمانہ قدیم کے عظیم دور کا مظہر
دنیا بھر میں تیرے نام کے توقیر کی دھوم ۔ میں جانتا ہوں تو ایسے ہی ہے اور ہمیشہ رہے گا۔مجھے جینا بھی یہیں ہے اور مرنا بھی اسی شمالی خطہ ارضی میں ہے
میں ہمیشہ تجھے سنواروں گا اے میرے پیارے وطن۔قسم ہے موت تک تیرا وفا دار رہوں گا تیری ارض وطن کی حفاظت کے لئے جسم و جاں قربان
تیرا پرچم ہمیشہ سر بلند رہے، معزز رہے۔ خدا کی قسم اس گھر کے لیئے لڑوں گا اور سب کچھ کروں گا ۔ سویڈن، میرے محبوب وطن تیری مٹی کے لئے.
تجھے پوری دنیا کے عوض بھی نہ دوں، کبھی نہ دوں۔ اے میرے محبوب وطن میرا جینا بھی تیرے لئے اور مرنا بھیتیرے لئے ہے۔ اسی شمالی سرزمین کے لئے۔
بیرون ملک مقیم پاکستانی بہت حساس اور درد دل رکھتے ہیں اور اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ پاکستان کے عوام کے حالات بدلیں۔بہت سے لوگ تعلیمی، سماجی فلاح و بہبود اور ایسی ہی دوسری سرگرمیوں کے ذریعہ دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے کوشاں ہیں۔ انہی میں سے ایک ناروے میں مقیم جناب شاہد جمیل ہیں جنہوں نے سکون کے نام سے ایک فلاحی تنظیم قائم کی ہے جوپاکستان میں چلنے پھرنے سے معذور افراد کو مفت وہیل چئیرwheelchair مہیا کررہی ہے۔ اس کے علاوہ وہ مستحق بچوں کے لئے تعلیمی سہولتوں بھی فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ بلا شبہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہے۔ صرف پانچ ہزار روپے میں ایک شخص کو وہیل چئیر مل سکتی ہے جس سے اُس کے چلنے پھرنے کی معذوری دور ہوجائے گی۔ جب آپ ایک ایسے شخص کو وہیل چئیر دیں گے اور وہ اسے استعمال کرے گا تو اُس کے دل سے جو دعا نکلے گی اُس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اور یہ کام صرف چانچ ہزار روپے میں ہوسکتا ہے۔ بیرون ملک مقیم احباب صرف چالیس یورو کی ایک معمولی رقم سے ایک معذور شخص کو چلنے پھرنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔اس تنظیم کے رکن بننا چاہیں تو صرف بیس یورو سالانہ سے آپ یہ نیک کام کرسکتے ہیں۔آپ دنیا میں کہیں بھی رہتے ہوں تنظیم کی ویب سائیٹ پر جا کر رکن بھی بن سکتے ہیں اور اپنے عطیات بھی آن لائین دے سکتے ہیں۔ رمضان المبارک کے اس بابرکت مہینہ میں نیکی کا یہ کام ضرور کریں بلکہ گھر کے ہر فرد کی جانب سے سے ایک وہیل چیئر ضرور تحفہ کریں۔ میں اور میرے گھر کے تمام افراد اس فلاحی تنظیم کا رکن بن گئے ہیں اور آپ سے بھی گذارش ہے کہ سکون دینے والی اس تنظیم کا رکن ضرور بنیں۔ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے اس عمل سے یقیناًخوش ہوں گے۔ ویب سائیٹ کا پتہ ہے http://www.scoon.no اورای میلinfo@scoon.no فون 0047-92036102 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسروں کو سکون دیں تاکہ آپ کو بھی سکون ملے۔
اپنا تبصرہ لکھیں