دعوے اور کارکردگی

حکومت کے ابتدائی 100 دن

دعوے اور کارکردگی

راجہ محمد عتیق افسر

اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات ، قرطبہ یونیورسٹی برائے سائنس و انفارمیشن ٹیکنالوجی پشاور

ایم اے عربی ، ایم اے آئی آر ،ایم اے   اصول الدین(تقابل ادیان )

03005930098

attiqueafsar@yahoo.com

انتخابات سے قبل تحریک انصاف کی جانب سے حکومت تشکیل دینے کی صورت میں ابتدائی سو دنوں کا ایجنڈا دیا گیا تھا جس میں مختلف اہداف حاصل کرنے کےبلند و بانگ  دعوے کیے گئے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی سو دن مکمل ہو نے کو ہیں ، اس حوالے سے مختلف آوازین سننے کو مل رہی ہیں ۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے پہلی بار  یہ اصطلاح استعمال  نہیں کی بلکہ کسی اور کی نقل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اسکی ابتدا ء  1932ء میں امریکہ کے 32 ویں صدر بننے والی شخصیت فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے کی  جو تادم مرگ 1945ء تک امریکہ کے صدر رہے۔ انہوں نے امریکی تاریخ کے بدترین مالی بحران “گریٹ ڈپریشن” کے دور میں عوامی ترقی کے منصوبے، اقتصادی اصلاحات متعارف کرائیں جنھیں “نیوڈیل” کا نام دیا گیا ۔ اسی بنیاد پر  ناصرف 1932ء کا صدارتی الیکشن جیتا بلکہ  8 مارچ 1932ء سے 16 جون 1932ء تک کے ابتدائی سو دنوں میں نیو ڈیل کی بنیاد پر پیش 16 بل پاس کر کے سب کو حیران  بھی کر دیا۔ امریکی صدر نے معاشی طور پر بدحال امریکیوں کو ایک بار پھر امریکہ کو مضبوط بنانے کی جانب راغب کیا اور نیو ڈیل میں شامل مختلف منصوبوں کو ابتدائی سو دنوں میں شروع کر کے عوام کو ایک بار پھر متحرک ہونے پر مجبور کر دیا۔ فرینکلن ڈی روز ویلٹ نیو ڈیل کے ذریعے چار بار امریکی صدر منتخب ہوئے، ان کے سو روزہ پروگرام  حکومتی کارکردگی کی کامیابی کاایک پیمانہ  بن گئے اور اس کے بعد مختلف ممالک کے رہنماﺅں نے اسے اختیار کیا۔ رواں سال مئی میں ملائیشیا میں انتخابات ہوئے، سابق وزیراعظم مہاتیر محمد نے ان انتخابات میں دوبارہ حصہ لیا اور حکومت میں آنے کی صورت میں اپنا سو روزہ ایجنڈا دیا۔ ایجنڈے میں حکومت کے قیام کے بعد ابتدائی 100 دنوں میں جی ایس ٹی ختم کرنے، فیول سبسڈیز دوبارہ شروع کرنے، شہری علاقوں کی جانب ہجرت کرنے والوں پر عائد ٹیکس ختم کرنے، گھریلو خواتین کے لیے ایمپلائز پراویڈنگ فنڈ متعارف کرانے، ملک بھر میں ملازمین کی ماہانہ آمدن کی حد مقرر کرنے، منفی سرگرمیوں میں ملوث اداروں کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے، ملائیشین ایکٹ 1963ء کے مطابق عوامی حقوق کی بحالی، صحت کی بنیادی سہولیات اور تمام میگا پروجیکٹس پر کام کے آغاز کے اعلانات شامل تھے۔ مہاتیر محمد کے ان نکات پر مشتمل ایجنڈے کو عوام میں پزیرائی ملی اور رواں سال 9 مئی کوہونے والے انتخابات میں وہ ایک بار پھر وزیراعظم منتخب ہو گئے، انھوں نے 10 مئی 2018ء کو حلف اٹھایا اور کابینہ  کی تشکیل کے بعد اپنے ایجنڈے پر عمل شروع کر دیا۔ وزیراعظم مہاتیر محمد نے اپنے ایجنڈے کے پیٹرول کی قیمتوں میں سبسڈی دینے اور جی ایس ٹی ختم کرنے کے نکات پر ابتدا میں ہی عمل کر دیا تھا جبکہ ایجنڈے میں شامل دیگر نکات پر ابتدائی نوعیت کے اقدامات کیے گئے تھے۔ مہاتیر محمد نے اپنی حکومت کے ابتدائی سو دن مکمل ہونے کے موقع پر اپنے خطاب میں حکومتی کارکردگی بیان کی۔ انھوں نے اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کے حوالے سے عوام کو آگاہ کیا اور جن نکات پر عمل نہ کیا جا سکا تھا اس پر عوام سے معافی مانگی۔ بین الاقوامی میڈیا اور ملائیشین قومی میڈیا پر ایجنڈے پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے پر مہاتیر حکومت پر تنقید کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کی صاف گوئی کے حوالے سے تعریف بھی کی گئی۔

تحریک انصاف کے رہنما نے بھی غیرملکی مقبول رہنماؤں کا طریقہ ٔ کار اپنا کر خود کو مقبول بنانے کی کوشش کی لیکن ان کی گھماؤ (یو ٹرن) پالیسی  نے ایسا ہونے نہیں دیا ۔ ایک مقبول نجی خبر رساں ادارے کے سروے کے مطابق زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے  صرف 36 فیصد افراد  نے حکومتی اقدامات پہ اطمنان کا اظہار کیا جبکہ 64 فیصد آبادی حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں ۔  عمران خان کی حکومت کے پہلے سودن کے ایجنڈے پہ تفصیلی گفتگو  کرنے سے یہ حقیقت کھل کر واضح ہو جاتی ہے ۔ حکومت کے پہلے سودن کا ایجنڈا مندرجہ ذیل ہے:

  1. طرز حکومت میں تبدیلی
  2. وفاق پاکستان کا استحکام
  3. معیشت کی بحالی
  4. زرعی ترقی اور پانی کا تحفظ
  5. سماجی خدمات میں انقلاب
  6. پاکستان کی قومی سلامتی کی ضمانت

 

1۔طرز حکومت میں تبدیلی

تحریک انصاف نے اپنے سو روزہ ایجنڈا میں وعدہ کیاتھا کہ پاکستان کو بدلنے کیلئے حکومت اور طرزِ حکومت میں تبدیلی سرفہرست ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی اپنی  بہترین انتظامی صلاحیت کی بنا پر  پچھلی تمام حکومتوں سے مختلف ہوگی اور  ریاست کے اداروں جن میں  پولیس، عدلیہ اور بیوروکریسی شامل ہیں  میں اصلاحات کرے گی ۔ حکومت کے ابتدائی سو ایام کے دوران طرز حکومت میں تبدیلی کیلئے مجموعی طور پرمندرجہ ذیل کام کئے جائیں گے ۔

تحریک انصاف نےالیکشن   اسی نعرے کے تحت لڑاتھا کہ ملکی دولت لوٹنے والوں سے سختی سے نمٹتے ہوئے ملکی دولت خزانے میں جمع کرائیں گے۔ سو روزہ ایجنڈا میں آزاد قومی احتساب بیورو کے ذریعے بیرون مُلک محفوظ مقامات پر چُھپائی گئی چوری شدہ قومی دولت وطن واپسی کیلئے خصوصی ٹاسک فورس قائم کرنے  اور  بازیاب کی گئی دولت غربت میں کمی لانے اور قرض کی ادائیگیوں میں استعمال کرنے کا اعلان کیا تھا ،  بلندوبانگ  دعوے تو کیے بلکہ مراد سعید صاحب نے تو دوسرے ہی دن یہ سب کردینے کا وعدہ کر دیا تھا ۔ اس وعدے کے تحت اگرچہ نیب نے رواں سال503 گرفتاریاں کی ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر گزشتہ دورحکومت کے نمائندگان کی ہیں جبکہ تحریک انصاف کے نمائندوں کو گرفتار کرنے سے قومی احتساب بیورو گریزاں ہے اور قومی احتساب کا یہ دوہرا معیار اس کے کردار کو مشکوک کرتا ہے۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے تین بڑے رہنماﺅں کو گرفتار کرنے کیلئے نیب ہچکچاہٹ کا شکاررہا ہے حکومت نے ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کیلئے ٹاسک فورس بنانے کی بات تو پوری کر دی جس کے چیئرمین وزیرِ اعظم پاکستان کے مشیر شہزاد اکبر  کو بنادیاگیا  جو اسی سلسلے میں برطانیہ کا دورہ بھی کرچکے ہیں لیکن کسی بھی قسم کی پیش رفت نہیں ہوئی۔ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان کسی بھی قسم کا ایسا کوئی معاہدہ سامنے نہیں آیا جس میں لوٹی ہوئی دولت  کی واپسی کا ذکر ہو ۔

تحریک انصاف نے اپنی حکومت کے پہلے سو روز میں پختونخوا کے طرز کے بہتر بلدیاتی نظام کو باقی ملک میں لانے کا عہد کیا تھا جس کے ذریعے اختیارات اور وسائل کی گاﺅں کی سطح تک منتقلی کی راہ ہموار کرنا مقصود تھا لیکن  اب ذرائع کے مطابق حکومت خیبرپختونخوا کا بلدیاتی نظام بھی تبدیل کر رہی ہے۔

ایجنڈے میں تحریک انصاف نے تمام صوبوں میں قابل اور پیشہ ورانہ مہارت کے حامل انسپکٹر جنرلز کی تعیناتیوں کے ذریعے پولیس کو غیر سیاسی اور بہتر بنانے کا اعادہ کیا تھا۔  حکومت پولیس کو غیر سیاسی تو  نہ کر سکی لیکن ان سو دن میں ایک بار ڈی پی اوپاکپتن اور آئی جی اسلام آباد اور آئی جی پنجاب کے تبادلوں پر سپریم کورٹ اور عوام کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور اپنے ہی دعوﺅں کے برعکس تحریک انصاف کو کام کرنا پڑا۔وزیر اعظم کے حلقۂ احباب اور وفاقی وزراء کی پولیس کے محکمے میں مداخلت اظہر من الشمس ہے ۔

زیرالتواءمقدمات کے جلد نمٹانے کے لئے ایسے قوانین متعارف کروائے جانے کا وعدہ کیا گیا تھا  کہ عوام کو 90دن میں انصاف ملے ۔ ایک برس کی مدت کے اندر تمام دیوانی مقدمات کے تیز تر اور شفاف ترین فیصلوں کیلئے متعلقہ ہائی کورٹس کی مشاورت سے خصوصی طور پرتحریک انصاف کے جوڈیشل ریفارمز پروگرام کے آغاز کا وعدہ کیا گیا ۔لیکن  اب وزیرِ قانون نے خود یہ بات کہہ دی کہ  100 روز میں قوانین میں تبدیلیاں نہیں کر سکتی اس کیلئے مزید وقت درکا ہے جو کہ عوام کے ساتھ حکومت کا کھلامذاق ہے۔

یہ وعدہ بھی تھا کہ وفاقی بیوروکریسی میں خالصتاً اہلیت و قابلیت کی بنیاد پر موزوں ترین افسران  کے تقرر کا وعدہ بھی کیا گیا اور  سول سروسز کے ڈھانچے میں کلیدی تبدیلی کے منصوبے کے لئے ٹاسک فورس کے قیام کا اعلان بھی۔ٹاسک فورس تو قائم ہوئی لیکن اس  نے اب تک کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا نہ ہی کسی قسم کا کوئی اجلاس بلایا گیا ہے ۔

 2۔وفاق پاکستان کا استحکام

سو روزہ ایجنڈا میں یہ کہنا تھا کہ وفاقی اکائیوں کی مضبوطی وفاق پاکستان کی مضبوطی کی دلیل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کسی ایک خاص صوبے کی نہیں بلکہ پورے ملک کی حکومت چلائیں گے۔ تحریک انصاف وہ مشکل اور کٹھن فیصلے کرے گی جن پرگزشتہ حکمرانوں  نے سطحی سی توجہ دی۔ عمران خان کی بطور وزیرِ اعظم موجودگی میں پاکستان کی مرکزی حکومت تقویت پائے گی اور صوبے مضبوط ہونگے۔وفاق پاکستان کو مضبوط کرنے کیلئے عمران خان مندرجہ ذیل پانچ نکات پر ترجیحی بنیادوں پر کام کا آغاز کریں گے۔

تحریک انصاف نےسب سے بڑا  وعدہ  یہ کیا تھا کہ جنوبی پنجاب میں بسنے والے تین کروڑ پچاس لاکھ لوگوں کو غربت کی دلدل سے نکالنے اور صوبوں کے مابین انتظامی توازن قائم کرنے کے بنیادی مقاصد کے تحت صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کیلئے قومی اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے گا۔ اتفاق رائے قائم کرنا تو درکنار ، اتحادی جماعت  نے جنوبی پنجاب کے صوبہ بنانے پہ اعتراض کیا ہے کہ بہاولپور کو علیحدہ صوبہ بنانے کی بات ہوئی تھی لیکن اب حکومت بہاولپور کو بھی جنوبی پنجاب میں شامل کرنے کی باتیں کررہی ہے جو کہ ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں۔

فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کیلئے قانون سازی کا وعدہ بھی ایجنڈے کا حصہ تھاجس کے تحت  فاٹا کی تعمیروترقی کیلئے ایک بڑے منصوبے)میگا پراجیکٹ ( پلان کا آغاز کیا جائے گا اور فاٹا میں باقی تمام قوانین کو لاگو کرنے کا آغاز کیا جائے گاحالانکہ فاٹا کے انضمام کی منظوری گزشتہ حکومت پہلے ہی دے چکی ہے ۔

بلوچستان میں بڑے پیمانے پر سیاسی مفاہمت کی کوششیں شروع کرنے اور صوبائی حکومت کو بااختیار بنانے کا عزم کیا گیا۔ اس کے ساتھ صوبے میں ترقیاتی منصوبوں خصوصاً گوادر میں جاری ترقیاتی عمل میں مقامی آبادی کی شمولیت یقینی بنایا جانا تھی ۔ مفاہمتی عمل کی بات کی جائے تو اب تک وزیرِ اعظم پاکستان نے وفاقی کابینہ کے کچھ وزراءکے ساتھ ایک بار کوئٹہ کا دورہ کیا اور اس طرح دکھایا گیا ہے کہ جیسے پورے بلوچستان میں سیاسی مفاہمت قائم ہوچکی ہے۔بلوچستان حکومت کو بااختیار بنانے کیلئے ضروری ہے کہ اتحادیوں میں اتفاق ہو جبکہ تحریک انصاف کے صوبائی صدر یار محمد رند کے اپنی اتحادی جماعت کے ساتھ اختلافات ہیں اور انہوں نے متعدد بار کہا ہے کہ بلوچستان حکومت کے ساتھ ٹیم بی کے طور پر ہم کام نہیں کر سکتے ۔ان سب اختلافات کے ساتھ تحریک انصاف اپنے ہی وعدوں کی نفی کر رہی ہے۔

کراچی کی بہتری کیلئے خصوصی منصوبہ لانے کا عندیہ دیا گیا تھا ۔جس میں بہتر انتظامات، سیکیورٹی ، انفراسٹرکچر، گھروں کی تعمیر، ٹرانسپورٹ کا نظام، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور پینے کے صاف پانی جیسی سہولیات مہیا کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے ستمبر میں کراچی کا دورہ کیا جہاں پر شہر کیلئے بڑوں منصوبوں کا اعلان تو کیا لیکن اس کے بعد کراچی کو بھول گئے۔کراچی میں کچرے کے ڈھیر ، پانی و بجلی کا بحران اور ناجائز تجاوزات جیسے مسائل پہ حکومت کی خاموشی اس امر کی واضح دلیل ہے کہ حکومت اس معاملے میں بھی ناکام ہے ۔ اس کے علاوہ  پنجاب ، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے پسماندہ اور غریب ترین اضلاع سے غربت کے خاتمے کیلئے جاری کاوشوں کو تقویت دینے کیلئے خصوصی پلان تیار کرنابھی ایجنڈے میں شامل تھا۔ پاکستان تحریک انصاف نے غریبوں کو سہولیات دینے اوور غربت کے خاتمے  کیلئے ابھی تک کوئی خصوصی پیکج نہیں دیا بلکہ ہر چیز کو مہنگاکیا جا رہا ہے اور ناجائز تجاوزات  کے خاتمے کے نام پر بھی زیادہ نقصان غریبوں کا ہورہا ہے۔

3۔معیشت کی بحالی

تحریک انصاف ،عمران خان کی حکومت کے 100روزہ ایجنڈے نے دعویٰ کیاکہ ان کے پاس معاشی ڈھانچے کی پختگی اور تعمیر کا پورا خاکہ اور تصور موجود ہے۔جو کہ کسی ایک طبقے کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کی اقتصادیات کی بحالی کا منصوبہ ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں اب تک4قومی اسمبلی کے اجلاس ہوئے اور1مشترکہ اجلاس سینیٹ کے ساتھ ہوا۔اس طرح کل 5اجلاس ہوئے۔حکومت کا بنیادی کام قانون سازی جوصرف ایک اجلاس میں ہوئی جو کہ دوسرااجلاس تھا۔ فنانس ایکٹ میں ترامیم کی گئیں اورانکم ٹیکس لگائے گئے۔سالانہ4لاکھ سے8لاکھ تک آمدن والوں پر بھی1ہزار ٹیکس لگا دیا گیا۔جبکہ 8لاکھ سے12لاکھ سالانہ آمدن پر 2ہزار ٹیکس لگا دیا گیا۔اس طرح عوامی حکومت کا آغاز عوام پر ٹیکسوں اور مہنگائی میں اضافے سے کیا گیا۔اس سے پہلے کم آمدن رکھنے والے افراد پر کوئی ٹیکس نہیں تھا۔ ان سو روز میں مہنگائی میں 1.24 فی صد کا اضافہ ہوا ہے ڈالر کی قیمتیں بندوق سے نکی گولی کی رفتار سے چڑھی ہیں ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے

100روزہ ایجنڈے کے مطابق پانچ برس کے دوران ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کے لئے ملکی سطح کی حکمت عملی سامنے لائے جانے کا اعلان کیا گیا جو کہ تحریک انصاف کی ناپختہ سوچ اور خام خیالی کا مظہر ہے ۔حکومت نے4لاکھ نوجوانوں کوہنر مند ٹرینگ دینے کا اعلان کیا ۔ 1کروڑ نوکریوں کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کر دی گئی ۔ ٹاسک فورس میں شامل افراد کے بارے میں تفصیلات نہ منظر عام پر آئیں اورنہ ہی اس کی پیشرفت کے بارے میں مختلف محکموں کے افسران کو کوئی علم ہے۔ اس ٹاسک فورس کے رپورٹ جمع کرانے کے بعد ہی تعین ہو گا کہ کس طرح نوکریاں فراہم کی جائیں گی مگر دور دور تک اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی ۔ پہلا اعلان وزیر ریلوے شیخ رشید نے 23ہزارآسامیاں پر کرنے کے لیے کیا،مگراس میں سے2031آسامیاں پر کرنے کی وزیر اعظم نے منظوری دی۔ اس سلسلے میں آسامیوں کا اشتہار17نومبر2018کو دیا گیا جس کے تحت بھرتیاں کی جائیں گی۔مگر پہلے  100دنوں میں یہ نوکریاں بھی نہ دی جا سکیں گی۔

پاکستان کی پیداواری صنعت کو عالمی منڈی میں مقابلے کی اہلیت سے آراستہ کرنے کے لیے اقدامات کیے جانا تھے۔اس ضمن میں کوئی ٹاسک فورس بنائی گئی نہ ہی اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سے کسی قسم کی کوئی مشاورت کا عمل جاری ہوا ۔ایجنڈے میں برآمدات کو فروغ دینے کا دعویٰ کیا گیا۔مگر  ان سو دنوں میں برآمدات 2.1 ارب سے کم ہو کر 1.72 ارب پہ آ گئی ہیں ۔ ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 16.72 ارب سے گھٹ کر14.7ارب رہ گئے۔جبکہ تجارتی خسارہ 2.9 ارب سے بڑھ کر 2.93 ارب تک جا پہنچا ہے ۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد خام مال کی مہنگا ئی سے پریشان ہیں۔ان کی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے جبکہ عوام کی قوت خرید میں کمی سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد فکرمند ہیں۔

پانچ برسوں میں پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ دیا گیا۔ وزیراعظم نے اپنا گھر پروگرام کے نام سے پراجیکٹ لگانے کااعلان کیا تھااور 17رکنی ٹاسک فورس بنائی گئی۔ پروگرام شروع ہوتے ہی پہلا کام پراجیکٹ کانام بدلنے کا کیا گیا۔ نیا پاکستان ہاوسنگ اتھارٹی بنائی گئی۔ جس میں عوام سے فارم جمع کرانے کا کہاگیا ۔ کچھ اضلاع میں گھروں کی تعمیر کے لئے اراضی ہی  دستیاب نہیں تو کہیں حکومت یہ نظام ہی قائم نہ کر سکی ۔ ان سو دنوں میں پراجیکٹ کا اعلان ہوا اور نام تبدیل کیا گیا ، صرف ہوا میں محل تعمیر کیے گئے ۔

تحریک انصاف کے100دن کے ایجنڈے کے مطابق ملک میں موجود سیاحتی مقامات کو بہتر بنانے اور نئے مقامات کی تعمیر کے لیے نجی شعبے سے سرمایہ کاری کیلئے فریم ورک مکمل کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ حکومتی گیسٹ ہاوسز کو ہوٹلز میں تبدیل کر کے عام عوام کے لیے کھولے جانے کا اعلان ببانگ دہل کیا گیامگر کس محکمے  کے گیسٹ ہاوسز یا اس عمل میں کن عمارتوں کا انتخاب کیا گیاکوئی فہرست منظر عام پر نہیں آئی۔ اس کے ساتھ ساتھ کم از کم 4نئے سیاحتی مقامات دریافت کیے جانے کا اعلان کیا گیا۔مگر کوئی واسکوڈے گاما یا کولمبس  ان مقامات کو دریافت کرنے کے لئے مہیا نہیں ہو سکا۔صوبوں کے گورنر ہاوس  کو عوام کے لئے کھولنے کی منظوری دی گئی لیکن گورنر ہاؤس کے عملے کو سمونے کے لئے کوئی عمارت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ان عمارات کا کچھ حصہ ہی عوام کے لیے کھولا جا سکا ۔ اس طرح حکومت کا یہ منصوبہ بھی ناکامی کا شکار ہوا۔

ایجنڈے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سربراہ کا میرٹ پر تقرر کرنے کا اعلان کیاگیا۔تقرر تو ہو گیا مگر تاحال نوٹس جاری ہونے کے علاوہ کوئی ٹیکس اصلاح متعارف نہیں ہوئی ۔ایف بی آر سے ٹیکس پالیسی کااختیارلے لیا گیا ہے۔اس وقت ایف بی آر صرف ٹیکس اکھٹا کررہا ہے۔پالیسی کی تشکیل کے لیے بورڈ بنا دیا گیا ہے۔عوام دوست ٹیکسوں کے بجائے عوام پہ بوجھ ڈالنے والے ٹیکس لگائے گئے ۔100  دن پورے ہونے کو ہیں مگرکوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی۔

پانچ برس میں پاکستان کو کاروبار کی عالمی درجہ بندی میں 147سے 100نمبر پر لانا فہرست میں شامل ہے۔مگرتحریک انصاف نے 100روزہ پلان میں اسے بھی ڈال دیا۔پاکستان میں کاروبار کرنے کو آسان بنانا،سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنا،غیر ملکی پاکستانیوں کو پاکستانی معیشت کے دھارے میں لانا،برآمدات میں اضافہ کرنے کے لیے وزیر اعظم کی سربراہی میں”کونسل آف بزنس لیڈرز”قائم کرنا مندرجہ بالا اہداف حاصل کرنے کی حکمت عملی مرتب کرنا مقصود تھا۔22رکنی بزنس کونسل بن گئی ہے مگر کوئی پالیسی اس کی طرف سے وزیر اعظم کو نہیں جمع کرائی گئی۔ معاشی ماہرین کے مطابق اگر سٹاک ایکس چینج کے اعدادو شمار پر نظردوڑائی جائے تو بیرون ملک سرمایا کار اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں۔شوگر ملز اس وقت وینٹی لیٹر پر ہیں اور اسکی وجہ حکومت کی طرف سے واجب الادا اربوں روپے ہیں اسکے علاوہ چینی کی برآمد کے حوالے سے سخت قوائد کی وجہ سے بڑی مقدار میں چینی برامد ہونے سے رہ گئی ہے جو ملکی معیشت کے لئے نقصان کا باعث ہے  ۔ اگر شوگر انڈسٹری بیٹھ گئی تو اربوں کا نقصان بھی ہو گا ، بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ بھی ہوگا اور قوم کو چینی کے بحران کا سامنا بھی ۔

تحریک انصاف نے “پاکستان ویلتھ فنڈ” کے قیام کے ذریعے ریاست کے زیر ملکیت اداروں میں انقلاب کی بنیاد رکھنے کااعلان کیا تھا ۔عوامی ملکیت کی صنعتیں وزارتوں سے الگ کر کے آزاد بورڈ آف گورنرز اور بہترین صلاحیتوں کے حامل منتظمین کے حوالے کی جانی تھیں مگر تاحال ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کی ابتدا ہنگامی طور پر ائیر لائن، ریلویز، توانائی پیدا کرنے والے ادارے اور تقسیم کار کمپنیاں سے کرنے کا عزم کیا گیا مگراکتفا   ءدفتری اوقات کو صبح 8سے شام4بجے کی بجائے صبح9بجے سے5بجے تبدیلی پر کیاگیا۔سرکاری خرچوں میں کمی کا اعلان کیا گیا لیکن وزراء اور سرکاری اہلکاروں نے اس فیصلے کو ہوا میں اڑا دیا ۔

تحریک انصاف نے حکومت میں آنے کے بعدسستی بجلی فراہم کرنے کا دعویٰ کیا  تھا لیکن تین ماہ میں متعددبار بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیاگیا اس کے ساتھ ساتھ گردشی قرضے کے اسباب پر توجہ دیے جانے اور ریگولیٹری ریفارمز لاکر کرایہ پر چلنے والے ماڈل سے نجات کا دعویٰ کیا گیا۔ بجلی چوروں کے خلاف آپریشن کی منظوری دی گئی۔اس کے بعد ملک کے تمام حصوں میں بلا تفریق کارروائی کی جا رہی ہے۔

4۔زرعی ترقی اور پانی کا تحفظ

پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور زرعی ترقی سے ہی ملکی معیشت کی ترقی وابستہ ہے۔ زرعی شعبہ کو ملک میں روزگار کا سب سے بڑا وسیلہ اور دیہی علاقوں سے غربت مٹانے کاسب سے موثر ذریعہ مانا جاتا ہے۔ البتہ اس شعبہ کا مکمل انحصار پانی کی فراہمی پر ہے۔ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان تیزی سے پانی کی قلت کی جانب بڑھ رہا ہے اور 2025ءتک یہ بحران انتہائی شدت اختیار کر لے گا۔چونکہ ملک میں میسر پانی کا 90 فیصدحصہ زرعی شعبہ استعمال کرتا ہے اس لئے پانی کے بحران سے یہ شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔ ان حالات کے پیش نظرپاکستان تحریک انصاف نے ملک میں زراعت کے فروغ اور تحفظ آب کی خاطر اقدامات کو اپنے سو روزہ ایجنڈے میں شامل کیا جس کے لئے درج ذیل اقدامات اٹھانے کا تہیہ کیا۔

پاکستان تحریک انصاف نے اپنے سو روزہ ایجنڈے میں زرعی اجناس میں کاشتکار کا منافع بڑھانے، ڈیزل پر ٹیکس کم کرنے، زراعت کے جدید طریقے متعارف کروانے اور دیگر اقدامات کے ساتھ سبسڈی پروگرامز کو موثر بنانے کے لئے زرعی پالیسی لاگوکرنے کا اعادہ کیا تھا تاہم حکومت پہلے سو روز میں زرعی ایمرجنسی کے نفاذ یا دیگر کوئی منافع بخش اقدامات متعارف کروانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ اس کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی نرخوں میں اضافے کے باعث کھادیں، کیڑے مار ادویات اور دیگر زرعی مداخل کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوگیا۔ ملک میں کھاد کی قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کسانوں کو ریلیف دینے کے لئے ایک لاکھ میٹرک ٹن یوریا کھاد درآمد کرنے اور فی بوری 960 روپے سبسڈی کا فیصلہ کیا تھاتاہم 15 نومبر کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 50 ہزار ٹن یوریا کھاد درآمد کرنے کی منظوری مل گئی ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابرہے، البتہ وفاقی حکومت نے کسانوں کو ریلیف دینے کی غرض سے ملک بھر کے چوبیس ہزار زرعی ٹیوب ویل صارفین کے لئے بجلی 50 فیصد سستی کر دی ہے۔

اپنے سو روزہ پلان میں تحریک انصاف نے مالیاتی اداروں کے تعاون سے کسانوں کے لئے باسہولت اور سستے قرضوں کا انتظام اور جدید انداز میں مالیاتی وسائل کی فراہمی کے اسباب مہیا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس ضمن میں حکومت نے تا حال کوئی نئی پالیسی یا پیکیج کااعلان نہیں کیا جس سے واضع ہوکہ کسانوں کی مالی امداد اور وسائل تک رسائی میں اضافہ کو ممکن بنایاجا سکے البتہ حکومت نے عمومی طور پر نوجوانوں کو ذاتی کاروبارشروع کرنے کے لئے سستے قرضے دینے کا اعلان کیا ہے لیکن کاشتکاروں کی سہولت سے متعلق کوئی عملی پیش رفت نہیں ہوئی۔

تحریک انصاف نے زرعی اجناس کے مناسب دام یقینی بنانے کے لئے منڈیوں اور گوداموں کے اضافے کی مہم شروع کرنے اور اس مہم میں نجی شعبے کی شرکت کی راہ ہموار کرنے کے لئے موزوں قانون سازی کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔مزید یہ کہ برآمدات کو خصوصی طور پر نگاہ میں رکھتے ہوئے فوڈ پراسسنگ کی چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعت کے فروغ کے لئے سہولیاتی منصوبہ مرتب کرنا بھی اس ہدف کا حصہ تھا۔ اس ہدف کے حصول کے لئے ہوم ورک شروع ہو چکا ہے اور پرائیویٹ سیکٹر کی شراکت کے حوالے سے قانون سازی کی گئی ہے البتہ اس حوالے سے کسی قسم کی پیش رفت کے حوالے سے باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا

سوروزہ ایجنڈے میں تحریک انصاف نے پاکستان کو دودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات میں خودکفیل بنانے کا منصوبہ شروع کرنے اور گوشت کی پیداوار کو بڑھانے پر ایک پروگرام متعارف کرانے کا وعدہ کیا تھا۔اس ہدف کے حصول کے لئے اب تک کی جانے والی اقدامات میں صرف ایک قومی سطح پر ورک فورس ٹیم کی تشکیل شامل ہے جس نے سو دن میں صرف ایک اجلاس کا اہتمام کیا تھا۔

آبی مسائل کے حل کے لئے تحریک انصاف نے اپنے سو روزہ پلان میں دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر میں تیزی کے لئے وزیراعظم کی سربراہی میں فوری طور پر نیشنل واٹر کونسل قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ قومی سطح پر پانی کے بچاوکی کوششوں میں توسیع کے لئے قومی واٹر پالیسی سے ہم آہنگ منصوبہ مرتب کرنے کا اعادہ کیا تھا جس کے ذریعے پانی ذخیرہ کرنے اور ضیاع آب روکنے کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی سمیت پانی کی تقسیم اور نگرانی کے جدید طریقے لاگو کرسکے۔ آبی شعبے میں درپیش مشکلات سے نمٹنے اور قومی آبی پالیسی میں متعین کیے گئے اہداف کے حصول کے لئے نیا پانچ سالہ آبی منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے جس میں چھوٹے، درمیانے اور بڑے درجے کے ڈیمز کی تعمیراورموجودہ آبپاشی کے نظام کو نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ تاہم حکومت کے ان تمام فیصلوں اور منصوبوں پر عمل درآمد کرانے کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔

5۔سماجی خدمات میں انقلاب

سماجی خدمات کسی بھی ملک اور معاشرے کا اہم جزو ہوتے ہیں۔تحریک انصاف نے اپنے 100روزہ ایجنڈے میں6کروڑ غریب ترین پاکستانیوں کو غربت سے نکالنے اورسماجی خدمت کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا بھی دعوہ کیا تھا۔

تحریک انصاف کی جانب سے صحت اور تعلیم کے شعبے میں انقلاب برپا کرنے کے لئے عملی اقدامات کیے جانے کا اعلان کیا گیا تھا۔اس ضمن میں ایک جامعہ پلان دیا جائے گا جس کے ذریعے صحت اور تعلیم تک عوام کی رسائی ممکن بنائی جائے گی۔صحت انصاف کارڈ کو پورے ملک میں موجود خاندانوں تک توسیع دی جائے گی۔

صحت:

اس ضمن میں وفاق کی سطح پر محکمہ صحت سہولیات اور ریگولیشن اور باہمی رابطہ میں ہوئی تقسیم کو ختم کر کے دوبارہ ایک محکمہ بنایا گیا تھا۔دو ٹاسک فورسز قائم کی گئیں جو صحت اور نرسنگ کے شعبے میں بہتری کیلئے وزیر اعظم کو تجاویز دیں گی۔مگر تا حال کوئی میٹنگ نہیں ہوئی۔ادویات کی قیمتوں کا تعین کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی اور پی ایم ڈی سی کے ضابطہ پرنظرثانی کر کے وزیراعظم کوپیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔مگر ہدایات سے آگے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔صحت کے ترقیاتی بجٹ میں کمی کر دی گئی49ارب76کروڑ8لاکھ سے کم کر کے 34ارب2کروڑ کر دیا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ صحت کے قومی ترقی کے34 منصوبے ختم کر دیے گئے۔ہیپاٹائٹس، ٹی بی پروگرام اور ایپی ڈیمک انفلوئنزہ کیلئے 12کروڑ منظور کر دیے گئے۔باقی34ارب کا کوئی پتہ نہیں کب دیا جائے گا۔ہیلتھ انشورنس پلان کا مریض 5لاکھ روپے تک علاج کرا سکے گا اور 30ہزارخاندانوں کو صحت کارڈ جاری کرنے کا اعلان وفاقی وزیر صحت نے کیا۔وزیراعظم کا تھر کی صوتحال پر بریفینگ کے بعدمتعلقہ محکموںکی کارکردگی پر تشویش کا اظہار کیا اور2موبائل ہسپتال سمیت4ایمبولینسز فراہم کرنے کا حکم کر دیا۔

تعلیم:

سرکاری سکولوں کو بہتر بنانے کے لئے وفاقی وزیر تعلیم کی زیر صدارت نیشنل ٹاسک فورس برائے تعلیم بنائی گئی۔22رکنی ٹاسک فورس میں چاروں صوبوں کے وزیر تعلیم سمیت کشمیر و گلگت بلتستان کے وزرا بھی شامل۔90روز میں تعلیمی پالیسی دیں گے۔ بجٹ میں سکولوں کیلئے 34ارب مختص کر دیے گئے۔مالی مشکلات کی وجہ سے دانش سکولوں کے بجٹ میں1ارب کی کٹوتی کی گئی۔سکولوں کے ترقیاتی بجٹ سے25ارب کی کٹوتیاں ، نئی سکیموں کو بجٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔کابینہ کی طرف سے مدارس اور سکولوں میں یکساں نصاب تعلیم کے نفاذ کی منظوری دے دی گئی۔جسمانی سزاوں پر مکمل پابندی اور صوبائی حکومتوں کے ذریعے نجی سکولوں کی فیسوں کو مناسب سطح پر لانے کی منظوری بھی کابینہ نے دے دی۔تعلیمی اعدادوشمار اکٹھی کرنے کے لیے نظام کو مزید موثر بنایا جائے گا

ملک میں خواتین کی ترقی کے لیے “کریمنل جسٹس ریفارمز”کا آغاز کیا جائے گا۔اس کے ساتھ وراثت میں خواتین کا حق محفوظ منانے کیلئے لائحہ عمل دیا جائے گا۔معاشی طور پر خواتین کو بہتر کرنے کیلئے ویمن اکنامک ایمپاورمنٹ پیکج شروع کیا جانا تھا اور خواتین کیلئے فراہمی روزگار یقینی بنایا جانا تھا اور سمیت دیگر سکیمیں متعارف کروائی جانی تھیں۔ وفاقی سطح پر خواتین کے وراثت میں حصہ کیلئے قوانین بنائے جانے کا اعلان ہوا تاکہ وراثت میں حصہ یقینی بنایا جائے۔خیبر پختونخواحکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے نیا بل لا نے کا اعلان کیا ہے جس میں خاتون پر تشدد کرنے پر مرد کو30ہزار جرمانہ ہو گا۔ خاتون اگر جھوٹا الزام مرد پر لگائے گی تو اسے 50ہزار جرمانہ ادا کرنا ہو گا

تحریک انصاف کی حکومت نے شہریوں کیلئے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے وفاقی سطح پر منصوبے تیار کرنے کا اعلان کیا تھا جن کو فوری طور پر نافذ کیا جانا تھا۔ان منصوبوں کا آغاز وفاقی اور صوبائی دارالخلافوں سے کیا جانا تھا۔اس حوالے سے حکومت نے تا حال کچھ نہیں کیا

تحریک انصاف نے ماحولیات کے تحفظ کے ایجنڈے میں “گرین گروتھ ٹاسک فورس”کی بنیاد ڈالنے کا اعلان کیا تھا۔جس کے ذریعے مطلوبہ قانون سازی اور منصوبہ سازی کا عمل آگے بڑھایا جانا تھا۔ملک بھر میں دس ارب درخت لگانے کا اعلان کیا گیا اور صوبائی دارالخلافوں میں”اربن ٹری سونامی پروگرامز”شروع کیئے جانے تھے۔اس سلسلے میںوفاقی کابینہ نے ملک بھر میں 10ارب درخت لگانے کی منظوری دے دی،2ستمبر کو ملک بھر میں پلانٹ برائے پاکستان دن منایا گیا۔اس دن 15لاکھ پودے مفت تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

6۔پاکستان کی قومی سلامتی کی ضمانت

تحریک انصاف کے ایجنڈے میں پاکستان کی قومی سلامتی  کی ضمانت بھی شامل ہے اور یہ ضمانت مندرجہ ذیل امور میں پوشیدہ ہے جو کہ سو روز کا کام نہیں ہے :

  1. اداراتی ڈھانچے میں جدت و توسیع
  2. پاکستان کی علاقائی اور عالمی مطابقت میں اضافہ
  3. خارجہ پالیسی کے ذریعے معیشت کی مضبوطی
  4. نیشنل سیکیورٹی آرگنائزیشن کا قیام
  5. داخلی سیکیورٹی میں اضافہ

پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کے گھماؤ(یو ٹرن)

سو دن کی کارکردگی میں سب سے نمایاں کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے قیادت و امامت کا ایک نیا ڈھنگ متعارف کرایا ہے اور وہ ہے  گھماؤ یعنی یو ٹرن کا ۔ یہ پہلے بھی لیا جاتا تھا لیکن اسے عیب گردانا جاتا تھا لیکن عمران خان صاحب کی شخصیت میں گھماؤ  اس قدررچ بس  گئے ہیں کہ بجائے اس عیب پہ شرمندہ ہونے کے انہوں نے ایک نیا فلسفہ پیش کردیا ہے کہ جس میں گھماؤ(یو ٹرن) نہیں وہ لیڈر ہی نہیں ۔شاید مستقبل میں عمران خان صاحب   کے چاہنے والے ان کے فلسفے کو علمی تحقیق  کے ذریعے پوری دنیا میں روشناس کرائیں ۔بہر حال یہ اکیسویں صدی کی ایک بڑی دریافت ضرور ہے ۔

پاکستان تحریک انصاف  کے قائد عمران خان صاحب نے جو گھماؤ اختیار کیے ہیں انہیں ملاحظہ فرما لیجئے۔

  1. الیکشن جیتنے کے بعد کہا کہ کسی آزاد امیدوار کو اپنے ساتھ نہیں ملاؤں گا ۔ جبکہ تمام آزاد امیدواروں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔
  2. میں پروٹوکول نہیں لوں گا نہ میرے وزراء پروٹوکول لیں گے ۔ لیکن فی الحقیقت پروٹوکول لیا بھی گیا اور وزراء بھی لے رہے ہیں ۔
  3. میں سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال نہیں کروں گا ۔ آپ دن میں تین چار بار وزیر اعظم ہاؤس سے بنی گالہ اپنی رہائش گاہ تک ہیلی کاپٹر میں گئے اور آپ کے وزیر اطلاعات نے اس کا جواز یہ بتایا کہ یہ سستا پڑتا ہے اور اس پہ 55 روپے فی کلومیٹر کا خرچہ آتا ہے۔
  4. میں وزیر اعظم ہاوس استعمال نہیں کروں گا لیکن دوسرے ہی دن وہاں ڈیرہ جما لیا۔
  5. سابق وزیر اعظم کے بھینسیں رکھنے پر خوب واویلا مچایا لیکن اپنے پیارے کتے ” شیرو” کو اپنے ساتھ وہاں لے جا کر فوٹو شوٹ کرتے رہے ۔
  6. آپ نے فرمایا کہ میں خود کشی کر لوں گا لیکن قرضہ نہیں لوں گا ۔ لیکن قرض لیا بھی اور مانگا بھی اب ڈر ہے کسی دن وزیر اعظم ہاوس سے ٹھا ہ کی آواز ہی نہ آجائے ۔کیونکہ خان جو کہتا ہے کر تا  بھی ہے ۔حکومت نے بینکوںسے بھی حکومت نے قرض لیا ہے ۔
  7. میری جماعت میں تعلیم یافتہ افراد ہیں میں ہر عہدے پہ تعلیم یافتہ افراد بٹھاؤں گا ۔ گورنر سندھ ، وزیر اعلی ٰ پنجابب و دیگر عہدوں پہ جو وزراء لگائے گئے وہ کم تعلیم یافتہ تھے ۔
  8. شفاف ترین شخص کو پنجاب کا وزیر اعلی بناؤں گا اور جس شخص کو لگایا وہ قتل کے مقدمے میں دیت دے کر رہا ہو چکا ہے ۔
  9. فرمایا میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا لیکن پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کو پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنا دیا ۔
  10. ایم کیو ایم کو دہشتگرد قرار دیا اور کراچی کے امن کا قاتل بی گردانا لیکن انہی کے ساتھ حکومت میں بیٹھے اوردست تعاون ایم کیو ایم نے نہیں بڑھایا بلکہ پی ٹی آئی کی قیادت 90 گئی تھی ۔
  11. گورنر ہاوس اور وزیر اعظم ہاوس کی دیواریں گرا دوں گا  اور یہاں یونیورسٹیاں بنوا دوں گا ۔ معلوم نہیں یہاں  کون کون سی یونیورسٹیاں بنی ہیں ۔
  12. بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں نہیں چڑھانی چاہئیں بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا چاہیے لیکن خود کرتار پور راہداری کا افتتاح کرتے ہوئے بھارت کی طرف دوستی کاہاتھ بڑھا دیا ۔

جب شخصیت میں ایسے گھماؤ ہوں تو محض مقبول عام افراد کی نقل کر لینے سے رفعتیں حاصل نہیں ہو جاتیں ۔ لیڈر راستے بناتا ہے تاکہ اس کے پیروکار اس راستے پہ آسانی سے چلیں وہ لوگوں کو بندگلی یا کھائی کی جانب نہیں لے کر جاتا جہاں سے اسے یوٹرن لے کر سیدھے راستے پہ آنا پڑے۔روزویلیٹ اور مہاتیر محمد کی طرح سو روزہ پلان بنا دیناکافی نہیں بلکہ انہی کی طرح  اس ایجنڈے پہ عمل درامد بھی لازم ہے ۔اورجہاں عملدرامد نہ ہو سکے وہاں ڈھٹائی کے ساتھ کھڑے ہو کر نئے فلسفے پیش کرنے کے بجائے قوم سے معافی مانگنا چاہیے ۔پاکستان تحریک انصاف  کی حکومت ان سو ایام میں اپنے ایجنڈے  کے زیادہ تر نکات پہ ناکام نظر آتی ہے ۔حکومت کو چاہئے  کہ خوابوں کی دنیا سے باہر نکلیں اور حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے حقیقی تبدیلی کے لئے سنجیدہ کوشش کریں تاکہ ملک و قوم کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچا  سکیں ۔اللہ تعالٰیٰ راست باز لوگوں کو ہمارے سر پہ حکمران کرے اور ہمارے ملک کو مزید خراب ہونے سے بچائے۔ آمیں

اپنا تبصرہ لکھیں