“دس سال کی بچی کا خیراتی اداروں کے نام خط”

Firoz Hashmi

بسم اللہ الرحمن الرحیم
“انکل اپنا راشن اور کپڑے واپس لے جائیں”
پچھلے سال راشن اور کپڑے لیتے ہوئے ہماری تصویر اخبار میں چھپی تھی
عید کے دن محلے کے بچے ہمیں بھکاری بھکاری چڑا رہے تھے
تب سے امی کو لوگ حقارت سے دیکھتے ہیں
“دس سال کی بچی کا خیراتی اداروں کے نام خط”
السلام علیکم انکل!
میرا نام کنیز ہے۔ ہم آپ کے آفس کے پیچھے والی بستی میں رہتے ہیں۔ کچھ دن پہلے آپ ہمارے غریب خانہ تشریف لاۓ تھے، یہ دیکھنے کہ ہم غریب ہیں یا نہیں۔ تاکہ آپ ہماری مالی مدد کر سکیں۔ کچھ دن بعد پھر آپ پانچ چھے لوگوں کے ساتھ ہمارے گھر آۓ۔ ہمیں راشن دیا، امی، میرے اور میرے بھائی کے لئے عید کے جوڑے دیے، فوٹو کھچوائی اور چلے گئے۔
انکل آپ کو معلوم ہے میں جب چار سال کی تھی، تب میرے بابا اللہ کو پیارے ہوگئے۔ بابا کے جاتے ہی دادی نے امی کو مارمار کے گھر سے نکال دیا تھا۔ اُس وقت بھائی امی کے پیٹ میں تھا اور میں چار سال کی چھوٹی بچی تھی۔ امی در در کی ٹھوکریں کھاتی رہی، کسی رشتہ دار نے بھی ہماری مدد نہ کی، ہمارا کوئی حال پوچھنے والا نہیں تھا۔ امی دوسروں کے گھر جاکے برتن دھوتی، صفائی کرتی پھر جاکے کچھ پیسے جمع ہوتے، جس سے وہ میرا اور اپنا پیٹ بھرتی۔ پیٹ تو امی کا امیر لوگوں کی گالیاں کھاکر بھی بھر جاتا جہاں وہ کام کرتی تھی۔
امی میرے سامنے تو ہمیشہ مسکراتی رہتی ہے پر مجھے معلوم ہے رات کو وہ چھپ چھپ کر روتی ہے اور اپنا غم ہلکا کرتی ہے۔
کل امی پھر بہت رو رہی تھی۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ وہ چپ ہی نہیں ہورہی تھی۔ جب آنکھوں سے آنسوں سوکھ گئے تو وہ سو گئی۔ میں اُٹھ کر اُن کے پیر دبانے لگی تاکہ اُن کو کچھ آرام آجائے۔ پاوں دباتے دباتے میری نظر امی کی ہاتھ میں رکھے اخبار کے ٹکڑے پر پڑی جس میں امی، میری اور بھائی کی آپ سے راشن اور کپڑے لینے کی تصویر تھی۔
میں سمجھ گئی کہ امی کیوں رو رہی تھی۔ پچھلے سال بھی ایسا ہی ہوا تھا، تصویر کی وجہ سے بستی میں سب نے ہمارا خوب مزاق بنایا تھا۔ جب ہم عید کے کپڑے پہن کر باہر کھیلنے گئے توسب ہمیں بھکاری بھکاری کہہ کر تنگ کر رہے تھے۔ امی کو بھی محلے والے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
آپ نئے کپڑے اور راشن واپس لے جائیں۔ مجھے میری امی سے بہت محبت ہے، ہماری وجہ سے اُُن کی آنکھوں میں اور آنسو آئیں یہ مجھے منظور نہیں۔ ویسے بھی ہم غریبوں کی عید نہیں ہوتی۔
آپ سے ایک اور درخواست ہے کہ کسی بھی غریب کی مدد کریں تو اُسے اخبار، سوشل سائٹس پر اُس کا دکھاوا نہ کریں۔ بعد میں انہیں جو تکلیف اٹھانی پڑتی ہے اس کا آپ کو اندازہ نہیں۔ اپنے سگے رشتہ دار تک حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔
اللہ نے آپ کو دولت دی ہے اس میں آپ کا تو کمال نہیں۔ اللہ نے ہمیں غریب بنایا ہے اس میں ہمارا بھی قصور تو نہیں !!!!
اللہ آپ کو خوش رکھے۔ آمین
خدا کے لیے خیرات یا امداد (مدد) کرو تو اسکا دکھاوا کرکے غریبوں کا مذاق مت اُڑاو۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!
میری رائے
مذکورہ مضمون بہت عمدہ ہے۔ یقیناً دل کو چھو جاتا ہے اور آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے ہیں۔
میں نے ذاتی طور پر کئی خیراتی اداروں سے رابطہ کیا کہ آپ کے یہاں ضرورت مندوں کو ’’خود کفیل‘‘ بنانے کا کیا طریقہ ہے؟ جواب خاموشی  یا فون بند۔ اس مضمون اور ذاتی تجربہ کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے ملک میں زکوٰۃ کی تقسیم کا نظام غیر درست ہے۔ جس کی وجہ سے  ہماری قوم کے وہ لوگ جو کسی ضرورت  پر مدد طلب کرتے ہیں، اُن تعاون نہیں کیا جاتا جس کی وجہ کئی صلاحیتیں منقطع ہو جاتی ہیں۔ یعنی کسی کو تعلیم کے داخلہ یا ٹیسٹ کے وقت فوراً مالی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے تو بروقت تعاون نہ ملنے کی وجہ سے ہماری صلاحیتیں دوسرے کمتر کاموں میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ یہ بدنظامی ہی ہماری نمو میں رکاوٹ کا ذریعہ ہے جس پر قوم شاید ہی کوئی طبقہ توجہ دے رہا ہے۔یقین اور اعتبار کا پہلو نہایت ہی کمزور ہے۔ خواہ ہماری قوم کے پاس ہزاوں کروڑ روپے زکوٰۃ کے موجود ہوں لیکن بدانتظامی انہیں آئندہ سو سالوں میں بھی  انہیں ایک اچھا انسان نہیں بنا پائے گی۔ ایک آڈیو بھی ملاحظہ فرمائیں۔ ہماری تعلیم اور تربیت کا نتیجہ۔
اپنا تبصرہ لکھیں