خود میاں فضیحت

از
عابدہ رحمانی
 
دروازے کی گھنٹی بجی تو سعیدہ تھی — ارے صبح صبح خیر تو ہے ؟ میں بھی ذرا دیر پہلے ہی سو کر اٹھی تھی –
سحری کے بعد فجر کی ادائیگی اور تلاوت کے بعد آنکھ لگ گئی تھی –
رمضان میں اچانک مہمان کا آنا بھی برا نہیں لگتا اور وہ تو اچھی دوست بھی ہے-
یہاں سے گزر رہی تھی سوچا دیکھ لیتی ہوں تم گھر پہ ہو تمہارا فون بھی تو بند آرہاتھا–اور سناؤ روزے کیسے جارہے ہیں– وہ ایک سانس میں ہی گویا ہوئی–
اللہ کا شکر ہے آج تو نواں ہو رہا ہے بس جیسے تیزی سے آتے ہیں ویسے ہی گزرنے لگتے ہیں بس اللہ قبول کرے”
” ارے یہاں آدھے سے زیادہ مسلمان تو روزہ نہیں رکھتے جس سے پوچھو کسی کا کیا اور کسی کا کیا بہا ناہے –
گرمی بہت ہے –بھوک پیاس برداشت نہیں ہوتی اور بڑوں کو تو ہزار بیماریا ں لگی ہوئی ہیں – ایک مہینے کی تو بات ہے کیا اللہ کی رضا کیلئے اتنا بھی نہیں کرسکتے — خوف خدا تو جیسے ختم ہو گیا ہے بس نام کے مسلمان رہ گئے — اب ماں باپ نہیں رکھتے تو بچے کیا خاک رکھینگے –کیا تربیت کر رہے ہیں اپنے بچوں کی استغفراللہ-
میرا تو سوچ سوچ کر خون کھولتا ہے -لیکن کیا کر سکتی ہوں- سعیدہ کافی جذباتی ہوگئی تھی ذرا رک کر بولی- ارے ذرا ایک گلاس پانی تو پلادو”
” اور روزہ؟
ارے بھئی کل رات ایک فلم دیکھتے ہوئے دیر سے آنکھ لگی سحری میں آنکھ ہی نہ کھلی اللہ معاف کرے خالی پٰیٹ تو مجھ سے رکھا نہ گیا ———–
 
عابدہ
 


اپنا تبصرہ لکھیں