“خرد اور خدا”

انتخاب شہلا

گماں کی آخری سیڑھی پہ

کم علمی کی ساعت میں
خرد گردن جھکائے
کب سے خالی ہاتھ بیٹھی ہے

ادھوری تو نہیں لیکن وہ کس کے ساتھ بیٹھی ہے

تمناؤں کے گھیرے میں
کسی روشن سویرے میں

بس اک خواہش نگاہوں میں

کہ اب ان ہجر راہوں میں

کوئ تو ہو جو اس کو دائرے کا راز سمجھائے

کوئ تو منتشر سی سوچ کو اب آکے سلجھائے

اداسی کی زمیں پہ جستجوئے یار کی خاطر بڑی ہی مضطرب ہوکر کسی دیدار کی خاطر

قبائے خاص میں لپٹی
ردائے ہجر میں سمٹی

تلاش یار میں گھائل

وجود عشق کی قائل

تسلسل سے
وجود خاک کو
پرواز دیتی ہے

وہ متلاشی نگاہوں سے

تعاقب یار کا کرتی

اسے آواز دیتی ہے
مرے رہبر

یہ سچ ہے کہ
وجود خاک کے اندریہ آتش عشق دائم ہے

سماعت میں جو انڈیلی گئ تکبیر قائم ہے

مگر اے راہبر میرے
مجھے سن چارہ گر میرے
مری فطرت کی حد تو دائرے تک ہی مقید ہے
جو اپنے نفس کی حد سے قدم آگے نہیں رکھتی
مرے راہرو
مرے منصف
بڑی ہی دربدر ہوں میں
بڑی ہی بے ثمر ہوں میں
اچانک گیان کی سیڑھی سے
پھر رہرو اترتا ہے

کئ اطراف سے آکر خرد میں یوں سمٹتا ہے

کہ جیسے دل کی جانب ایک شعلہ سا لپکتا ہے

تسلی بخش راہوں سے اسے آواز دیتا ہے

اسے جینا سکھاتا ہے نیا انداز دیتا ہے

وہ کہتا ہے

اگر تو دائرے کے سب سیاہ رستوں کو اپنی سوچ کے روشن چراغوں سے سجائے گی

تو ہر دکھ بھول جائے گی
وہ کہتا ہے

اگر تو دائرے کی راستوں میں روشنی بھردے تو فطری طاقتوں کا دائرہ یوں جگمگائے گا
حسیں رستے دکھائے گا

تو فطرت کے حسیں رستوں
کے سب اسرار جانے گی

سبھی افکار مانے گی

جو سوچے گی وہ پالے گی
چو چاہے گی اٹھا لے گی
وہ کہتا ہے

تجھے معلوم تو ہے کہ
تری فطرت میں تو اقرار شامل ہے
کسی سے پیار شامل ہے

تری دیوانگی مجھکو ترے نزدیک لائے گی

وصال یار میں ڈھل کر حسیں قربت جگائے گی

تمنا دید کی ہے تو
بصارت میں سماؤں گا

اگر سننے کی چاہت ہے
سماعت بن کے آؤں گا

کسی جگنو کی خواہش ہے
تو رستہ بھی دکھاؤں گا

عطا ہوتی ہوئ نعمت سے کیوں انکار کرتی ہے

مجھے اک چھوڑ کر , اوروں سے کتنا پیار کرتی ہے
قریب آؤ

تقاضائے محبت کو نبھانا ہے

تجھے ان دائروں کے راستے کو خود سجانا ہے

مری خاطر سجانا ہے زرا دلکش بنانا ہے
وہ کہتا ہے

بڑی سرعت سے رستوں پر رواں
تو عشق کے انداز جانے گی

قریب آئے تو مفہوم ریاضت کو بھی مانے گی

کہ پھر پہچان جائے گی
کہ تو سب جان جائے گی

کہ اس فطرت کی طاقت کا سفر کتنا وسیع تر ہے

وصال یار کا منظر بہت دلکش حسیں تر ہے

خرد گر کر سنبھلتی ہے

حسیں ساعت میں ڈھلتی ہے

کوئ شعلہ لپکتا ہے

کوئ آنسو پھسلتا ہے

کوئ رستہ سا بنتا ہے

کوئ منظر سنورتا ہے

بہت سے راز کھلتے ہیں

بہت سے زخم سلتے ہیں

کہاں اب دربدر ہے وہ

کہاں اب بے ثمر ہے وہ

وجود خاک کے اندر وہ کھل کے مسکراتی ہے

ستاروں کی طرح دکھتی ہے ہر پل جگمگاتی ہے

قبائے آگہی تن پہ لپیٹے راہرو کے ساتھ چلتی ہے

وہ اپنے دائرے کے راستوں میں پھول چنتی ہے

وہ ہر پل گنگناتی ہے
وہ ہر پل مسکراتی ہے

تسلی بخش راہوں سے اناالموجود کی آواز آتی ہے

جو دیوانہ بناتی ہے
کئ رستے دکھاتی ہے

شعاع نور

اپنا تبصرہ لکھیں