حسین وادئ کاغان میں چند روز


(یاد ماضی)

آجکل پاکستان کے میدانی علاقوں میں چلچلاتی گرمیوں کا زور ہے دارالخلافہ اسلام اباد میں بھی درجہ حرارت 40-45 سنٹی گریڈ تک پہنچ جاتاہے ابھی ہاڑ کا مہینہ ہے اور ساؤن کے آنے اور برسنے میں ایک ماہ باقی ہے اسکے علاوہ فوجی، سیاسی ، عدلی، اور ابلاغ عامہ کی سطح پر حد درجہ گرما گرمی ہے –کراچی ایرپورٹ پر حملہ ہوا 35 جانوں کا زیاںہوا-اور نتیجتا” ضرب غضب ” کی لپیٹ میں شمالی وزیرستان آگیا –لاکھوں لوگ گھروں سے اس شدید گرمی میں بے گھر ہورہے ہیں اپنوں کے ہاتھوں اپنوں کی تباہی بر بادی–طالبان ظالمان اب بھی ہتھیار ڈالدیں اور صلح کا سفید جھنڈا لہرا دیں تو لوگ انہیں دعائیں دیں اس آگ کو بڑھکانے اور ہوا دینے کے وہی ذمہ دارہیں اور وہی اسکو بجھا سکتے ہیں– پھر ماڈل ٹاؤن میں طاہرالقادری کے گھر پر حملے میں آٹھ افراد کی ہلاکت معمولی واقعہ نہیں– ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی طاہرہ واصف فائرنگ سے ہلاک ہوگئیں انسانی جان ہتھیلی پر لے کر پھرنے کا محاورہ پاکستان پر صادق آتاہے –پاکستان سے سات سمندر پار ہوتے ہوئے بھی پاکستانی حالات، واقعات اور خبریں پیچھا نہیں چھوڑتیں نہ چین لینے دیتی ہیں — اس بوجھ کو اتارنے کی کوشش میں وہی حال ہوجاتا ہے کہ میں کمبل سے پیچھا چھڑاتی ہوں لیکن کمبل میرا پیچھا ہرگز نہیں چھوڑیگا–

اس گرما گرمی میں اپنا ایک دو سال کا پرانا مضمون یاد آیا -شاید قارئین

کو دلچسپ لگے– گرمی تو یہاں بھی ہے لیکن اسکا توڑ اور بندوبست موجود ہے-

یہ بھی انہی دنوں اور ایسے ہی موسم کا قصہ ہےاس سال تو کہتے ہیں گرمی نے نوسالہ ریکارڈ توڑ دئے-

“اس شدید گرمی سے فرار کی تلاش تھی اور اللہ بیحد بھلا کرے اپنی صوبائی وزیر کزن بہن کا جنہوں نے شوگران میں چند روز گزارنے کی دعوت تھی- نیکی اور پوچھھ پوچھھ ہم نے انکی دعوت سر آنکھوں پر قبول کی–اسلام آباد سے ایبٹ آباد پہنچے تو عثمانیہ میں دوپہر کا کھانا کھایا انکا بار بی کیو سے مرصع کابلی پلاؤ کا پلیٹر بہت ہی آعلے اور خوش ذائیقہ تھا – بالاکوٹ پہنچے تو بہت سی پرانی یادیں تازہ ہوئیں- یہ شہر8اکتوبر 2005 کے زلزلے میں بری طرح تباہ ہوا تھاھزاروں لوگ لقمہ اجل ہوئے آنا فانا ایک ہنستا کھیلتا شہر زمین بوس ہوگیا-اللہ تعالیٰ اپنے کاموں کے اسرار و رموز سے واقف ہے– اب یہ از سر نوایک ہنستا بستا آباد شہر ہے، بعد میں جھیل سیف الملوک جاتے ہوئے ہمارے جیپ کے ڈرائیور نے بتایا کہ وہ بالا کوٹ کا رہایشی ہے اسکا ایک بیٹا اسکول منہدم ہونے کی وجہ سے شہید ہوا دوسرا بچ گیا تھا-اسے کافی شکائات تھین کہ حکومت نے انسے کئے ہوئے وعدے ابھی تک پورے نہیں کئے-بقول اسکے اگر مشرف ہوتا تو ہمارے ساتھ انصاف ہوتا- بالاکوٹ میں سید آحمد شہید بریلوی اور اسماعیل شہید کی قبریں ہیں انہوں نے سکھوں کے خلاف جہا د میں حصہ لیا تھا اور بالا کوٹ میں شہادت پائی- بالا کوٹ میں دریائے کنہار زور شور سے بہہ رھاہے یہ دریا وادئ کاغان کی شہ رگ کہلاتا ہے یہ جھیل لولوسر کے مقام پر گلیشئر سے نکلتا ہے اور پوری وادی کو سیراب کرتا ہوا مظفر آباد کے قریب دریاۓ جھلم میں ضم ہو جاتا ہے- پچھلی مرتبہ ہم یہاں پی ٹی ڈی سی (Pakistan Tourism development corporation) کے ریسٹ ھاؤس میں تھے ساتھھ ہی ایک فلمی یونٹ شوٹنگ کے لئے آیا تھا -زبردست چہل پہل تھی-

یہ حسین جنت نظیر وادئ کاغان صوبہ خیبر پختونخواہ کے ہزارہ ڈویژن میں واقع ہے یہ علاقہ قدرتی حسن وخوبصورتی سے مالا مال ہےبالاکوٹ کے بعد خنک ہواؤں اور سرسراتے ہوۓ پیڑوں نے ہمارا استقبال کیا -ائر کنڈیشنر بند کرکے گاڑی کے شیشے کھول دۓ ،راستے کے ایک جانب دریاۓ کنہار زور شور سےسنگلاخ چٹانوںسے ٹکراتےہوۓ بہہ رہاہے- اس دریا کو ایک زمانے میں لکڑی کے بھاری تنوں کی باربرداری کے لیۓ بھی استعمال کیا جاتا تھا- پچھلی مرتبہ اس راستےستمبر کے آوائل میں گزر ہوا تھا بالاکوٹ کے بعد ہمارا سفر جیپ پر تھا یھاں کے مقامی باشندے گوجر کہلاتے ہیں یہ باشندےخانہ بدوش ہوتے ہیں اور موسم کے لحاظ سے مختلف علاقوں میں حرکت کرتے ہیں اکتوبر کے بعد سے ناران کےعلاقے میں عموما برف باری شروع ہو جاتی ہے اسی وجہ سے ہمیں راستےبھر انکے قافلے ملتے رھے ، یہ اپنے مال اسباب ، مال مویشی ، بار برداری کے جانور سمیت پہاڑوں سے نیچے اترتے ہیں-میدانی علاقوں میں خیمے گاڑ کر اپنا ٹھکانہ بناتے ہیں ہمارے بچپن میں ہمارے علاقوں مین یہ لوگ بڑی تعداد میں آجاتے، ہمیں ان سے ڈرایا جاتا تھا کہ اپنے گھیر دار فراکوں میں چھپا کر لے جائینگی-ایک مخصوص قسم کی بدبو ہمیں انکی آمد سے مطلع کرتی- خواتین زیادہ تر گھروں میں جاکر فال نکالتیں یا بقول انکے قیمتی پتھر، سلاجیت اور چھوٹی موٹی اشیاء فروخت کرتیں ، مرد زیادہ تر کھیتی باڑی میں لوگوں کی مدد کرتے بعد میں جب میں نے دنیا کے خانہ بدوشوں کے بارے میں جانا تو حیرت انگیز طور پران سب میں ایک مماثلت نظر ائی- میدانوں میں سردیوں کے اختتام کے ساتھ انکا پہاڑوں میں واپسی کا سفر شروع ہوتا ہے-

ُپیچ در پیچ پہاڑی راستوں پر چڑھتے ہوئے حسن و خوبصورتی کے ساتھ خوف بھی ہم آھنگ ہوتا ہے-اب یہ راستے قدرے کشادہ ہوچکے ہیں -کہیں کہیں پر چٹانیں لڑھکنے سے اور پہاڑ کاٹے جانے سے تعمیراتی کام جاری تھا اس سے فضا کافی گرد آلود تھی- شوگراں کی سطح سمندر سے بلندی 7800 فٹ ہے ہمارا قیام محکمہ جنگلات کی آرام گاہ یا ریسٹ ھاؤس میں تھا 2003 میں سرحد کے وزیر اعلۓ اکرم درانی نے اسکا افتتاح کیاتھااسکے ساتھ ایک وسیع و عریض خوبصورت لان ہے اور سامنے برف پوش چوٹیوں کا حسین نظارہ، شمال کی جانب برف پوش چوٹی کا نام موسئ کا مصلہ ہے- خنکی محسوس ہوئی تو ایک سویٹر اور شال لے لیا ارد گرددیگر کافی خوبصورت اور اعلے پائے کے ہوٹل دکھائی دئے، سپروس ہوٹل میں جاکر کافی پی اتفاق سے ایک اور کزن اسکے مالکان میںسے ہیں- گھوڑے والے اپنے مزٰئن گھوڑوں پر سواریان کرا رھے ہیں تو جیپیں ایک اور بالائی حصے سری پاۓ کی جانب جانے کے لئے تیار تھیں –

اسقدر دلفریبی اور عافئیت پر اللہ کا بیحد شکر ادا کیا کہ امن و امان کی صورتحال اس خطے میں ابھی تک بہترین ہے-لوگ خوش مزاج ، مہمان نواز اور مہزب ہیں ،یہاں کی عام زبان ہندکو ہے جو پنجابی سے ملتی جلتی ہے-اخروٹ کے درخت یہاں کافی تعداد میں نظر آئے انمیں ابھی ہرے اخروٹ تھے جو غالبا گرمی ختم ہونے کے ساتھ تیار ہو جاتے ہیں- جا بجا شہد کے چھتوں کے ڈبے تھے ،شہد کی مکھی کی افزائش اور اسکا حصول یہاں کی ایک بڑی صنعت اور زریعہ معاش ہے- ہمارے پیچھے جگہ جگہ شہد بیچنے والے لگے بڑی مشکل سے جان چھڑاتے ہوئے 500 روپے کی دو ڈبے خریدے جبکہ وہ 500 کا ایک ڈبہ دے رہاتھا-واپسی کے وقت وہی دو بوتل 200 میں مل رہے تھے-بازاروں میں مقامی صنعت کاری کی کشمیری شالیں، اخروٹ کی لکڑی کی اشیاء اور دیگر کافی مصنوعات برائے فروخت تھیں-

سیف الملوک جھیل یہاں کی ایک بیحد حسین جھیل،برف پوش پہاڑوں کے درمیاں ایک زمردیں پیالے کی طرح ہے -یہ جھیل قدرتی حسن و جمال کا شاہکار ہے اسکے متعلق ایک مشہور رومانی داستان شہزادہ سیف الملوک او کوہ قاف کی پریوں کی شہزادی بدر جمال کے متعلق ہے کہیں کہیں بدیع جمال استعمال ہواہے-یہ ایک لمبی کہانی ہے مختصرا یہ کہ اس جھیل میں پریاں نہاتی تھیں اور شہزادہ اس پری پر عاشق ہوگیا ، شہزادے کی بیہودگی دیکھئے کہ نہاتی ہوئی پری کے کپڑے چھپا ڈالے تاکہ وہ اڑ نہ سکے – مقامی لوک داستانوں میں یہ کہانی گا گاکر سنائی جاتی ہے – ملکہ برطانیہ الزبتھ اور انکے شوہر جب 1959 میں پاکستان کے دورے پر آئے تو اسوقت کے صدر ایوب خان بطور خاص انکو ہیلی کوپٹر میں جھیل سیف الملوک لے گئے – انکے لئے بطور خاص ایک کیبن بنایا گیا تھا-

ہمارا گروپ ناران تک اپنی گاڑیوں میں گیا ، راستے میں کھنیاں کے مقام پر اسی کزن کے دوسرے ہوٹل میں کچھ دیر رکےیہ ہوٹل چینی پگوڈا طرز پر تعمیر ہوا ہےاور انتہائی دیدہ زیب ہے- بلکہ پگوڈا طرز کی تعمیر جا بجا نظر آئی مجھے یہ گمان ہوا کہ شائد زلزلے میں چینی امداد کا نتیجہ ہے لیکن پھر معلوم ہوا کہ یہ یہاں کا مقبول طرز تعمیر ہے اس ہوٹل میں اور دیگر مقامات پر بیحد خوبصورت گلاب اور موسم بھار کے پھول کھلے ہوۓ تھے -انتہائی خوبصورت مقام، کنہارپتھروں سے سر مارتا، ٹکراتا ہوا زور شور سے بہہ رہاہے- پانی کے اس زور شور کو دیکھ بار بار یہی خیال آرہاتھا کہ کاش پانی کی اس قوت کو قابو میں کردیا جاتا اور اس پر بہترین ڈیم تعمیر کردئے جاتے یا کر دئے جائیں تو بجلی کی کمیابی کا مسئلہ کوئی مسئلہ ہی نہ رہے- خود ان علاقوں میں کیئ کیئ روز بجلی غائب ہوتی ہے – شوگراں میں بجلی 24گھنٹے بند تھی ،جبکہ کھنیاں میں 3 روز سے بجلی غائب اور سارا دارومدار جنریٹرز پر تھا- کہیں کہیں راستے میں چھوٹے ٹربائن نظر آۓ-جن ممالک میں اس طرح کا پانی و دریا میسر ہیں انھوں نے ان سے بھرپور فائدہ اٹھا یا ہے -امریکہ نے 1935 میں کلوراڈو دریا پر ہؤؤرHoover ڈیم بنایا تو ریاست نواڈا اور اریزونا کی بجلی اور پانی کی ضروریات کو ازحد پورا کیا گیا-اسی کے نتیجے میں لاس ویگاس شہر آباد ہواوہ شھر جو روشنیوں کی چکا چوند کا شہر ہےاور جھاں کبھی رات نہیں چھاتی–

راستے میں کاغان اور جرید کے قصبے ملےکاغان میں پچھلی مرتبہ ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش کے مقام پر گیے اس طرح کی ایک ہیچری سوات میں مدائن میں واقع ہے-ٹراؤٹ مچھلی برفانی پانی کی مچھلی ہے اور بہتے ہؤۓ برفانی پانی میں زندہ رہتی ہے-جرید میں شال ،کمبل ،اون بننے اور لکڑی کی مصنوعات کے چھوٹے کارخانے ہیںٓ- ناران تک کے راستے میں جا بجا بڑے بڑے گلیشئرز ملتے رہے ،برف کے ان تودوں کو کاٹ کر گزرگاہ بنائی گئی ہے انکے اندر سے رستا ہوا پانی دریا میں شامل ہورہا تھا-یہاں کے راستے مئی کے وسط میں کھولے گئے ہیں اور یہان کی چھل پہل ستمبر کے آخر تک ختم ہوجائیگی- ٹھنٹدے علاقوں کے باسیوں کو گرمی کا کس شدت سے انتظار ہوتا ہے کوئی ان سے پوچھے؟ ناران کا قصبہ اب ایک شہر کا روپ دھار چکا ہے کافی بڑا بازار، بے شمار ہوٹل اور حد درجہ چہل پہل! یہیں سے جیپیں کرائے پر لیکر ہم سیف الملوک کی جانب روانہ ہوۓ-سیف الملوک تک کا راستہ کشادہ تو کر دیا گیا ہے لیکن بیحد خراب ،سڑک کہنا تو زیادتی ہو جائےگی ہزاروں جیپیں آ اور جا رہی تھیں ایک مقام پر بل ڈوذر مٹی ڈال رہاتھا اللہ معاف کرے لگتا تھا پل صراط سے گزر رہے ہیں ڈرایئورنے بتایا کہ یہ راستہ 20 مئی کو کھلاہے، پچھلا راستہ اگرچہ چھوٹا تھا لیکن اسکو چوڑا نہیں کیا جاسکتا تھا اسلئے یہ راستہ بنایا گیا بعد ازاں معلوم ہوا کہ جیپ والوںکی ملی بھگت ہے کہ سڑک اسی طرح کی کچی اور دشوار گزار ہو تاکہ انکی اجارہ داری قائم رہے-

جھیل سیفا لملوک سطح سمندر سے 10550 فٹ کی بلندی پر واقع ہے یہاں پر راستے میں مزید گلیشئیر ملے جو کافی تیزی سی پگھل رہے ہیں اسوجہ سے جابجا پانی کی کیفئیت قدرے سیلابی تھی- دس ہزار فٹ سے بلندی پر درخت ختم ہو جاتے ہیں اور محض گھاس یا چھوٹے پودے اگ سکتے ہیں-

میں اپنی یہاں کی پچھلی آمد کو یاد کر رہی تھی جب اس جھیل کو دیکھھ کر مجھے یہ سب کچھھ ماورائے دنیا لگا تھا اور بالکل سحر زدہ ہو گئی تھی اسوقت لوگوں کی آمد ورفت کافی کم تھی اب ماشاءاللہ ہزاروں لوگ تھے- اب جھیل کے قریب کافی بڑا بازار اور ہوٹل ریستوراں بنے ہوۓ ہیں ، مجھے تو یہ تجارتی پن بالکل نہیں بھایا-جھیل کو دیکھا تو ایسے لگا کہ پریاں روٹھھ چکی ہیں اورشہزادہ کہیں خواب غفلت میں مدہوش ہے- اسکے باوجود برفانی چوٹیوں اور گلیشئیرز کے درمیان یہ ایک زمردیں پیالے کی طرح ہے اوپر ایک گلیشئیر کی ڈھلوان پر پھسلنے کے لئے ٹیوب کی شیٹیں کرائے پر مل رہی تھیں جس پر سب خوب لطف اندوز ہوۓ- مجھے کینیڈا کی ٹیوبنگ یاد آئی تو انکو اس کے بارے میں سمجھایا اس حسین اور ٹھنڈے موسم میں چند روز گزار کر آئے تو اسلام اباد کی شدید ترین گرمی اور لوڈ شیڈنگ نے ہمارا استقبال کیا- کل یہاں درجہ حرارت 47 سنٹی گریڈ تھا–ہم ہیں اور ہمارا وطن ہے پیارو! اللہ سلامت رکھے آمین”

 
عابدہ
 

Abida Rahmani

اپنا تبصرہ لکھیں