حال نہ پوچھا اُن کا کسی نے، جب تھے وہ بیمار بہت

غزل حال نہ پوچھا اُن کا کسی نے، جب تھے وہ بیمار بہتاُن کی قبر پہ آپہنچے ہیں دولت کے حقدار بہت

غم کا فسانہ سنتے ہی وہ نکتہ چینی کرتے ہیں 
اس دنیا میں پائے ہیں ہم نے ایسے بھی غمخوار بہت 

دل کا سکوں کھوکر انساں کیوں دھن دولت پہ مرتا ہے 
اُن سے پوچھو کیا وہ خوش ہیں ، لوگ جو ہیں زردار بہت

جو بھی آیا ، بے چاری کو جی بھر بھر کے لوٹا ہے
سرکاروں کا جھیل چکی ہے جنتا اتیاچار بہت

نیلے پیلے رنگ بسنتی، ان سے ہولی کھیلیں ہم 
خون کے رنگ میں رنگ چکا ہے اب تک یہ گلزار بہت

شہرت، علم، ضمیر، محبت، یا پھر ہو ایمان دھرم
بکتے ہیں سب کچھ دنیا میں ، ان کے ہیں بازار بہت

مندر مسجد کے جھگڑوں میں وحشی بن بیٹھے ہیں لوگ
بھائی چارے کے مینار و گنبد ہیں مسمار بہت

ایک ذرا سا دل ہے لیکن کیا کیا کھیل کھلاتا ہے 
اس کے اشارے پر جو چلو تو جینا ہے دشوار بہت

سنتے ہیں احسان فراموشی کے قصیّ یوں موناؔ 
گھر کو لُوٹا اُس مہماں نے جس کا کیا ستکار بہت

*

Elizabeth Kurian ‘Mona’
اپنا تبصرہ لکھیں