حالات اب بھی مسلمانوں کیلئے مایوس کن نہیں

نہال صغیر
کاندیولی ۔ ممبئی

عام انتخاب 2014 کے غیر متوقع نتائج سے ملک کی سب سے قدیم سیاسی جماعت کانگریس کو سمٹنے پر مجبور کردیا ہے اور ایک ایسی جماعت جس کو لوگ فاشسٹ جماعت کہتے ہیں اس کے سب سے تیز طرار اور سیکڑوں مسلمانوں کے قتل عام میں مددگار بننے کے ملزم شخص کو ملک کی سیاسی قیادت کیلئے چن لیا ہے ۔ایک صحافی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا اور بجا طور پر کہا کہ اس شکست سے کانگریس کو شدید نقصان پہنچا ہے اسے اس کا احساس نہیں اور مسلمانوں پر ایسا لگتا ہے کہ غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔میں بھی ان کی باتوں سے صد فیصد متفق ہوں ۔کانگریس کا تو الیکشن سے پہلے ہی یہ تاثر ایسا لگتا تھا جیسے وہ اس الیکشن میں ہارنا ہی چاہتی ہے ۔اس طرح کی باتیں کانگریس کے اندرونی ذرائع سے بھی معلوم ہوئیں اب یہ ایک راز ہے کہ کانگریس کیوں ہارنا چاہتی تھی شاید کبھی اس پر سے پردہ اٹھے اور شاید کبھی نہ بھی اٹھے اور قیامت تک اس پر راز کی دبیز چادر چڑھی رہے ۔وہ میری بحث کا موضوع بھی نہیں ہے ۔میں تو صرف مسلمانوں کی طرف سے پریشان ہوں جس کے بارے میں ایک سینئر صحافیہ جیوتی پنوانی نے الیکشن سے قبل ہی ایک مباحثہ میں برملا کہا تھا کہ میں نہیں سمجھ سکتی کہ مسلمان کیوں کانگریس کی حمایت کرتے ہیں اب کانگریس نے انہیں کیا دیا ہے ۔فسادات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ،معصوم مسلم نوجوانوں کی بے وجہ گرفتاری ،آزادی کے وقت مسلمان سرکاری نوکریوں میں تیس فیصد تھے جبکہ آج دو فیصد کے آس پاس ہیں ۔بابری مسجد میں مورتی رکھنے سے اس میں تالا ڈالنے اور پھر اسے شہید کرنے تک سب کانگریس کی ہی حکومت میں ہوا۔پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اب بھی کانگریس کانگریس کا مالا جپ رہے ہیں ۔جیوتی پنوانی نے اور بہت کچھ کہا جس کا یہاں موقع نہیں ہے ۔لیکن جو کچھ انہوں نے کہا وہ مسلمانوں کی غلامانہ ذہنیت کی عکاسی کررہا تھا ۔جس میں مسلمانوں کو مبتلا کردیا گیا ہے ۔
قبل از انتخاب جس طرح مسلم تنظیموں اور مسلم سیاسی اور مذہبی رہنماں نے مودی سے خوف زدہ کرکے مسلمانوں کو پھر سے کانگریس کے اسی جال میں پھنسا نا چاہا جس نے پچھلے پینسٹھ سالوں میں سوائے استحصال کے اور کچھ نہیں کیا ۔وامن میشرام نے کہا کہ میں آج بھی مسلمانوں کو ویر پروشوں کی قوم مانتا ہوں لیکن ان کی تنظیموں اور ان کے لیڈروں کے بارے میں میری رائے بالکل مختلف ہے غور کرنے کا مقام ہے کہ کیا وامن میشرام کا کہنا غلط ہے ۔آخرکیوں ہم کانگریس پریم سے باہر نہیں آتے ؟کیوں ہم اللہ کی بجائے مودی یا بی جے پی سے خوفزدہ ہیں ؟کیوں ہماری تنظیمیں حالات کا جائزہ لے کر اس کے مطابق فیصلہ کرنے میں ناکام ہیں ؟کبھی ہم نے اس پر غور کیا ۔ایک اور اردو کے صحافی نے بہت اچھی بات کہی کہ مسلمانوں کو بہت پہلے کانگریس کو دفن کرکے سیاسی قوت بننے کی کوشش کرنی چاہئے تھی لیکن انہوں نے کانگریس کی بیساکھی کے سہارے ہی بھیک اور ذلت کی زندگی گزارنے کو ترجیح دیا ۔لیکن اب بھی وقت ہے مسلمان کانگریس کے سحر سے باہر آئیں اور غور کریں کہ انہیں موجودہ سیاسی حالات میں کیا کرنا چاہئے ۔ یاد رکھئے کہ مودی یا بی جے پی مسلمانوں کا اتنا نقصان نہیں کرسکتی کہ جتنا کانگریس نے آزادی کے بعد سے اب تک کیا ہے اور جس جس کا خوف مسلمانوں کو دلایا جارہا ہے وہ سب کچھ کانگریس کے دور میں ہوتا رہا ہے شریعت میں مداخلت بھی کورٹ کے ذریعہ ہوتا رہا ہے ۔کانگریس کی حکومت میں سلیبس میں بھی ہندوتوا کا مواد بھرا جاتا رہا ہے اور بھی کئی معاملات ہیں جو کانگریس اپنے دور میں کرتی رہی خواہ وہ با لواسطہ ہی کیوں نہ ہو۔
اب بھی ہمارے لئے حالات کوئی برے نہیں ہوئے ہیں ۔موجودہ انتخابی نتائج کو سامنے رکھیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ جس بی جے پی کی جیت سے ہمیں خوف زدہ کیا جارہا اس کو اس ملک کی عوام نے اب تک قبول نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس ملک کی عوام کی اکثریت کا یہ فیصلہ ہے ۔یہ تو مغربی جمہوریت کی سحر انگیزی ہے ۔جس میں آبادی کے 20فیصد کے فیصلہ کا اتنا احترام ہے کہ ایک ناپسندیدہ آدمی ملک کا سربراہ بن جاتا ہے ۔ بی جے پی کو 31 فیصد ہی ووٹ ملے اور کل ووٹر جن کی تعداد اکیاسی کروڑ سے زیادہ ہے اس کے صرف 55 فیصد ووٹروں نے ہی الیکشن میں حصہ لیا ۔اب بتائیے کہ اس میں ہمارے لئے مایوسی کی کون سی بات ہے ۔ بیس فیصد سے بھی کم لوگوں کے انتخاب پر ہم اتنے مایوس کیوں ہیں ۔اگر ہم تھوڑی سی کوشش کریں اور مسلم تنظیمیں اور مسلم رہنما اور مذہبی علما قرآن اور سنت اور موجودہ حالات کی روشنی میں خالص اللہ کیلئے قوم کی بہتری میں کوشش کریں تو ان حالات سے بہت آسانی سے نکلا جاسکتا ہے ۔لیکن یہ سب کچھ اس وقت ہوگا جب ہم مخلص لوگوں کی تلاش کریں اور ان پر اپنی قیادت کی ذمہ داری ڈالیں ۔انشا اللہ آئندہ میں اس بات پر روشنی ڈالوں گا کہ اگر ہم نے خود سے ہی مخلص لوگوں کی تلاش نہیں کی تو حالات کن موڑ تک جاسکتے ہیں کیوں کہ دوران انٹرویو دو لوگوں سے ایسی بات معلوم ہوئی یا انہوں نے ایسی بات کہی جس کا ہلکا سا اشارہ ہے ۔وہ رجحان خطرناک ہے ہر چند کہ یہ حالات قیادت کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں ۔
موبائل ۔9987309013

 
Attachments area

اپنا تبصرہ لکھیں