جیند جمشید کا قصور عارف محمود کسانہ ۔ سویڈن

افکار تازہ
arifمعاملہ انتہائی نازک ہے اور الفاظ کی معمولی سی بے احتیاطی سنگین نتائج کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے خصوصاََ جب ہر طرف جذباتی فضاہو اور فرقہ واریت کا ناسور اس قدر پھیل چکا ہوکہ دوسرے کی معمولی لغزش پر فتوے صادر کیے جا رہے ہوں اور اپنی غلطیوں پر چشم پوشی کی جارہی ہو اس فضا میں بہت سے اہل علم کچھ کہنے کی بجائے خاموشی اختیار کرچکے ہیں۔ ان حالات میں بات کرنا کوئی آسان نہیں لیکن کسی نہ کسی کو تو صدائے حریت بلند کرنا ہے۔ اور یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ جب بات بھی اُن ہستیوں کی ہوجن کے سامنے ہماری حیثیت ہی کیاہے۔ گذشتہ دنوں جنید جمشید نے ام المومنین حضرت عائشہ اور خواتین کے بارے میں جوکچھ کہا اس پر بہت سے تبصرے ہورہے ہیں اور ہر کوئی اپنا نقطئہ نظر پیش کررہا ہے لیکن جنید جمشید نے ایسا کہا کیوں ؟ اصل وجہ کیا ہے؟ اس پر بہت کم لوگوں نے توجہ دی ہے اور اگر کوئی معاملہ کی اصل جڑ تک پہنچا بھی ہے تو مستقبل میں کسی اور کو جنید جمشید بننے سے روکنے کا حل پیش نہیں کیا۔ جنید جمشید کا دفاع کرنے والے کہتے ہیں کہ اُس نے کو کچھ کہا وہ بخاری کی ایک روایت ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ روایت بخاری میں موجود ہے تو پھر جنید سے معافی کا مطالبہ کیوں؟پھر وہ کیسے توہین کا مرتکب ہوا ہے۔ جہاں تک عورتوں کے بارے میںاُس نے کہا ہے وہ انہی روایات کو پرتو ہے جن میں عورتوں کا ناقصل العقل، پسلی کی پیداوار، منحوس اور جہنم میں کثرت کا ذکر کیا گیا ہے تو پھر جنید جمشید کی کیا غلطی ہے۔ میرا اُس سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی مجھے ان کی کوئی وکالت کرنا ہے بلکہ مجھے تو حقائق کودیکھنا چاہیے۔
سارے معاملہ کی اصل وجہ وہ وضعی روایات اور ہمارا وہ مذہبی لٹریچر ہے جو ایسی باتوں پر مشتمل ہے۔ بہت سے اسلام دشمن بھی جب حضورۖ اور اسلام کے بارے میں زہر اگلتے ہیں تو وہ بھی مصالحہ وہیں سے لیتے ہیں۔ بہت مدت پہلے ایک مغربی جریدہ میں شان رسالت ۖ کے منافی بہت سی قابل اعتراض باتیں لکھی گئیں تھیں۔ حکومت پاکستان نے اس پر پابندی لگانے سے قبل وہ جریدہ چند اہم علماء کو ارسال کرکے رائے پوچھی تو ایک عالم دین نے بہت خوب جواب دیا کہ واقعی اس جریدہ پر پاکستان میں پابندی ہونی چاہیے مگرجنقابل اعتراض باتوں کے جو حوالے ہماری مذہبی کتابوں سے دیے گئے ہیںاور جہاں سے مواد لیا گیا ہے اُن پر بھی پابندی عائد کردی جائے تاکہ آئندہ سے یہ سلسلہ بھی بند ہوسکے۔مگر حکومت پاکستان کیسے یہ جرات کرسکتی تھی۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا تجزیہ ہے کہ حضرت عثمان کے دور خلافت میں بہت سے سازشی مسلمانوں کا لبادہ اوڑہ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور یہ سب کچھ انہی کا کیا دھرا ہے۔ لیکن ہم اسے سینے سے لگائے پھرتے ہیں۔ اس کی ایک جھلک برصغیر کے معروف عالم دین علامہ سید سلیمان ندوی کی کتاب سیرت عائشہ کے صفحہ ٨١ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے جہاں وہ لکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ کے بارے میں جب واقعہ افک ہوا اور اُن پر تہمت لگائی گئی تو رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے ساتھ مل کر حضرت حسان بن ثابت ( معروف نعت گو صحابی)، حضرت مسطح اور ام المومنین حضرت زینب کی بہن حضرت حمنہ بن حجش بھی شامل تھیں۔مقام غور ہے کہ کیا یہ ممکن یہ کہ حضور کے صحابہ اپنی ماں کے بارے میں منافقین سے مل کر معاملہ کو اچھالتے ہوں گے؟ کم از کم میں ایسی روایات کو درست نہیں تسلیم کرتا لیکن آپ سید سلیمان ندوی کا کیا کریں گے بلکہ انہوں نے بھی تو روایات کی کتب سے یہ نقل کیا ہے اور کل کوئی اسے بیان کرے گا تو اسے کیوں گردن زنی کے قابل قرار دیا جائے گا۔۔ حضور سے محبت اور مسلمان ہونے کی لازمی شرط کے تحت ہمیں ہر ایسی روایت یا بات چاہے کسی نے بھی کی ہو مسترد کردینی چاہیے جس سے حضورۖ ، صحابہ اکرام اور اہل بیت کی شان میں کمی، طعن یا گستاخی کا پہلو نکلتا ہو۔ گر ہم یہ چاہتے ہیں کہ آئندہ کوئی اور جنید جمشید کی راہ پر نہ چلے تو اس مواد اور منبع کو چھوڑ دینا چاہیے ۔ مجھے یہ بھی شدید حیرت ہے کہ سورہ نور کا جو واقعہ حضرت عائشہ سے منسوب کیا جاتاہے اس کے بیان کرنے کرنے میں اللہ نے جب اس میں حضرت عائشہ کا نام نہیں لیا اور پردہ پوشی کی ہے تو پھر کسی کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس میں اُن کا نام لیتا پھرے ۔
جنید جمشید اور دوسرے مذہبی رہنمائوں چاہے اُن کا تعلق کسی بھی فرقہ سے ہو اصل قصور یہ ہے کہ انہوںنے قرآن کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ایسی باتیں بیان کرنا شروع کردی ہیں جن کی ضرورت ہی نہیںاور دوسری جانب قرآن محض ثواب حاصل کرنے یا تلاوت کرنے کے لیے رہ گیا ہے۔ علماء کے واعظ ہوں یا مذہبی اجتماعات، ٹیلی وژن پر اسلامی پروگرام ہوں یا سوالات کے جوابات ، ہر جگہ قرآن بہت کم بیان کیا جاتا ہے اور سارا وقت قرآن کے علاوہ باقی باتیں اور قصے کہانیاں سنائی جاتیہیں۔ کب علماء قوم کو قرآن کی تعلیمات دیںگے؟ حالانکہ قرآن باربار اس طرف بلا رہا ہے۔ قرآن ہی رسول پاکۖ کی سنت ہے۔ سورہ المائدہ کی آیت ١٠١ میں واضع اعلان کردیا گیا ہے کہ یہ اللہ کی آیات جو ہم سُنا رہے ہیں اب ان آیات کے بعد کون سی حدیث ہے جس سے لوگوں کو اطمینان ہوگا۔ پھر رسول اکرم کو کہا گیا کہ قرآن کو مضبوطی سے تھامے رہیے جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے بے شک آپ سیدھی راہ پر ہیں (٤٣٣١) ۔ مزید یہ کہ زبان مصطفے ٰ ۖ سے یہ بھی کہلوا دیا گیا کہ مجھے کوئی حق نہیں کہ میں وحی میں تبدیلی کرسکوں بلکہ میں تو خود اس پر عمل پیرا ہوتا ہوں اور اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بڑے دن کے عذاب سے ڈراتا ہوں (١٠١٥)۔ ہماری مشکلات اسی وقت شروع ہوجاتی ہیں جب ہم قرآن کے علاوہ دوسری باتوں کو دین بنا کر پیش کرتے ہیں جبکہ قرآن پیش کرنے والے کو کبھی کوئی پریشانی اور مشکل پیش نہیں آتی کیونکہ قرآن نے خود کہا ہے وہ سیدھی راہ دیکھاتا ہے۔ علماء اور دین کا پیغام پھیلانے والوں کو کم از کم قرآن حکیم کی احکامات والی آیات جو کہ آٹھ سو کے قریب ہیں ان کی عوام کو تعلیم دینی چاہیے تاکہ منشاء خداوندی پورا ہوسکے اور ایک باکردار قوم کی تعمیر ہوسکے۔ قرآن کے سوا کسی اور چیز کو دین کا حوالہ نہ بنایا جائے لیکن اگر بنائیں گے تو ایسے مسائل پیدا ہوتے رہیں گے جس میں آج کل جنید جمشید پھنسے ہوئے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں