جہاں کی آپ کہیں، میں وہاں کی بات کروں

غزل
زمیں کی بات کروں، آسماں کی بات کروں
جہاں کی آپ کہیں، میں وہاں کی بات کروں
الجھ گیا ہوں تری انجمن میں آ کر میں
یقیں کی بات کروں، یا گماں کی بات کروں
ہر اک زبان پہ قصے ہیں اونچے محلوں کے
میں اپنی اجڑے ہوئے گلستاں کی بات کروں
جہاں پہ لوگ کسی زندگی کی بات کریں
وہاں پہ میں کسی خوابِ گراں کی بات کروں
ستارہ وار اترتے ہیں اشک پلکوں پر
عجب نہیں جو کسی کہکشاں کی بات کروں
کہیں کا ذکر ہو، یہ شور کرنے لگتے ہیں
کہاں کے لوگ ہیں، آخر کہاں کی بات کروں
جہاں فصیح قلم ہی سے کام چل جائے
وہاں ضرور ہے، تیغ و سناں کی بات کروں
شاہین فصیح ربانی
اپنا تبصرہ لکھیں