جھک گئی گردن کٹ گیا بازو

راجہ محمد عتیق افسر
اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات ،قرطبہ یونیورسٹی پشاور
03005930098،
attiqueafsar@yahoo.com

بلندیوں سے گر جانا یا قریب منزل کے آکر اسے گنوا دینا کتنا اذیت ناک ہوتا ہے کتنا کربناک ہوتا ہے یہ وہی سمجھ سکتا ہے جو اس کرب سے گزرا ہو یا وہ سمجھ سکتا ہے جسے اللہ نے قلب بصیر عطا کیا ہو۔ دسمبر کی یخ ہوائیں بھی ان زخموں کو کرید ڈالتی ہیں جو ہماری قوم نے بلندی سے گرنے کے بعد کھائے یہاں تک کہ ہم تو اپنا ایک بازو گنوا بیٹھے لیلکن محکومی و غلامی کی مئے کا اثر ہم پہ اتنا زیادہ ہے کہ ہم اس زخم کے درد کو محسوس ہی نہ کر پائے۔سقوط ڈھاکہ نے ملت اسلامیہ پاکستان پہ جوگھاؤ لگائے ہیں وہ اتنے گہرے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ مندمل ہونے کے بجائے ناسور بن چکے ہیں اور ہم ہیں کہ تاحال مزید زخموں کے لیے تیار ہیں۔ یقینا کچھ لوگ اسے ماضی کا بڑا سانحہ سمجھ کر بھول جانے کا کہتے ہیں اور کچھ اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر فراموش کر دینے کا کہتے ہیں ۔حقیقت بھی یہی ہے کہ ماضی میں کھوئے رہنے کا کوئی فائدہ تو نہیں حال میں رہ کر مستقبل کی فکر کرنا چاہیے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مستقبل پہ حق انہی کا ہے جو اپنا آج اپنے گزشتہ کل سے بہتر بنانے کی جستجو میں رہتے ہیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں دوبارہ انہیں دہرانے سے گریز کرتے ہیں ۔ ہمارے معاملے میں کچھ ایسا نہیں ہم ماضی سے چشم پوشی کر کے بہترین مستقبل کے خواہاںہیں جو فطرت کے خلاف ہے ۔ چوٹ کھائے ہوئے دل کے ساتھ جب سقوط ڈھاکہ کے متعلق قلم چلانے بیٹھتے ہیں تو ماضی کے صفحات ایک ایک کر کے الٹنے لگتے ہیں اور عروج و زوال کی ایک داستان ہمارے روبرو آجاتی ہے ۔ ماضی کی داستان ہمیں بتاتی ہے کہ یہ پہلا زخم نہیں جو ہمیں لگا ہے بلکہ ایک مدت ہوئی ہے ہم ایسے ہی زخم یکے بعد دیگرے کھائے جا رہے ہیں لیکن ہوش ہے کہ آنے کا نام نہیں لیتا۔اگر ہم اپنے عروج سے زوال تک کی کہانی کامرحلہ وار جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ زخم کتنا گہرا تھا اور کیا یہ بھلا دیے جانے کے قابل تھا؟ بقول فیض :
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظرمیں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختم دردِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
ہمارا عروج کا زمانہ کسی جغرافیے کا عروج نہ تھا ہم جب بام عروج پہ تھے تو ب ہم نے حیثیت امت مسلمہ عروج کی رفعوں کو چھوا تھا ۔ بحیثیت مسلمان ہم نے تاروں پہ کمندیں ڈالیں تھیں ۔ دنیا کو اخلاق و کردار سے آراستہ کیا تھا ۔ظلم کو مٹا کر عدل و انصاف کو رواج دیا تھا ۔ جہالت کے اندھیروں میں چراغ علم روشن کیے تھے دنیا کو حیوانیت سے نکال کر انسانیت کی معراج پہ لائے تھے ۔دریافت و ایجاد کے دریچے وا ء کیے تھے اور ان کی دریافت اور ایجاد نے انسان کو ہواؤں میں اڑنا سکھایا ۔اسی دور عروج میں ہم نے منجنیق سے راکٹ تک کا سفر بھی طے کیا ۔غرض سیاسی معاشی اور عسکری اور علمی میدانوں میں ہم آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے تھے ۔ لیکن پھر زوال نے ہمارے گھر کا راستہ دیکھا اور ہم ایک ایک کر کے ہر میدان میں زوال کا شکار ہو گئے ۔
مسلمانوں کے عسکری زوال کا آغاز ویانا کے دوسرے محاصرے سے شروع ہوتا ہے ۔ سلطنت عثمانیہ کی جانب سے 1683ء میں ویانا کا دوسی بار محاصرہ کیا گیا لیکن یہ محاصرہ ختم کرنا پڑا اور اس محاصرے کے بعد یورپ کے سربراہان ریاست بھی خود کو سلطان کہلوانے لگے ۔یہی وہ دور ہے جب سپین مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا لیکن خلافت عثمانیہ نے اسے یہ سوچ کر نظر انداز کیا کہ ہم چونکہ ویانا کا محاصرہ کر رہے ہیں اس لیے ہم مشرق کی جانب سے داخل ہو کر دوبارہ سپین کو بھی فتح کر لیں گے لیکن ویانا کا یہ محاصرہ ناکام ہوا اور اس کے بعد مسلمانوں کے قدم اکھڑنا شروع ہو گئے اور پے در پے شکستیں ہمارا مقدر ٹھہریں ۔اسی اثناء میں یورپی اقوام نے بحری راستوں سے جہاں گیری شروع کی ، واسکو ڈی گاما نے افریقہ کے ساحلی شہروں پہ آگ برسائی اور پھر ہندوستان کے شہروں کا رخ کیا ۔ ان پرتگالی بحری جنگجوؤں کی شکایت خلافت عثمانیہ کو کی گئی لیکن انہوں نے اسے درخور اعتناء نہ سمجھا۔ یہی سمندری مہمات بعد ازاں امریکہ کی دریافت اور دیگر ممالک میں یورپی نو آبادیات کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں ۔ اقوام مغرب تاجروں کے روپ میں مسلم علاقوں میں پہنچیں اور رفتہ رفتہ ان علاقوں کی تاجدار بن گئیں یہاں تک کہ بیسویں صدی کے نصف تک صرف پانچ ریاستیں تھیں جو براہ راست یورپی استعمار سے محفوظ رہیں باقی تمام مسلم علاقے یورپی استعمار کے قبضے میں چلے گئے ۔خلافت عثمانیہ کمزور ہوتی گئی یہاں تک کہ پہلی جنگ عظیم میں اپنا وجود تک کھو بیٹھی ۔
مسلمانوں کا سیاسی زوال 1707ء میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات سے شروع ہوا ۔ اورنگزیب عالمگیر آخری مسلم فرمانروا تھا جس کی حکومت پورے ہندوستان میں قائم تھی ۔ عالمگیر کی وفات کے بعد ایسا کوئی حکمران مسلمانوں کو نصیب نہیں ہوا جو پوری خودمختاری اور قوت کے ساتھ حکمرانی کر سکتا ۔اگر کوئی جوہر قابل نظر آیا بھی تو ایک محدود علاقے میں وہ بھی داخلی یا خارجی خلفشار کا شکار۔ سیاسی طور پر قیادت کے فقدان کی وجہ سے ہی امت مسلمہ کی قوت کمزور پڑی ۔ مسلمانوں کی جمعیت پہ کاری ضرب لگی اور ان کا اتحاد و اتفاق پارہ پارہ ہوا ۔ مسلمان علاقائی ، نسلی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پہ تقسیم در تقسیم ہوئے اور ان کی عسکری قوت بھی کمزور ہوئی ۔ یہاں تک کہ مسلمان خلافت عثمانیہ سے بھی محروم ہو گئے ۔اس وقت اگر ایک صالح اور زیرک قیادت امت مسلمہ کو نصیب ہو جاتی تو شاید کوئی راہ نکلتی لیکن سوئے قسمت کہ مسلمانوں کو ایسی قیادت نصیب نہ ہو سکی ۔
مسلمانوں کے علمی زوال کا آغاز پندہرویں صدی میں چھاپہ خانے کی ایجاد سے ہوا۔ جرمنی میں جوہانس گوٹمبرگ نے 1551ء میں چھاپہ خانے(پرنٹنگ پریس) کی بنیاد رکھی جس کے ذریعے کتابوں کوچھاپنا ممکن ہو سکا ۔ اس ایجاد نے علمی میدان میں دوڑ کا نقشہ ہی بدل دیا ۔ کچھ ہی عرصے میں یورپ کتب کی چھپائی میں ہم سے کافی آگے نکل گیا ۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمانوں نے اجتہاد کو ترک کر کے علمی جمود کی کیفیت اختیار کر لی تھی۔ مسلم علماء نے اس ایجاد سے مستفید ہونے کے بجائے اس کی مخالفت شروع کر دی ۔ چھپی ہوئی کتاب رکھنا تک قابل تعزیر جرم ٹھہرا۔یہاں تک کہ 1720 ء میں سلطنت عثمانیہ نے پہلے پرنٹنگ پریس کی مشروط اجازت دی اس وقت تک دیگر دنیا خصوصا یورپ ہم سے دو سو سال آگے نکل چکا تھا اور آج یہ فاصلہ چار سو برس تک بڑھ گیا ہے ۔ ہم لوگ اپنے علمی جمود کی وجہ سے باقی تمام دنیا سے پیچھے رہ گئے ۔ جمود علمی کے اس دور میں ہم نے کوئی ایجاد یا دریافت کرنا تو درکنار دوسروں کی ایجاد و دریافت کو بھی خود پہ حرام قرار دیا تھا ۔ حیرت تو اس امر پہ ہے کہ انسان کو ہوا میں اڑنا سکھانے والے مسلمان اور لوہے کو بارود کی مدد سے(بصورت راکٹ) فضا میں بلند کرنے والے مسلمان لیکن خلا ء اور چاند پر قدم رکھنے میں پہل کرنے والے ہمارے مخالفین ۔ یہ صرف علمی جمود اور اجتہاد سے دوری کا نتیجہ تھا اور یہی اجتہاد کا ترک کرنا تا حال ہمارے علمی زوال کا باعث ہے ۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے آسماں نے ہم کو زمیں پہ دے مارا
اپنے عروج و زوال کی تاریخ سے آشنائی کے بعد اسی تاریخ کے تناظر میں سقوط ڈھاکہ کودیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ سانحہ کوئی معمولی سانحہ نہ تھا بلکہ گزشتہ سانحات جنہوں نے زخم دئے تھے یہ ان سے بڑا سانحہ تھا ۔دو سو سال تک مسلسل زبوں حالی کا شکار رہنے والی امت مسلمہ کے لیے اس صورتحال میں قیام پاکستان کسی معجزے یا نعمت سے کم نہیں تھا ۔ ایک طویل عرصے کی پستی کے بعد بلندی کے کچھ امکانات پیدا ہوئے تھے۔ پاکستان کا قیام اصل میں یہ امید لایا تھا کہ مسلمان ایک بار پھر عروج کی جانب گامزن ہوں گے اور سیاسی ، عسکری اور علمی طور پر عروج حاصل کریں گے۔مسلمانوں نے سر اٹھا کر اپنی گمگشتہ منزل کی طرف دیکھا تھا ۔ اور لگتا تھا کہ اب یہ اسی سمت بڑھیں گے اور کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لیں گے ۔ پاکستان کا قیام سوئے ہوئے شیر کی ایک انگڑائی کی مانند تھا یا یوں کہہ لیجئے کہ اقبال کے اس شاہین کو اللہ نے بال و پر دے کر آسماں کی بلندیوں سے لڑنے کے لیے تیار کر لیا تھا۔ صدیوں غلامی کی دھوپ کے ستائے مسلمانوں کے لیے یہ شجر سایہ دار کی مانند تھا۔ ایک جدید اسلامی ریاست کی صورت میں سیاسی ، عسکری معاشی اور علمی عروج آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگا تھا ۔ لیکن یہ سب ایک خواب کی طرح چکناچور ہو گیا جب 16 دسمبر 1971 میں مشرقی پاکستان کے سقوط کا سانحہ ہوا ۔ہمارے پچھلے زخم ابھی مندمل بھی نہ ہوئے تھے کہ ہم اپنا مشرقی بازو ہی کٹوا بیٹھے ۔ بلندیوں کو ہم کیا چھوتے پہلے سے بھی عمیق گہرائیوں میں جا گرے ۔ ہماری عسکری قیادت کی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے ہزاروں مسلح سپاہیوں نے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال کر عسکری زوال کے بدترین مقام پہ ہمیں لا کھڑا کیا اور ہمارے سیاسی قائدین نےہوس اقتدار کو پورا کرنے کے لیے تقسیم پاکستان کو قبول کر کے ہمیں بدترین سیاسی زوال کی جانب دھکیل دیا۔ رہا علمی میدان میں عروج تو ماسوائے ایٹمی تجربات کے ہم کسی شعبے میں بھی قابل قدر مقام تک خود کو نہیں پہنچا سکے ۔

معاصر دنیا کا جائزہ لیں تو دو نظریاتی ریاستوں نے ہمارے ساتھ ہی سفر کا آغاز کیا تھا لیکن وہ ہمیں کئی پیچھے چھوڑ گئیں ۔عوامی جمہوریہ چین نے 1949 میں سوشلسٹ ریاست کی حیثیت سے آزادی حاصل کی ۔آزادی کے فورا بعد اس نے مشرقی ترکستان کی ریاست پہ قبضہ کر کے اسے صوبہ بنا لیابعد ازاں اس نے ہندوستان سے تبت اور کشمیر کا علاقہ اکسائچین بھی اپنے قبضے میں لے لیا اور اب وہ ہانگ کانگ اور تائیوان کو بھی اپنی ریاست کا حصہ بنا چکا۔ چین نے خود کومعیشت میں بھی مستحکم کیااور سیاسی لحاظ سے بھی ۔علم کے میدان میں بھی چینی درسگاہیں پوری دنیا کو اپنی جانب کھینچ رہی ہیں ۔مستقبل قریب میں چین دنیا کی سب سے بڑی عسکری ، سیاسی و علمی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے ۔دوسری جانب اسرائیل ہے جو اپنے ناجائز وجود کے ساتھ 1948 میں قائم ہوا ۔ یہودی اقلیت نے ارض فلسطین پہ اسرائیلی ریاست کا اعلان کیا بعد ازاں قوت کے بل پر عرب مسلم اکثریت کواقلیت میں بدلا، اپنے ارد گرد کے عربوں سے بزور جنگ علاقے ہتھیائے اور ان پہ دھاک جمائی۔علمی میدان میں اس کی ترقی کا اندازہ لگا لیجئے کہ اسرائیل کے پاس زراعت کے لیے پانی نہیں تھا اس نے تحقیق کے ذریعے سمندر کے کھارے پانے سے صحرا میں زراعت کوممکن بنایااوراب وہ زرعی اجناس برامد کر رہا ہے ۔اسرائیلی جامعات دنیا کو نئی تحقیق فراہم کر رہی ہیں ۔اسرائیل اب سیاسی طور پر بڑی قوت بننے کے لئے گریٹر اسرائیل کے منصوبے پہ گامزن ہے ۔جبکہ ہم نے قیام پاکستان کے بعد کشمیر گنوایا، حیدرآباد گنوا بیٹھے ، جوناگڑھ ہم سے نکل گیا اور 1971 میں اپنامشرقی بازو بھی گنوا بیٹھے ۔
1970 میں جب پاکستان میں پہلے عام انتخابات ہوئے تو دشمن نے بھی اپنا جال بچھا دیا ۔ مشرق و مغرب کی کشمکش کا آغاز ہوا ۔ سورج ابھرنے کی زمین پہ شیخ مجیب الرحمان نے صوبائی محرومیوں کا رونا روتے ہوئے صوبائی خودمختاری کا نعرہ دیا تو سورج غروب ہونے والوں کو ذولفقار علی بھٹو نے سوشلزم کا سہارا لے کر روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے سے دامِ فریب میں لیا۔ قومی یکجہتی تو کہیں گم ہی ہو گئی ۔عوامی لیگ نے مغربی پاکستان سے کوئی بھی امیدوار میدان میں نہیں اتارا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان سے کوئی امیدوار میدان میں نہیں اتارا۔ صرف جماعت اسلامی اور بی این پی سو جماعتیں تھیں جنہوں نے پورے پاکستان سے اپنے امیدوار میدان میں لائے ۔ اس صورتحال میں ملک کے مطلق العنان فوجی حکمران جنرل یحیی ٰ خان خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے ۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا الیکشن کے نتائج نے تقسیم کو واضح کر دیا ۔ مغربی پاکستان کی گلی کوچوں میں نعرے گونجے ” جھک گئی گردن۔۔ کٹ گیا بازو ۔۔ہائے ترازو ہائے ترازو” اور شاید یہی وہ بدقسمت لمحہ تھا کہ اسی نعرے کو ہماری تقدیر میں لکھ دیا گیا۔ مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ نے 120 نشستیں جیت لیں جبکہ مغربی پاکستان سے پیپلز پارٹی نے 80 نشستوں پہ کامیابی حاصل کی۔ جمہوریت کا تقاضا تو یہ تھا کہ اقتدار عوامی لیگ کو دیا جاتا لیکن بابائے جمہوریت ذولفقار علی بھٹو نے اِدھر ہم اُدھر تم کا نعرہ لگا کر تقسیم کی آخری کیل ٹھوک دی ۔مشرقی پاکستان میں اس زیادتی کے خلاف احتجاج برپا ہوا اور سول نافرمانی کت تحریک شروع ہوئی ۔ اس سے نمٹنے کے لئے عاقبت نااندیش فوجی حکومت نے فوجی آپریشن کا اعلان کر دیا۔ دشمن ملک بھارت نے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ ناراض بنگالیوں کو بھارت میں مسلح تربیت دے کر مکتی باہنی کے نام سے منظم کیا اور مشرقی پاکستان میں اتار دیا ۔ فوج اپنے ہی لوگوں سے گتھم گتھا ہو گئی ۔ عوامی حمایت سے محرومی کے باعث فوج کو مشرقی پاکستان میں اپنے ہمدردوں کی ضرورت تھی۔ جماعت اسلامی سے وابستہ لوگوں نے پاکستان کو یکجا رکھنے کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیں ۔پاکستان آرمی نے انہیں شہری دفاع کی تربیت دی اور یہ نوجوان البدر اور الشمس کے نام سے منظم ہو کر دفاع وطن میں جت گئے ۔ بھارت نے صرف دراندازی پہ اکتفا نہ کیا بلکہ موقع پا کر جنگ کا بگل بجا دیا۔ پاکستانی فوج ایک طرف دشمن کا مقابلہ کر رہی تھی دوسری جانب مکتی باہنی کا ۔ ان سنگین حالات میں اپنی فوجی قیادت کی ایما پر پاک فوج کے ہزاروں مسلح سپاہیوں نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار رکھ دئیے ۔ البدر اور الشمس کے نوجوان مقابلہ کرتے رہے یہاں تک کے پندرہ ہزار کارکنان جام شہادت نوش کر گئے ۔ جو گرفتار کیے گئے انہیں لمبی سزائیں دی گئیں اور عوامی لیگ کی خون کی پیاس بھجی نہیں چالیس سال بعد بھی ان بچے کھچے لوگون کو تختہء دار پہ لایاجا رہا ہے ۔ اور یون ہمارا مشرقی بازو کٹ گیا ۔ بقول مشیر کاظمی
یوں تو ہونے کو گھر ہے سلامت رہے
کھینچ لی گھر میں دیوار عیار نے
ایک تھے جو کبھی آج دو ہو گئے
ٹکڑے کر ڈالا دشمن کی تلوار نے
گھر بھی دو ہو گئے در بھی دو ہو گئے
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں
سقوط مشرقی پاکستان کا درد محسوس کرنا ہو تو برما کے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار سے محسوس کریں جنہیں ان کے اپنے وطن میں غیرملکی قرار دے کر مشق ستم بنایا جا رہا ہے اور جو بچ کر کہیں پناہ لینے دوڑتے ہیں تو اس ملک کو دروازے ان پر بند ہوتے ہیں ۔ جب برما کی سرحد مشرقی پاکستان سے ملتی تھی اس وقت یہ روہنگیا مسلمان بھی کچھ تھفظ کی زندگی گزار رہے تھے ۔ اسی برح بھارت میں آسام اور بہار کے مسلمان بھی اپنی شناخت کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ قیام پاکستان کے وقت ان علاقوں کے ستم زدہ لوگ مشرقی پاکستان ہجرت کر آئے تھے لیکن اب بنگلہ دیش کی سر زمین ان مظلوموں کے لئے شجر ممنوعہ ہے ۔ جو مہاجرین ہجرت کر کے مشرقی پاکستان منتقل ہوئے تھے وہ سقوط ڈھاکہ کے درد سے آشنا ہیں ۔ کیونکہ انہیں پاکستانی قرار دے کر کیمپوں میں مقید کیا گیا اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ اسی طرح جماعت اسلامی اور پاکستان کی وفادار جماعتوں کو کالعدم قرار دے کر ان پہ پابندیاں لگائی گئیں ۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ امت کی ڈوبتی کشتی کے بادبان تھامے تھے ۔جب کشتی ڈوبی تو طوفان کی لہروں نے بی ان پہ کوئی رحم نہ کیا اور ساحل پہ کھڑے ان کے اپنوں نے بھی انہیں موجوں سے نکالنے کی کو شش نہیں کی ۔ سقوط ڈھاکہ کا درد ڈھاکہ کی گلیاں بیان کر سکتی ہیں جو اب ہمارے لئے دیار غیر بن چکی ہیں یا پھر بابری مسجد کی شکستہ اینٹیں جو بے یار اب بھی محمود غزنوی کو پکار رہی ہیں ۔

سانحات کو ہونے سے روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی وقت کے پہیے کو الٹا گھمایا جا سکتا ہے ۔ لمحوں کی خطا کو صدیوں بھگتنا پڑتا ہے ۔ لیکن عقل و دانش کا تقاضا ہے کہ سانحات کے بعد ان کی وجوہ کا جائزہ لیا جائے اور ان غلطیوں کا ازالہ کیا جائے جن کی وجہ سے یہ سانحہ رونما ہوا اور مستقبل میں ان کوتاہیوں سے بچا جائے لیکن ہمارے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ سقوط ڈھاکہ تو بس اک واقعہ تھا سانحہ تو یہ ہوا کہ قافلے نے ٹھہر کر اس واقعے کو دیکھا تک نہیں ۔ واقعے کا جائزہ لینے کے لیے جسٹس حمودالرحمٰن کمیشن بنایا گیا جس نے حقائق پہ مبنی رپورٹ حکومت پاکستان کو دی لیکن یہ رپورٹ تاحال قوم کے سامنے نہیں لائی گئی ۔ جو افراد اس سانحے میں کے مرکزی کردار تھے انہیں سر آنکھوں پہ بٹھایا گیا۔ ذولفقار علی بھٹو کو پاکستان کا صدر اور بعد ازاں وزیر اعظم بنایا گیا اور اب بھی انہیں بابائے جمہوریت کہا جاتا ہے ۔جنرل یحییٰ خان کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر سلامی دے کر دفنایا گیا اور شیخ مجیب الرحمٰن کو بنگلہ دیش کے بانی اور قائد حریت کا درجہ دیا گیا بجز اس کے کہ قدرتی طور پہ تینوں کا خاتمہ بھیانک موت سے ہوا ۔ ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا ۔ ہم نے رہزنون کے ہاتھ میں رہبری دی اور آج تک دیتے چلے آ رہے ہیں ۔ ملک توڑنے والوں سے نجات ملتی ہے تو ملک لوٹنے والوں کے سر پہ تاج سجا دیتے ہیں لٹیروں سے دل بھر جائے تو کسی جواری یا شراب و شباب کے رسیا کو قائد بنا لیتے ہیں۔ اس صورتحال میں سیاسی عروج تو کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ عسکری میدان میں ہم نے سقوط ڈھاکہ سے کوئی نصیحت حاصل نہیں کی ہم نے سیاچن کھو دیا ، ہم نے کارگل میں جگ ہنسائی کروائی اور اب ہم نے کشمیر کی نازک صورتحال میں مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور بھارت کو آئینی ترمیم کے ذریعے کشمیری عوام کی نسل کُشی کا لائسنس دے بیٹھے ہیں ۔ ایسے میں عسکری عروج کی بھی کوئی سبیل نظر نہیں آتی ۔ تب ایک طرف صوبائی خودمختاری اور دوسری جانب روٹی کپڑا اور مکان کے جاذب نظر نعروں کے پیچھے بھاگتے ہوئے ہماری قوم نے مشرقی بازو کٹوا دیا تھا اب نئے پاکستان کے فریب میں آکر شہہ رگِ پاکستان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔دسمبر کی خون منجمد کر دینے والی سردی ہے اور برسوں پرانا زخم ہے درد سے صدائیں اٹھ رہی ہیں جھک گئی گردن کٹ گیا بازو ہائے ترازو ہائے ترازو۔۔۔۔

2 تبصرے ”جھک گئی گردن کٹ گیا بازو

اپنا تبصرہ لکھیں