جھوٹ اور حقیقت

جھوٹ اور حقیقت

جھوٹ اور حقیقت

 

تحریر مشتاق احمد خان,

مسائل کا حل صرف سچائی اختیار کرنے، حقیقت کو سمجھنے ۔ حالات کا صحیح

تجزیہ کرنے اور درست سمت میں اقدام کرنے میں ہے۔ نعرے اور الزامات

محدود حد تک پوائنٹ اسکورنگ کا موقع فراہم کرسکتے ہیں ۔ کامیابی کی بنیاد

نہیں۔ہم مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا انجام دیکھ چکے۔ کراچی سے بلوچستان

تک فوجی آپریشن اپنی ناکامیوں کی طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ شمالی علاقہ جات

میں آپریشن گیارہ سال سے جاری ہے ۔ بیرونی بھی ۔ اندرونی بھی۔ ہم نے

بستیوں پر بم برسا کر بھی دیکھ لیے۔ بستیوں سے انسانی آبادیاں منتقل کرکے

آپریشن کلین اپ کرکے بھی دیکھ لیا۔ سوات میں ایسے ہی آپریشن کے دوران

گل مکئی کے نام کے ایک افسانوی کردار نے جنم لیا۔ جو بعد ازاں ملالہ

یوسف زئی میں ڈھل گیا۔ گزشتہ دنوں ملالہ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ تو اسے تعلیم پر

حملہ قرار دیا گیا۔ اس کا الزام طالبان پر عائد کیا گیا۔ اور فرمانبردار طالبان

نے فورا اس کی ذمہ داری قبول بھی کرلی۔ میں اس حملے سے قبل بھی طالبان

کو اس قابل تو کبھی نہیں سمجھتا تھا کہ وہ امریکا میں نائن الیون کی کاروائی

کے ذمہ دار قرار دیے جاسکیں لیکن ملالہ پر حملے کے بعد تو ان کی

مہارت کا سارا پول کھل گیا۔ نام پوچھ کر متعین فرد کو قتل کرنے سے لے کر،

چلتی گاڑی میں متعین فرد کو قتل کرنے کی جو مہارت کراچی کے ٹارگٹ کلرز

کو حاصل ہے۔ طالبان تو اس کے عشر عشیر مہارت کا ثبوت بھی نہ دے سکے۔

این ایل ایف کے پاشا گل کو جب وہ ایک بینک میںد اخل ہوا چاہتے تھے، نام

لے کر پکارا گیا۔ ۔ وہ ٹھٹک کر رکے تو دوبارہ نام لے کر ان کی شناخت کی

گئی اور انہیں قتل کردیا گیا۔ ڈاکٹر پرویز محمود کا چلتی گاڑی میں قتل تو تازہ

واردات ہے ۔ اسے کہتے ہیں نشانہ بازی یہ کیا کہ ایک اسکول وین کو روک

کر ایک بچی کو شناخت کیا ۔ فائر کیا۔ مخالفین کے ہاتھوں میں اپنے خلا ف ایک

جیتا جاگتا ثبوت تھمایا۔ اور ایسے ہوتے ہیں ٹوئن ٹاورز گرانے والے؟وہ جو

غالب نے کہا تھا نا کہ

بھرم کھل جائے گا ظالم ترے قامت کی درازی کا

اگر اس طرہ پر پیچ و خم کے پیچ و خم نکلے

تو طالبان کے طرہ پر پیچ و خم کے پیچ و خم بھی کھلتے جارہے ہیں اور قامت

درازی کا بھرم بھی۔ لیکن بھرم تو سب کا ہی کھل رہا ہے۔ مثلا ہمارے سرجنوں

کی مہارت کا کہ وہ اب بھی یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ سرکی سرجری کرکے

پیوست شدہ گولی کا خول نکالنے کا ایسا آپریشن ممکن ہے جس میں مضروبہ

کے سر کے بالوں کی ایک لٹ بھی نہ کاٹنی پڑے۔ وہ تو اب بھی سر کی معمولی

چوٹ کے بعداگر چند ٹانکے بھی لگانے پڑیں تو آدھا سر مونڈ کر صاف

کردیتے ہیں۔بھرم تو ان کا بھی کھل رہا ہے جو ملالہ پر حملے کو طالبان کی تعلیم

دشمنی(خصوصا لڑکیوں کی تعلیم) کا ماتم بپا کیے ہوئے ہیں ۔پاکستان میں

لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ پرایک اخبار کا

تبصرہ ملاحظہ فرمایے۔

اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے یونیسکو کی ایک رپورٹ میں اعداد و شمار

کی روشنی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں اسکول جانے والی لڑکیوں

کی تعداد بھارت اور نیپال کی نسبت آدھی سے بھی کم ہے جب کہ بنگلہ دیش

کے مقابلے میں یہ تعداد بمشکل ایک چوتھائی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان

میں اسکول نہ جانے والی لڑکیوں کی تعداد دنیا بھر میں غالبا سب سے زیادہ

نہیںتو شاید کسی ایک آدھ پسماندہ ملک سے قدرے کم ہوگی لیکن اس کے باوجود

آفرین ہے پاکستان کے ارباب اختیار و صاحبان اقتدار پر کہ انہوں نے وفاقی

بجٹ میںتعلیم کے لیے رقم میں مزید کمی کردی ہے حالانکہ پہلے بھی وطن
عزیز کے حکمران تعلیم پر جی ڈی پی کی 2.3فیصد سے بھی کم رقم خرچ

کرتے رہے ہیں اور جہاں تک لڑکیوں کی تعلیم کا تعلق ہے تو اس میدان میں

پاکستان پورے جنوبی ایشیا کے ممالک میں سب سے نچلے مقام پر کھڑا ہے۔

رپورٹ میں ان وجوہات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جن کی بنا پر پسماندہ

ممالک میں تعلیم کی اہمیت پر اس قدر کم توجہ دی جاتی ہے ۔ پاکستان میں جو

بچے اسکولوں سے باہر ہیں ، ان میں دو تہائی تعداد لڑکیوں کی ہے ۔ پاکستان

میں اسکول نہ بھیجے جانے والے بچوں کی تعداد 50لاکھ سے زائد بیان کی گئی

ہے اور دلچسپ بات یہ ہے اس قسم کی بنیادی اہمیت کے اعداد شمار بھی ہمیں

دساور سے برآمد کرنے پڑتے ہیں کہ وطن میں ڈیمو گرافی پر کوئی خاص توجہ

نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں اسکول کی تعلیم کی استطاعت نہ رکھنے والے

غریب لڑکیوں کی شرح 78فیصد تھی جس میں اب قدرے کمی ہوئی ہے اور یہ

شرح62فیصد تک گر گئی ہے ۔ بھارت میں یہ شرح 66فیصد سے کم ہو کر

30فیصد پر آگئی ہے ۔ نیپال میں 52فیصد سے کم ہوکر 22فیصد رہ گئی ہے

بنگلہ دیش میں یہ شرح91فیصد سے کم ہو کر 44فیصد پر آگئی ہے ۔ رپورٹ

میں یونیسکو کی ڈائریکٹر پالین روز کے حوالے سے انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ

1999میں دنیا بھر کے ممالک کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ملک کے تمام بچوں

کو اسکول بھیجیں لیکن پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو اس ضمن میں

کسی قسم کی کوئی پیشرفت کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ا مت مسلمہ کے لیے سب

سے پہلے سماوی حکم تھااقرا یعنی پڑھو۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان

اسلام کے نام پر قائم ہوا اور یہاں کے حکمرانوں نے اس ملک کے بچوں

خصوصا بچیوں کی تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ یونیسکو کی رپورٹ حکومت

کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔

کہیئے کیا بات دھیان میں آئی ۔ تو پھر صرف سوات کا ماتم کیوں؟ پورے پاکستان

کا کیوں نہیں ۔رہ گیا گل مکئی کا یہ ماتم کہ طالبان کی وجہ سے اس کا

اسکول بند ہوگیا جس کا اسے اتنا ملال ہے کہ اس کا نام ہی ملالہ ہوگیا تویہ

دکھ اپنی جگہ۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ اس کا اسکول طالبان نے

کبھی بند کرایا نہ اسے تباہ کیا گیا۔ سوات میں طالبان کے نزول کے ساتھ ہی

سرکاری اسکولوں پر آرمی نے قبضہ کرلیا تھا۔ اسلحہ اکھٹا کیا تھا۔

بنائے تھے۔ اسکول کے چند

کمروں میں کلاسیں جاری رکھ کر بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال

کیا جاتا تھا۔ طالبان نے والدین کو متنبہ کیا کہ ایسے اسکولوں میں بچوں کو نہ

بھیجیں۔ پھر انہوں نے ایسے اسکولوں پر حملے کیے اس کے نتیجے میں تباہی

بھی ہوئی ۔ میں ایک لمحے کے لیے بھی طالبان کا حامی نہیں رہا۔ لیکن

حیدرآباد اور کراچی میں اسکولوں، کالجوں اور ہاسٹلوں کو نیم فوجی دستوں کی

چھائونیوں میں تبدیل ہوتے دیکھ چکا ہوں۔ لہذامیرا سوال یہ ہے کہ اسکولوں میں

فوجی پلاٹون لا بٹھانے، اسلحہ اکھٹا کرنے اور انہیں لاجسٹک پوائنٹ کے طور

پر استعمال کرنے کا کیا جواز ہے ۔ آپ ملک کے مالک ہیں۔ ریاست آپ کی ۔

حکومت آپ کی۔ آپ اسکولوں کو مورچہ بنا لیں تو جائز۔ اورجوابی کاروائی کے

طور پر آپ کے مورچے پر حملہ ہو تو وہ اسکول پر حملہ۔ شاوا بھئی شاوا۔

رہ گیا طالبان کا مسئلہ تو مکرر عرض ہے۔ سوات سے لے کر بلوچستان بلکہ

کراچی تک۔ فوجی آپریشن کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔مسائل کا حل صرف

سچائی اختیار کرنے، حقیقت کو سمجھنے ۔ حالات کا صحیح تجزیہ کرنے اور

درست سمت میں اقدام کرنے میں ہے۔ نعرے اور الزامات محدود حد تک پوائنٹ

 

اسکورنگ کا موقع فراہم کرسکتے ہیں ۔ کامیابی کی بنیاد نہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں