جھوٹی اور سچی خبر کی پہچان کا طریقہ

گذشتہ روز نارویجن خبر رساں ایجنسی این آر کے نے لیلے اترم کے ایک کالج میں پرنسپل کی اجازت سے ایک تجربہ کیا کہ میڈیا میں جھوٹی خبروں کے کیا اثرات ہوتے ہیں اور انہیں کیسے پہچانا جاتا ہے۔تاہم کچھ سیاستدانوں نے الیکشن کے دنوں میں اس قسم کے تجربے پر تنقیدبھی کی۔
تفصیلات کے مطابق این آر کے کے عوامی معلومات کے پروگرام نے ایک جھوٹی خبر نشر کی جس کے اثرات لیلے استرم کالج کے ووٹ ڈالنے کے معاملات پر دیکھنا مقصود تھے۔اس پروگرام کے میزبان ندریاس Andreas Wahl تھے۔ یہ بات انہوں نے ایک وڈیو میں بدھ کے روز بتائی۔
رونے ھیتلاند مقامی اخباری تنظیم کے سربراہ ہیں۔وہ حقیقت ڈاٹ این او اور میڈیا تلسین کے ساتھ کام کرتے ہیں۔انکا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو سچی اور جھوٹی خبروں کی پہچان کا شعور دیا جائے۔جھوٹی خبر کی پہچان کے پراجیکٹ کا نام تھا رکو ، سوچو اور چیک کرو،
کالج کے پرنسپل نے کہا کہ اس پراجیکٹ پہ خفیہ طور پر پچھلے چھ ماہ سے کام ہو رہا ہے۔یہ میری اجازت سے کر رہے ہیں اور یہ بات میرے سوا کسی کو معلوم نہیں تھی۔
جبکہ ہیتلاند نے کہا کہ ہم لوگ نئی میڈیا ٹیکنالوجی سے خوش ہیں مگر اس کے ذریعے جھوٹی خبریں پھیلانا بہت آسان ہے۔اس سلسے میں قانون سا اداروں کو روک تھام کے لیے سوچنا چاہیے۔تاہم عوام کی رہنمائی کے لیے انہوں نے اس تجربہ کے بعد یہ قوانین وضع کیے ہیں۔

ہتلاند کے وضع کردہ رہنماء اصولوں کے مطابق قارئین کو خبریں پڑھتیے وقت ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
۔ایسی خبر پر یقین نہ کریں آپ جس کے ذرائع کے بارے میں نہ جانتے ہوں۔
۔ایسی خبریں جو ایسی ویب سائٹ سے آئی ہو جس کا ایڈیٹر بھی پر یقین کیا جا سکتا ہے۔
۔میڈیا پردھوکہ کھانا آسان ہے اگر کوئی انجان ہو۔
۔پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں سے ہشیار رہیں۔
۔ اگر آپ کسی بات کے بارے میں بے یقین ہیں تو پھر اسکی تصدیق اپنے ذرائع سے کریں۔

آپ میڈیا تلسین پر اپنا ذاتی کوئز بھی کر سکتے ہیں تاکہ سچی اور جھوٹی خبروں کی پہچان کر سکیں۔
کالج میں انتخابات کے دوران جھوٹی خبروں کا تجربہ منگل کے روز کیا گیا تھا۔اس لیے تاحال این آر کے یا این ٹی بی قومی خبر رساں ایجنسی کو ابھی تک اس تجربے کے نتائج کا علم نہیں ہو سکا کہ طلبہ کے الیکشن پر اس جھوٹی خبر کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
NTB/UFN

اپنا تبصرہ لکھیں