جنرل ضیاءالحق نے آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لیامگر ڈالر کی ریل پیل تھی

جنرل ضیاءالحق نے آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لیامگر ڈالر کی ریل پیل تھی

 پاکستان کے واحد حکمران اور سربراہ ضیاٗ ء الحق ہیں جنہوں نے آئی ایم ایف سے قرضے کیلئے رجوع نہیں کیا  لیکن اس وقت افغان جنگ چل رہی تھی اور ڈالروں کی ریل پیل تھی۔

مقامی اخبار ’خبریں ‘ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیاہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کئی روز کی ہچکچاہٹ اور سوچ بچار کے بعد بالآخر قرض کے حصول کے لیے عالمی مالیاتی ادارے، آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کئی سیاسی تجزیہ کار اس فیصلے پر حکومت کے لتے لے رہے ہیں اور بہت سے معاشی ماہرین اس فیصلے کو درست قرار دے رہے ہیں۔ عوامی ردعمل عمومی طور پر قرض لینے کے اس فیصلے کے خلاف ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی اور عوامی حلقے آئی ایم ایف سے قرض لینے کے خلاف ہیں، اس کی ایک وجہ تو شائد آئی ایم ایف کو بعض سیاسی رہنمائوں کی جانب سے ایک ویلن کے طور پر پیش کرنا ہے جن میں خود وزیراعظم عمران خان بھی شامل ہیں جنھوں نے کنٹینر پر کی گئی اپنی مشہور تقریروں میں ایک موقع پر کہا تھا کہ اگر وہ وزیراعظم ہوں اور حکومت کو قرض لینے کے لیے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑا، تو وہ وقت آنے سے پہلے وہ خودکشی کر لیں گے۔ یہ تو خیر ان کا سیاسی بیانیہ تھا جو انھوں نےاس وقت کی حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کے حصول کے لیے ہونے والے مذاکرات کے وقت دیا تھا لیکن اگر دستیاب حقائق پر نظر ڈالی جائے تو جہاں آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے جہاں بہت سے نقصانات ہیں وہاں کچھ فائدے بھی ہیں۔

یہ دونوں چیزیں ان شرائط سے جڑی ہوئی ہیں جو آئی ایم ایف قرض خواہ ملک پر قرض دیتے وقت عائد کرتا ہے۔ مختلف صورتحال میں یہ شرائط مختلف ہو سکتی ہیں لیکن بعض شرائط ایسی ہیں جو پاکستان کے تناظر میں پچھلی چار دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ لاگو کی جا رہی ہیں۔ پاکستان نے پہلی بار ستّر کی دہائی میں آئی ایم ایف سے قرض لیا تھا اس کے بعد سے اب تک ہر آنے والی حکومت نے قرض کی یہ مے چکھی ہے سوائے فوجی آمر ضیا الحق کے جن کے زمانے میں افغان جنگ کی وجہ سے ڈالر کی اتنی ریل پیل تھی کہ انھیں قرض لینے کی کچھ خاص ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ذیل میں انہیں ممکنہ شرائط کی روشنی میں آئی ایم ایف کے پروگرام کے فائدے اور نقصانات کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔ ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ پاکستان کے اخراجات اور آمدن میں عدم توازن کی بڑی وجہ سبسڈی کا وہ نظام ہے جو کئی دہائیوں سے نافذ ہے۔ آئی ایم ایف اس رائے سے نہ صرف متفق ہے بلکہ اس نظام کے خاتمے کا مطالبہ بھی کرتا رہا ہے۔ یہ سبسڈی کا نظام ہے کیا؟ اس کو سمجھنے کے لیے مثال کے طور پر بجلی کو لے لیجئے۔

پاکستان میں فرض کریں کہ بجلی فی یونٹ دس روپے میں پیدا ہوتی ہے لیکن صارفین سے حکومت فی یونٹ چھ روپے لیتی ہے۔ باقی کے چار روپے حکومت اپنی جیب سے ادا کرتی ہے۔ یہ سبسڈی ہے جو حکومت بجلی کے علاوہ، گیس، پٹرول اور تیل کی دیگر یوٹیلیز پر دیتی ہے۔ آئی ایم ایف کا ہمیشہ مطالبہ ہوتا ہے کہ ان سبسڈیز کو ختم کیا جائے۔ ہر حکومت ہر دفعہ کچھ چیزوں پر سبسڈی ختم کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے اور یوں اس کی قیمت اچانک بڑھ جاتی ہے۔ اس بار حکومت نے آئی ایم کے پاس جانے سے پہلے ہی گیس کی قیمت پر سبسڈی کم کی ہے اور امکان یہی ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے نتیجے میں بجلی اور پٹرول وغیرہ پر بھی سبسڈی کم کرنا ہوگی جس کی وجہ سے ان چیزوں کی قمیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ معیشت کی سست رفتاری آئی ایم ایف کا ہمیشہ سے ہدف ہوتا ہے کہ سرکاری اخراجات میں کمی کے ذریعے ادائیگیوں کا توازن بحال کیا جائے۔ اس چکر میں آئی ایم ایف حکومتوں کو خرچ کرنے میں اتنی زیادہ احتیاط برتنے پر مجبور کرتی ہے کہ اس کی وجہ سے مالیاتی نظام پر جمود طاری ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ معاشی ترقی کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ ماہرین کو یقین ہے کہ اس بار بھی ایسا ہی ہو گا اور پچھلے سال 5 فیصد سے زیادہ تیز رفتاری سے سفر کرنے والی معیشت چار فیصد سے کم سطح پر آجائے گی۔ اور جب معیشت کی رفتار سست ہوتی ہے تو اس کا نقصان عام آدمی کو بیروزگاری میں اضافے کی شکل میں پہنچتا ہے۔

افراط زر (مہنگائی) میں اضافہ آئی ایم ایف کو ایک اور مسئلہ پاکستانی روپے کی قدر (ویلیو) کے ساتھ ہے۔ آئی ایم ایف کا ہمیشہ یہ اصرار رہا ہے کہ پاکستانی کرنسی اپنی فطری سطح سے زیادہ مہنگا ہے لہذا اسے کم کیا جائے۔ اس بار حکومت نے آئی ایم ایف سے جیسے ہی قرض لینے کا اعلان کیا، روپے کی کمی میں آٹھ سے دس فیصد کمی ایک دم دیکھنے میں آئی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف حکام روپے کی قدر میں مزید کمی کا مطالبہ کریں گے اور حکومت آئندہ چند ماہ میں روپے میں مزید دس فیصد تک کمی پر مجبور ہو گی۔ اب اس تفصیل میں جانے کی ضرورت تو باقی نہیں رہ جاتی کہ روپے کی قدر میں کمی کس طرح افراط زر کا باعث بنتی ہے جس کی وجہ سے عام اشیا کی قیمتوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوتا ہے جتنی روپے کی قدر میں کمی کی جاتی ہے۔آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے نقصانات کی فہرست طویل ہے جس میں عوامی منصوبوں کے لیے پیسے دستیاب نہ ہونا، ٹیکسز اور ڈیوٹیز میں اضافہ، شرح سود میں اضافہ، قرضوں (کسانوں وغیرہ کے لیے) کے حصول میں مشکلات اور سرکاری اداروں میں کام کرنے والوں کی مراعات میں کمی یا ملازمت سے فراغت وغیرہ شامل ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ اگر آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے نقصانات اتنے ہیں تو حکومتیں پھر یہ قرض لیتی ہی کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے کچھ فائدے بھی ہیں۔معاشی استحکام عام طور پر ہوتا یہ کہ حکومتیں آئی ایم ایف سے قرض کی کڑوی گولی اسی وقت لیتی ہیں جب معیشت کے حالت خراب ہو۔

ملک معاشی حالت کی خرابی ایک حد تک تو برداشت کر لیتے ہیں لیکن جہاں انہیں احساس ہو کہ اب معاملہ معاشی عدم استحکام کی طرف جا رہا ہے، وہ کسی بھی قیمت پر اس خرابی کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ معاشی عدم استحکام کا اثر ایک پہاڑ کی چوٹی سے گرتے ہوئے برف کے گولے کی طرح ہوتا ہے جو ایک دفعہ چوٹی سے لڑھک جائے تو پھر زمین پر گرکر ہی رکتا ہے اور اس دوران اپنے رستے میں آنے والی ہر چیز کو روندتا چلا جاتا ہے۔معاشی عدم استحکام بھی ایسے ہی ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ماہرین جو شرائط نامہ قرض کی رقم کے ساتھ قرض خواہوں کے ہاتھ میں تھماتے ہیں اس میں فوری طور پر ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے جو معاشی عدم استحکام کو، جس میں بیرونی قرضوں اور اندرونی اخراجات کی ادائیگی وغیرہ شامل ہے، ختم کیا جا سکے۔ یوں پاکستان سمیت کئی ملکوں کی تاریخ میں ایسا کئی بار ہوا ہے کہ آئی ایم ایف نے انہیں بحرانوں سے نکالا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں