جناب وزیر اعظم آزاد کشمیر

باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری
حضور!آپ اپنے بازو دیکھ لیں کتنا دم خم ہے جتنا زور ہو گا اتنی آزادی مل جائے گی۔جس ملک کا کوئی وزیر خارجہ ہی نہ ہو وہ سفارتی عملے سے شکائت ہی کر سکتا ہے۔شکائتیں روز ہوتی ہیں۔ اور روز کشمیری لاشیں اٹھاتے رہیں گے کشمیری لائن کے اس پار ہوں یا اس پار ظالم کا ہاتھ روکنے تک ماتم ہوتے رہیں گے ادھر تو لولی پاپ ہے وہ ملتا رہے گا۔کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے کیسی شہہ رگ اور کون سی دبوچنے والے کو آم اور ساڑھیاں بھیجتے جائیں۔ہر قوم کو ایک مسئلہ چاہئے ہوتا ہے ایک بڑا لیڈر درکار ہوتا ہے اور قومی شاعر بھی ہمیں قومی مسئلہ کشمیر ملا ہے جس طرح میرے گجر بھائیوں کو چودھری رحمت علی کا جسد خاکی پاکستان لانا خود اسمبلیوں میں ہوں گے وزارتیں پاس ہوں گی اور قرارداد پاس کروائیں گے کہ جسد خاکی واپس لاؤ ہے کوئی اس سے بڑا مذاق۔ستر فی صد پاکستانیوں کو اس وقت تیس سال کی عمر کو پہنچ گئے ہیں انہیں علم ہی نہیں کہ مسئلہ کشمیر ہے کیا؟وہ شائد برہان وانی کی شہادت کے بعد کچھ علم رکھتے ہیں مگر اس حد تک کہ انڈیا ان پر ظلم کر رہا ہے لہذہ انہیں یہ سمجھ آئی کہ ان کا چہیتا اداکار اور ادا کارہ کا دیس ایک ظالم دیس ہے۔کشمیریوں کا دکھ کوئی نہیں سمجھتا میں تو حیران ہو گیا کہ آج جناب فاروق حیدر وزیر اعظم آزاد کشمیر پاکستانی میڈیا پر برس رہے تھے اور انہیں کہہ رہے تھے کہ آپ ہمارا ساتھ نہیں دے رہے ۔میں نے ان کے تیز طرز گفتگو کو بڑے غور سے سنا ان سے تھوڑی بہت یاد اللہ بھی ہے۔ان کے بارے میں جو سنا تھا ایسے ہی پایا وہ گفتار کے دھنی تیزی میں کہہ گئے کہ آپ کے نزدیک کل بھوشن مسئلہ ہے میرے نزدیک برہان وانی۔مجھے تا دیر سمجھ نہیں آئی کے کل بھوشن اور برہان وانی دو مختلف موضوع ہیں ایک حزب المجاہدین کا ہیرو اور دوسرا پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کا وہ ایجینٹ ہے جس نے پاکستان میں آگ لگانے کا کام شروع کر رکھا تھا۔جناب وزیر اعظم میاں نواز شریف کی تقریر کو سراہتے نظر آئے کاش کہ وہ اپنی اس تیز و تند گفتگو میں یہ بھی فرما دیتے کہ پاکستان کے کشمیری النسل وزیر اعظم نے کشمیری نوجوانوں پر اپنے بھارتی دوست کے مظالم پر چپ سادھ رکھی ہے۔ہمارے مسئلے کچھ ہوتے ہی اس طرح کے ہیں کہ ہم نے ہر حالت میں اپنی پارٹی کا دفاع کرنا ہوتا ہے لیڈر الٹ بازیاں لگا رہا ہو ہم کہیں گے کیا بات ہے کیا کمال کی ورزش ہو رہی ہے۔مجھے آج اپنے محترم لیڈر کشمیر سے پوچھنا ہے کہ کل بھوشن ایک غدار تھا آپ کے لیڈر نے لکھی ہوئی تقریرمیں اس کا ذکر کیوں نہیں کیا؟آپ کے اس بھاشن سے ہم پاکستانیوں کو پتہ چلا ہے کہ ہم صرف کشمیر کا رونا روئیں اور اس بلوچستان کو بھول جائیں جہاں آئے روز لاشے اٹھتے ہیں کیا ہماری خوشیاں اور دکھ سانجھے نہیں ہیں؟آپ نے اے آر وائی پر جو باتیں کی ہیں یقین کیجئے یہ کسی وزیر اعظم سے توقع نہیں کی جا سکتی کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جس مسند پر آپ تشریف فرماء ہیں یہاں سردار سکندر حیات سردار عبدالقیوم سردار عتیق احمد خان اسحق ظفر بھی بیٹھے تھے ۔آپ کے ہر لفظ سے محبت بھائی چارہ اور پیار ٹپکنا چاہئے۔پاکستان اور کشمیریوں کا تعلق کلمہ ء طیبہ کی بنیاد پر ہے کشمیر ایک ادھورا مسئلہ ہے اور اس دوران جب یہ مسئلہ حل نہیں ہو رہا ایک عارضی سیٹ اپ بنا ہوا ہے۔آج بھارت جو کچھ کر رہا ہے اس میں ان کلبھوشنوں کا ہاتھ ہے جو ابھی آزاد گھوم رہے ہیں۔پاکستان اور کشمیر یک جان دو قالب ہیں۔یقین کیجئے ہماری حکومتیں بزدل ہیں ہمارے عوام ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں۔یہاں سے ساڑھیاں آم کس نے بھیجے؟جناب وزیر اعظم آپ دلیر اور دھبنگ ضرور ہیں مگر کم کم۔مزہ تو تب تھا کہ آپ بھی چیختے اور میں بھی شور کرتا لیکن کریں کیا آپ کی مجبوری مظفر آباد تھی ہماری کوئی مجبوری نہ تھی قلم تھام لیا۔نریندر مودی کی حکومت کا ایک ذمہ دار سر عام کہتا ہے کہ ہم پاکستان کو توڑ کر رکھ دیں گے برباد کر دیں گے ایک کل بھوشن ہی نہیں اجیت دوول بھی ایک بدنام زمانہ دہشت پھیلانے والا بھارتی ہے۔جناب وزیر اعظم کیا مصلحتوں کے ہمالہ آپ کو مجبور کر رہے ہیں ۔ایک وزیر اعظم بننا شائد آسان ہے لیکن ایک قائد بننا بڑی بات ہے۔آپ نے جہلم چناب کے پانیوں کی سرخی کی بات کی لیکن آپ کو علم نہیں کہ جب جب ہمارے کشمیری بھائیوں نے ہمیں پکارا ہم بھاگتے چلے آئے آزادی ء کشمیر میں جہاں آپ لڑے وہاں پاکستانی بھی آپ سے کندھے سے کندھا ملا کر لڑے
لالی اکھیاں دی پئی دس دی ہے روئے تسی وی تے روئے اسی وی آں
لٹن والیاں نے سانوں خوب لٹیا موئے تسی وی او تے موئے اسی وی آں
یہ آپس کے گلے شکوے کاش ہم سری نگر پہنچ کر کرتے مگر ہوا یوں کے آپ کے خون کے سودے ہم نہیں آپ ہی کی نسل کے لوگو کبھی کسی میاں کی شکل میں کبھی کسی خواجہ اور بٹ صاحب کی صورت میں کرتے رہے۔ہاں آپ کا شکوہ بجا ہے اور شکوہ بھی آپ کا اس سے بنتا ہے جو آپ کی پارٹی کا سربراہ بھی ہے اور پاکستان کا وزیر اعظم بھی ہے۔جی ہاں وہی وزیر اعظم جو بھارت جاتے ہیں تو انہین یہ درمیان کی لکیر ایسے ہی نظر آتی ہے جو فرماتے ہیں ہم تو ایک ہی ہیں ہم بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور آپ بھی۔جی ہاں آج میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ گیارہ معصوم جانوں کو لینے والے کیا ہم میں سے ہی ہیں کیا آلو گوشت نے اس لکیر کے پار پھول پھینک کر گیارہ کشمیری مارے ہیں۔وہ کشمیری جو بس میں سفر کر رہے تھے جو اپنے گھرون کو لوٹ رہے تھے یا جا رہے تھے کہیں کام کاج کے لئے کسی سے ملنے کسی سے بچھڑنے۔ایک ہفتہ ہو گیا ہے آئے روز بچے مارے جا رہے ہیں پیلیٹ گنوں کے بعد کچھ اس قسم کے بم پھینکے جا رہے ہیں جو کھلونا بم ہیں جی ہاں یہی آلو گوشت ہے جو مودی کے یاروں کو نظر آیا ہے۔
جناب فاروق حیدر صاحب یس سر سے کام نہیں چلے گا ڈٹ جائے اسلام آباد کے سامنے اور کہہ دیجئے کہ اب اگر کسی بھارتی فوج نے ہمارے بچے مارے تو کشمیری خاموش نہیں رہیں گے میری مراد لائن آف کنٹرول پار کرنے کی نہیں ہے یہاں اسمبلی کے سامنے پہنچئے جن کی تنخواہیں ڈبل کر دی گئی ہیں جو کسی پانامہ سے بچنے کے لئے ایک لالچ کے طور پر یہ رشوت دے دی گئی ہے ۔سچ جانئے جناب فاروق حیدر صاحب میاں نواز شریف صاحب کے لئے اقتتدار مسئلہ ہے وہ کبھی بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈالیں گے۔آپ اپنے مسل دیکھ لیں کتنا دم خم ہے جتنا زور ہو گا اتنی آزادی مل جائے گی۔جس ملک کا
کوئی وزیر خارجہ ہی نہ ہو وہ سفارتی عملے سے شکائت ہی کر سکتا ہے۔شکائتیں روز ہوتی ہیں۔ اور روز کشمیری لاشیں اٹھاتے رہیں گے کشمیری لائن کے اس پار ہوں یا اس پار۔ہاتھوں میں ہاتھ دیں اور آئیں نکلیں ایک ظالم کے خلاف جو میرا بھی قاتل ہے اور آپ کا بھی۔ شکوہ نہ کر گلہ نہ کر

اپنا تبصرہ لکھیں