جمہوری ملک کی انتظامیہ ہی نہیں عدلیہ بھی سلیبریٹی کے لئے ہے

اس پورے ہفتہ میں کیا ملکی اور کیا غیر ملکی ہر میڈیا میں بس ایک ہی خبر چھائی رہی اور وہ ہے سلمان خان کے بدنام زمانہ ہٹ اینڈ رن مقدمہ کی سماعت اور تیرہ سال کے بعد اس میں فیصلہ آنے کا ۔ ادھر سیشن کورٹ میں جج نے اسے پانچ سال قید اور ۲۵ ہزار روپئے جرمانے کی سز ا سنائی ادھر صرف دو گھنٹے بعد دو دن کی عبوری ضمانت مل گئی ۔جسے بعد میں ہائی کورٹ نے ۸ ؍مئی کو سیشن کورٹ کے فیصلہ کو اگلی شنوائی تک معطل کردیا ہے ۔مذکورہ فیصلہ اور اس پر ہائی کورٹ کے فوری دو روزہ عبوری ضمانت منظور کئے جانے پر سوشل میڈیا پر کسی نے کیا خوب طنز کیا ہے ’’سلمان کی ہائی کورٹ نے اتنی سرعت سے ضمانت منظور کی جتنی دیر میں عام آدمی کو بھیل(ممبئی کی ایک مشہور ڈش) دستیاب نہیں ہو پاتا‘‘ ۔یہ ملک عزیز میں عدم مساوات پر برملا اظہار ہے ۔اس طرح کے کمینٹ سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں جمہوریت کے نام پر عام آدمی کتنا مجبور و مقہور ہے جبکہ سلیبریٹی کے لئے سارے راستے کھلے ہوئے ہیں ۔دولت کی ریل پیل میں انہیں حمایت دینے کے لئے لوگ قطار میں نظر آتے ہیں ۔سیاست داں بیورو کریٹ بھی ان کی خدمت کے لئے حاضر رہتے ہیں ۔لیکن یہ تو ایک عام سی بات ہے اور اس پر زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن جب عدلیہ اور عدالتی نظام بھی ان سلیبریٹی اور عام آدمی میں فرق کرنے لگے تو یقینی طور پر عوام میں عدالت کا وقار مجروح ہوتا ہے ۔لوگ سوال کر سکتے ہیں کہ اس معاملے میں عدالتوں نے کیا امتیاز برتا ہے ؟ایک سوال ہے اور بظاہر اس سوال میں قوت نظر آتی ہے لیکن صرف سیشن کورٹ میں ہی تیرہ سال لگ جانا اور سزا سنانے کے صرف دو گھنٹے کے اندر ہی ضمانت مل جانا یہ کیا ہے ؟کیا ایک غریب اور عام آدمی اس کا تصور بھی کر سکتا ہے ؟بالکل نہیں ! پھر اسے ہم امتیاز کیوں نہ مانیں ؟

عدالتی نظام کی خرابی ہی کی وجہ ہے کہ لاکھوں مقدمات عدالتوں میں اپنی تاریخ کے انتظار میں ہیں ۔اگر کوئی نئے مقدمات نہیں آئے تب بھی برسوں اسے نپٹانے میں لگ جائیں گے ۔ہمارے یہاں حال یہ ہے کہ ایک عورت وجئے کماری جھوٹے مقدمہ اور پولس کی رشوت خوری اور آرام طلبی کی وجہ سے قتل کے مقدمہ میں جیل چلی جاتی ہے جج اس کے لئے پانچ ہزار کی ضمانت منظور کرتا ہے ۔لیکن اس کے پاس پانچ ہزار روپئے نہ تھے اور نہ ہی کسی نے اس کی مدد کی ۔جیل جاتے وقت وہ حاملہ تھی جیل میں ہی اس کو ولادت ہوئی ۔وہ بچہ (کنہیا)جیل میں ہی پل بڑھ کر بڑا ہو ا اور کماکر پانچ ہزار ضمانت کی رقم جمع کی جب کہیں جاکر انیس سال کے بعد وہ آزاد فضاؤں میں سانس لے سکی ۔وہ آزاد تو ہو گئی لیکن اس کی زندگی کے اکیس سال وہ بہترین ایام اسے کون لوٹائے گا ؟ایک بدنصیب اور جو ہماری عدالتی نظام کی بھینٹ چڑھ گیا کانپور کا محکمہ ڈاک کا ایک ملازم ڈاکیہ جس پر ستاون روپئے ساٹھ پیسے غبن کا الزام لگا کر اس کے سینئر نے اس پر مقدمہ قائم کیا اس کو اس الزام سے بھی پچیس تیس سال کے بعد کورٹ نے بری کیا ۔ لیکن وہ اس درمیان زندگی کے وہ قیمتی لمحات جو اس پر ان الزام کے کلنک کے ساتھ گزرے اس کا ذمہ دار کس کو مانا جائے ؟ایک بدنصیب کوتو بغیر کسی مقدمہ کے صرف تفتیش کے نام پرپولس کے ذریعہ اٹھائے جانے کے بعد جیل کے اندر زندگی کے پینتیس چالیس سال گزارنے پڑے ۔وہ جوانی کے ابتدائی ایام میں جیل گیا تھا ۔پولس عدالتیں اور انتظامیہ سب اسے جیل میں ڈال کر بھول گئے اور زندگی کے آخری ایام میں اسے کسی غیر سرکاری تنظیم کے سروے کے دوران انکشاف ہونے پر رہائی نصیب ہوئی ۔یہ تین مثالیں ہماری انسانی ہمدردی اور انسانی حقوق کی مالا جپنے کی قلعی کو پوری طرح کھول دینے کے لئے کافی ہیں ۔ لیکن یہ تو صرف چند مثالیں ہیں جو کسی ایماندار صحافی کے تگ و دو کی وجہ سے ہمارے سامنے آگئے ورنہ اس ملک کے عقوبت خانوں میں نہ جانے کتنی معصوم زندگیاں ایڑیاں رگڑ رہی ہیں اور حکومت ،اس کی انتظامیہ اور عدالتوں میں سے کسی کو فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ ان معصوم زندگیوں کوبچاکر ملک و قوم کی ترقی میں ان کا تعاون لے ۔
دنیا کے نقشے میں اور بہت سے ملک ہیں وہاں کی حکومتوں اور انتظامیہ میں بھی خرابیاں ہوں گی کیوں کہ وہاں بھی انسان ہی بستے ہیں ۔لیکن جس قدر خرابیاں اور عدم مساوات ملک عزیز کا مقدر ہے وہ کہیں اور نہیں ملے گا ۔یقین نہ آئے تو میڈیا کی خبروں کے برعکس کبھی خود سے بھی ایک ملک کادورہ کر آئیں ۔وہاں کی عدالتوں کے بھی چکر کاٹ آئیں ۔وہاں کی جیلوں کو بھی دیکھ آئیں ۔خرابیوں میں اور کوتاہیوں میں ہمارا نمبر اول ہی ہو گا۔یہاں عام آدمی کی خیر خبر لینے والاکوئی نہیں ۔ابھی تک تو عام طور پر میڈیا کے سامنے لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں یہاں کے عدالتی نظام پر پورا بھروسہ ہے ۔لیکن ذرا تنہائی میں کسی غریب اور بے سہارا سے جو کہ مہنگے وکیل کی خدمات لینا تو دور کی بات ہے ان کے دفتر میں جانے کی ہمت بھی نہیں دکھا سکتا اس سے پوچھ لیجئے وہ بتائے گا کہ اسے یہاں کی انتظامیہ اور عدالتوں پر کتنا بھروسہ ہے ۔ سامنے کی مثال سلمان خان کے مقدمہ کی ہے ۔اگر کسی غریب کو سزا سنائی جاتی تو کیا وہ اس پوزیش میں تھا کہ اس کے لئے وکیلوں کی فوج ہائی کورٹ میں اس کی ضمانت کی عرضی لگانے کے لئے موجود ہو تی یا اگر کوئی عام آدمی کو ہی سزا ہوتی اور اس کے پاس اتنی دولت ہوتی تب بھی کیا ہائی کورٹ کے جج صاحبان سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے وہ صرف دو گھنٹے میں اسے ضمانت دے دیتے ۔ہر گز نہیں اسے ہر حال میں جیل تو جا نا ہی ہوتا ۔اوپر کی تین مثالیں تو انتہائی مقہور ،مجبور اور لاچار لوگوں کی ہیں جو اسی ملک کے شہری ہیں اور ایک بات اور بتادیں کہ اوپر کی تین مثالوں میں کوئی بھی مسلمان نہیں ہے ۔اس سے ایک بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کے علاوہ بھی جو کوئی قوت نہیں رکھتا اس کی گنتی شاید انسانوں میں نہیں ہوتی اس لئے اسے کوئی سہولت نہیں ہے ۔شاید اسی کا اظہار سلمان کے ایک مداح ابھجیت نے کیا ہے کہ فٹ پاتھ پر کتے کی طرح سوؤ گے تو کتے کی طرح ہی مارے جاؤگے ۔یہ ہے اس ملک میں غریبوں اور عام آدمی کی اوقات ۔لیکن ان بگڑے مغرور اور متکبر لوگوں کو یہ کوئی بتانے والا نہیں ہے کہ انسانوں کی آبادی میں انسانوں کی ہی طرح رہنا چاہئے کتوں کی طرح نہیں اور فٹ پاتھ اگر سونے کے لئے نہیں ہے تو وہ کتوں کی طرح گاڑی چلانے کے لئے بھی نہیں ہے۔
بہت تلخی ہے میری باتوں میں لیکن جو کچھ دیکھتا ہوں اسے ہی بیان کرتا ہوں ۔ان سرپھرے متکبر اور مغرور لوگوں کی پزیرائی دیکھتا ہوں اور غریب اور بے بس لوگوں کی بے بسی بھی دیکھتا ہوں ۔پھر اس پر نام نہاد دانشوروں کو جمہوریت اور سیکولرزم کی مدح سرائی کرتے دیکھتا ہوں تو میرے سامنے اس کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے ۔سلمان کو سزا تو سنائی جاتی ہے لیکن اس میں تیرہ سال بیت جاتے ہیں اور صرف دو گھنٹے میں عبوری اور پھر دو دن میں مکمل ضمانت مل جاتی ہے ۔اب اگر یہی جمہوریت اور سیکولرزم ہے تو یہ انسانی معاشرے کے لئے خطرناک ہے ۔جو دعویٰ تو مساوات کا کرتا ہے لیکن عمل اس کے برعکس ۔جہاں ایک عورت پانچ ہزار کی ضمانت کی رقم جمع نہ کروا پانے کی وجہ سے اکیس سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہتی ہے ۔لیکن ایک شخص جو مشہور و معروف ہے اس کے پاس دولت کی ریل پیل ہے وہ صرف دو گھنٹے میں ضمانت لے کراپنے لئے آزاد ی خرید سکتا ہے ۔اسی تضادکا نام اگر جمہوریت اور سیکولرزم ہے تو اس سے کس طرح بھلائی کی امید کی جاسکتی ہے؟یا جس جمہوریت اور سیکولرزم کی لوگ دہائی دیتے ہیں اگر اس میں ذرہ برابر بھی صداقت ہے تو اس ملک میں جہاں سلمان ضمانت لے کر آزاد رہتا ہے وہیں اس خاتون وجئے کماری کو بھی آزاد رہنے کا حق حاصل ہونا چاہئے جس نے کوئی جرم ہی نہیں کیا اور شاید کوئی جرم نہیں کرنا ہی اس جمہوری ملک میں اس کی سب سے بڑی خطا بن گئی جس کی وجہ سے اسے زندگی کے بہترین اکیس سال جیل میں گزارنے پڑے۔
نہال صغیر،کاندیولی،ممبئی ۔موبائل: 9987309013
اپنا تبصرہ لکھیں