تلاش

تلاش

 


افسانہ
تلاش
سلمان عبدالصمد
انتہائی مشفقانہ لہجہ میں ممتاکی پیکر ماں نے کہا :”اما بیٹا انیس!اب توہاں کردو ، تما م بہنیں اپنے اپنے گھر چلی گئیں ، درو دیوار بھی سونے سونے ہیں ، پھر ضعیفی کے دلدل نے بھی کس سے رشتہ داری نبھائی ہے ، اب زیادہ انتظار مت کراؤ ، بس ہاں بھی تو کردو ، دیکھو ! اس ضعیفی میں آخری خواہش تمہارے سر سنہرا سہرا دیکھ جاؤں ، نہ جانے موت کا فرستادہ کب ……..”۔
چند دنوں کی چھٹی پر انیس اپنے وطن کی ہریالی وشادابی سے من بہلانے آیا تھا ، شہری زندگی کے ہجوم کار سے چنددنوں کے لئے خلاصی ملی تھی ، مگر یہاں آتے ہی ہر طر ف سے مطالبے ،وہ شادی کے……….
سرمئی شام کا دیدہ زیب منظر تھا ، چند لمحوں بعد تاریک شب لیلائے زلف پھیلانے والی تھی کہ دروازہ پر دستک ہوئی ، محبوبہ غم سے دامن چھڑاکر انیس نے دروازہ کھولا ، مگر اب بھی تفکرات کی لکیریں اس کے چہرے پر جھلمل کررہی تھیں ۔
”زہے نصیب آپ آئے بہار آئی ، مرحبا مرحبا !!چنددنوں میں ہی میں آپ لوگوں سے ملنے جانے والاہی تھا ”علیک سلیک کے بعد گرم جوشی سے معانقعہ ہوا اور انیس اپنے بہنوئی سے محو گفتگو ہوگیا ۔ گھنٹو ںباتیں ہوئیں ، دونوں ماضی کی یادوں میں کھو سے گئے، تبھی ماں نے کھانے کے لئے آواز دی،”بیٹے انیس ! کھانا تیا رہوگیا ہے ……..اورہاں …..”۔
دستر خوان بچھا کر دونوں کھانے میں مشغول ہوگئے ، زاہد نہ جانے کیوں ایک بار پھر خاموشی کے سمندر میں ڈوب گیا ، حیدر نے خموشی کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا”اما جناب ! خاموش کیوں ہوگئے ، کیا ہوا امی سے دل کی کوئی بات بتانا ہے ، اگر ہے ایسی کوئی بات تو بنادو نا ، شرمانا کیسا ، اب تو شادی کے لئے ہاں ہی کردو ، کب تلک……امی کی پسند کی لڑکی اگر ناپسند ہوتو صاف کہہ دو نا ….. کہو پروفیسر کی بیٹی ……..اپنے پروفیسر کی بیٹی ……..ہے نا دال میںکچھ کالا…….”
انیس کا غم ہلکا کیا ہوگا کہ پھر ایسی ہی باتیں ہونے لگیں ، خداخدا کر سپیدی صحر نمودار ہوئی اوروہ گھر والوں سے مل ملاکر شہر کے لئے روانہ ہوگیا ، کیونکہ آج دوبجے سے اسے ڈیوٹی جوائن کرنا تھی ۔
عاقل ، عادل ، انیس اور عاطف اچھے دوست تھے ، بہت اچھے دوست۔اب تک تو یہ مقولہ سنتا آیا تھا کہ ایک جان دو قالب ، مگران سب کی گہری دوستی دیکھ کر یہ کہنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں کہ چار قالب ایک جان ۔ فکروں کی دھا ر ایک ہی سمت ، ان کے مزاج کی ہم آہنگی ہر ایک کے لئے باعث تعجب خیز ، ان کی ہم خیالی یونیورسٹی کے طلباء کے لیے موضوع بحث تھی ، ان کی انوکھی دوستی کی خوشبو ؤں سے ان کے اہل خانہ کے مشام جاں بھی معطر تھے ، یہی وجہ تھی کہ ہر تیج وتہوار اور خوشیوں کی بارات میں وہ بھی مل بیٹھنا باعث مسرت تصور کرتے تھے ، ان کی مجلس کا قابل دید منظر ہر ایک کو بھاتا تھا ، مگر کبھی کبھار ہی انہیں مل بیٹھنے کا موقع ہاتھ آتا تھا ۔
یوں تو عمر کے پیمائش میں پہلا نمبر انیس کا ہی تھا ، پھر عاقل ، عادل اور عاطف تھے ، مگر باہم ہم خیال ہونے کے ساتھ ساتھ ہم عمر ہی نظر آتے تھے ۔ ہر ایک کا چہرہ مہرہ پر کشش تھا ، کشا دہ پیشانیاں تابناک مستقبل کا پتہ دے رہی تھیں ، قد بھی نہ زیادہ ٹھگنا اورنہ ہی دراز بلکہ متوسط انتہائی متوسط تھا ، جہانتک ان کے اہل خانہ کے معاشی منظر نامہ کا تعلق تھا وہ بھی انیس بیس کے فرق کے ساتھ تقریباً یکساں ہی تھا ۔
بسااوقات اس دوستی پر پروفیسران بھی ان سے چسکیاں لیتے تھے ، مزاحیہ انداز میں بے تکلفی سے دل کھول کر باتیں ہوتی تھیں ، وہ بھی ان دوستوں کے مستقبل کے تئیں پر امید تھے ، ان کی نفاست پسندی ، بلند خیالی ، اعلی حوصلگی اورنظم وضبط بھی یونیورسٹی انتظامیہ کے لئے باعث فخر تھی ۔
دیکھئے کاتب تقدیرکی یہ کرم فرمائی بھی ان دوستوں کو کس قدر راس آئی کہ پی ایچ ڈی کے بعد ایک ہی شہر میں سب کو ملازمت مل گئی ، ذرا ذرا فاصلہ پر کرایہ کا کمرہ تھا ، کوئی صبح یا شام نہ گزرے کہ ان کی ملاقات ہوہی جاتی تھی ۔ گرچہ یہ سب اپنی ملازمت سے حد درجہ خوش بھی نہ تھے ، کیونکہ چارو درس وتدریس سے ہی وابستہ ہونا چاہتے تھے ، اس معاملہ میں انیس کچھ زیادہ ہی دلچسپی رکھتا تھا ، اس لئے اس کے چہرے پر افسردگی بھی اپنے قدم جماتی چلی جارہی تھی ، انیس اپنے اس مرض کا تیر بہ ہدف دوا درس و تدریس کو ہی مانتا تھا۔
اپنی بساط بھر انیس نے درس وتدریس سے وابستگی کی کوشش بھی کی ، مگر کامیابی نہ ملی ، پرائیویٹ اسکول و کالج میں اتنی معمولی تنخواہ کہ گزربسر مشکل ، منظو رشدہ کالج اور یونیورسٹی میں تقرری تو جوئے شیر لانے کے برابر تھا ، کئی ایک کالج میں درخواستیں بھی دیں ، مگر کہیں منظور کاہے کر ہو ، کہیں کوئی رشتہ داری نہیں ، پھر اتنی رقم بھی کہاں کہ رش…..وہ سوچنے لگا کہ لیاقت و صلاحیت کی مول آج کوڑی برابر بھی نہیں ، بس تعلق اور بس……..!!
یوں تو وقت پرلگائے محوپرواز تھا ، کا ہے کسی کا وہ انتظار کرے ، سدا اپنے مشن سے ہی اسے سروکارہے، کسی کا وہ غم کیوں کر لے ،عاقل ، عادل اور عاطف بھی رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے ، باوجود اس کے انیس ان سب سے بڑا تھا ، مگر ا ب بھی گھر بسانے میں کتراتا تھا ، ان سب کے اہل خانہ ان ساتھیوں کے شادیوں میں جمع ہوئے اور سب نے اپنے لخت جگر کے سر سہرا دیکھا اور جھوم اٹھے ، مگر انیس ہے کہ مانو شادی نہ کرنے کی قسمیں کھالی ہے ، نا نا ، ماما ، تایا اور سب سے بڑھ کر ماں کے ارمان کا اسے کوئی لحاظ نہیں ۔
اپنے تما م ساتھیوں کی شادی میں انیس نے بھی بڑے اہتمام سے شرکت کی تھی ، بڑے تز ک واحتشام سے ان سب کی برات ہوئی تھی ، کوئی دس روز قبل ہی عاقل کی شادی ہوئی تھی ، اس شادی میں انیس کے اہل خانہ بھی شریک ہوئے تھے ، ان کے گھرانوں میں اچھا تال میل تھا ، بے تکلفی سے ا ن کے درمیان بھی باتیں ہوتی تھی ، اسی لئے شاید انیس کی امی نے شرم کی پرواہ کئے بغیر اپنے بیٹے کی ضد پر ان کے سامنے ہی ناراضگی کا اظہار کیا اور ان سے اپنے کو بیٹے کو منانے کی بھی التجا کی ۔ عاقل نے انیس کی ماں کی رقت آمیز گفتگو سنی اور آب دیدہ ہوگیا تھا ۔
مہینہ دومہینہ میں ایک بار یہ سب ساحل سمند ر ضرور ہولیا کرتے تھے ، قدرت کے دلکش مناظر سے لطف اندوز ہواکرتے تھے ۔
ایک دفعہ موسم انتہائی خوشگوار تھا ، خنکی کی چادر فضا پر محیط تھی ، ہواکے نرم نرم جھونکوں سے ان کی نفاست پسند طبیعت کھل اٹھی تھی ، خوش گپیوں کی محفل آراستہ تھی ، کیف و سرور کی بھینی بھینی خوشبو سے فضا مشکبار تھی ، مانو جنت کی پھول کیاریوں میں بیٹھے مست مست گفتگو کا جام بانٹ رہے ہوں ۔اسی درمیان عاقل کاچہر ہ متغیر ہوگیا ، بھولی بسری یادوں کی تہے اس کے چہرے پر جمتی چلی گئیں ، اس کے ذہن میں دراصل انیس کی ماں کا ارمان ناگن بن کر ڈسنے لگا تھا ۔
”دیکھئے بھائی انیس ، نہ نہ کرکے عاطف نے بھی شادی رچالی ہے ، ہم سب مسرت بھری زندگی گزاررہے ہیں ، آپ بھی تو …… اب زیادہ نہ تڑپائیں …….. آپ کی ‘ہاں ‘کی ڈور سے ہزاروں خوشیاں بندھی ہیں ، نہ جانے کتنے ارمان…مان لیجئے ، آپ کی ممی تو ….”عاقل اپنے چہرے پر خوشی ومایوسی کی لکیریں لئے انیس سے مخاطب ہوا ۔
”جی ، جی ، صحیح مشورہ ہے آپ کا ، سچ یار یہ بڈھا کب …. ہاں یار تم نے بھی حد کردی ”عاطف نے مزاح کا سماں باندھ کر انیس کو پگھلانے کی کوشش کی ۔
”ہاں بہت اچھا آپ کا بھی مشورہ ، بہت خوب ، ہاں انیس بھائی ہاں کیجئے ، اگر آپ کے پرندہ دل کا گھونسلہ کسی پری پیکر کے شانہ پرہو تو ٹھیک ہے ، اسی سے ……اگر ایسی کوئی نہیں تو بتائیے ، ہم لوگ تلا ش کرتے ہیں آپ کے لئے ”عادل نے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔
”عاطف پہلے تم یہ تو بتاؤ، تم کہہ رہے تھے کہ میں شادی نہیں کروں گا ، مگر مجھ سے پہلے تمہاری شادی ہوگئی ، بتاؤ بھائی کیاوجہ ہے ”انیس زیرلب مسکرایا اور سب کی بات کاٹ کر ایک سوال داغ دیا ۔
عاطف نے برملا جواب دیا :”بات کچھ یوں ہے کہ لڑکی ہم خیال مل گئی ، بس ہوگئی شادی ، ہم خیال اس طرح کہ وہ بھی کہتی تھی کہ میں کبھی شادی نہیں کروں گی ، اس ہم خیالی نے ہی ہمیں جوڑدیا ہے ”۔
ہفتہ بھرسے کوئی دن رات نہ سوئے، وہ سولی پر بھی گہری نیند سو سکتاہے ، مگر انیس ہے کہ نیند اس کی آنکھوں روٹھ گئی تھی ، کروٹ بدل بدل کر نیند کی تلاش میں سرگرداں تھا ، بے تاب تھا ، بے چین تھا ، بستر پر تڑپ رہاتھا ، مانو انگارے لیٹا ہو۔ ساحل سمندر سے بوجھل قدموں سے آیا تھا ، فکر کی مجسم تصویر تھا ، نرم گداز بستر پر نیم دراز ہواہی تھا کہ نیند نے اسے نرم نرم بانہوں میں لے لیا تھا ، مگر گھڑی کی سوئی کوئی ایک مرتبہ بھی چکر نہیں کاٹی تھی کہ اس کی آنکھیں کھل گئی تھیں ، اب نیند اسے روشنی کی یادو ں کے حوالہ کرکے دور بہت دور نکل گئی تھی ،اس کی کمپنی میں کوئی بڑا پروگرام تھا ، جس کے انتظام میں وہ ہفتوں جاگا تھا ، آج اسے عشائیہ کی تقریب میں بھی جاناتھا ، مگر روشنی کی یادیں پابہ زنجیر ہوگئیں ۔
کل سنڈے تھا ، صبح ہوتے ہی تمام دوست اس کے کمرے پر آدھمکے ، سب نے بیک زبان کہا:”تم پروفیسر بنوگے نا ، ایسا ہی لگتا ہے کہ پروفیسر بننے سے قبل تم شادی ہی نہ کروگے ، اچھا بھئی ، اب ہم لوگوں کو ہی تمہیں پروفیسر بنانے کی تد بیر کرنی ہوگی ”۔
”شکریہ ”مسکراتے ہوئے انیس نے کہا :”تم لوگوں نے مجھے پروفیسری کرتے خواب میں دیکھ لیا ہے ، کیا؟اچھا چلو کیا تدبیر کروگے ، بتاؤ گے بھی ”۔
سب نے کہا :”شاید تمہیں بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ آج کوئی لیاقت کی بنیاد پر پروفیسر نہیں بن سکتاہے ، اب صلاحیت کہاں کام آتی ہے ، اب ہم تمہارے لئے کیوٹ سی پروفیسر کی بیٹی تلاش کریں گے ، ٹھیک ہے نا …….پروفیسر بننے کا سب سے آسان نسخہ…….. ہے نایہ”۔
تمام دوستوں کی شادی ہوچکی تھی ، شادی شدہ کے لئے لڑکی تلاش کرنا معاشرہ میں عیب نہیں سمجھا جاتاہے ، وہ لوگ اب اپنے دوست کے لئے پروفیسرکی بیٹی تلاش کرہی سکتے تھے ، کیونکہ انیس نے زبان قال سے نہ سہی زبان حال سے پروفیسر کی بیٹی میں اپنی دلچسپی ظاہر کر ہی دی تھی ۔
عاقل تما م دوستوں میں سب سے زیادہ انیس کی شادی کے تعلق سے فکرمندتھا ، کیونکہ اس کی ماں کا سراپا اسے کبھی کبھی بے چین کردیتا تھا ، ایک دن جھومتاہوا انیس کے کمرہ پر آیا اورکہا:”بھائی !مل گئی ہے منزل ، کیوٹ ویری کیوٹ پروفیسر کی بیٹی ، اب تو شادی کرہی لوگے نا، اس کی شرط ….صرف ایک شرط….جہیز…جہیز….وہ لے گی ، سمجھ گئے نا ، جہیز لے کر جاؤ، وہ اکلوتی ہے ، پروفیسر کی اکلوتی بیٹی ، کیا ہوگا دے دو نا جہیز اسے ہی ، کیا ہوا ، سمجھ لو بس بن جاؤگے آج نہ کل پروفیسر ، پتہ ہے اس کے والد پروفیسر صاحب بہت…..”۔
اتفاق بلکہ حسن اتفاق کہ عاقل کی موجودگی میں ہی عادل بھی خوشی خوشی آدھمکا”مبارک ہو بہت بہت مبارک ، مل گئی بیٹی پروفیسر کی ، ایش اسمار ٹ ویر ی اسمارٹ ، اب تو بن ہی جاؤگے بھائی تم پروفیسر اورہاں سنو ! اس کی صرف ایک ہی شرط……..صرف ایک …طلاق کا حق شوہر کو نہیں بیوی کو ملے گا ..ہاں ہاں بیوی …پروفیسر کی بیٹی کو…..”عجب جلوہ بکھیر کر اس نے کہا ۔
”بدھائی ہوبدھائی انیس بھائی ،مل گئی ایک پری پیکر…….اس کی صرف ایک معمولی شرط…..میرا شوہر اپنے والدین سے شادی بعد صرف ایک دفعہ ہی ملے گا ، صرف ایک دفعہ ”عاطف نے بھی تلاش بسیار کے بعد پروفیسر کی ایک بیٹی ڈھونڈ نکالی ۔
روشنی بھی کوئی اور نہ تھی وہ بھی کسی…..زمانہ طالب علمی میں جس ایک پرفیسر سے انیس کی کھل کر گفتگو ہوتی تھی ، اسی کی تھی بیٹی …….ا سے سے انیس کی رسم وراہ تھی ، دل اس کا اس کے دل میں اسیر تھا ، روشنی بھی پری پیکر تھی ، اس کے جمال جہاں آراپروہ ….انیس نے جنموں جنموں کی قسم کھائی تھی کہ وہ اسی سے ہی….اس لئے اسے گلے لگاتا تھا ، پلکوں میں رکھتا تھا ، نظروں میں چھپاتا تھا ، مگر روشنی کی شرط عجیب شرط کے سامنے انیس ….بے بس تھا …اس کی شرط اور چیلنج نے انیس کو ضدی بنا دیا تھا ، اس کی ضد جب بھی ہو شادی ہماری اسی سے….یعنی کسی پروفیسرکی بیٹی سے ،تاکہ روشنی کا چیلنج…..
جوں جوں تلاش کی جاتی تھی توں توں پروفیسرکی بیٹیوں کی طرف سے عجیب عجیب شرائط …ہائے انیس کیا ہوگا ؟کیا اس کی عمر یوں ہی تما م ہوگی ؟عجب معاملہ تھا ، جس کو دیکھو وہی انیس کے پیچھے پڑاتھا ،و ہ پریشان تھا ، اس کا دماغ دھواں دھواں تھا ، اسے اس کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ اکثر پروفیسرکی بیٹاں ……..
وقت پر لگائے اڑتا ہی جارہاتھا ، گرچہ انیس درس وتدریس سے وابستہ نہیں ہوسکا ، مگر اسی کمپنی میں زبردست پرموشن ہوئی ، معقول رقم پانے لگا تھا ، مگر اب شادی نہیں رچائی تھی ، یہ تو ظاہر ہے کمپنیا ں اسے ہی زیادہ سیلری دیتی ہے جو دوربھاگ سے جی نہ چرائے ، ابھی ممبیٔ ابھی دہلی ، ابھی کنیا کمار ی تو ابھی کشمیر ، انیس کو معقول رقم اس لئے دی جانی لگی تھی کہ کمپنی کے کام سے مانو ہمیشہ سفر پر ہی رہتا تھا ۔
آج صبح امس بھری گرمی کے بعدآسمان جم کر برسا تھا ، صبح کا سہانا منظر تھا ، آج کی راجدھانی سے اسے بنگلور جاناتھا ، صبح تڑکے اسٹیشن آیا ، موسم کی شگفتگی سے اس کا چہرہ بھی پرنور تھا ، راجدھانی پلیٹ فارم پر آلگی وہ اندر آیا ، سیٹ پر بیٹھ کر یکبارگی ماضی کی یادوں میں کھوگیا ، روشنی کی ہرادا ، دلکش لب ولہجہ ، پرکشش انداز گفتگو اس کی نظروں میں پھر آیا …….کیوں کہ وہ تو روشنی کے لئے مرنا جینا چاہتا تھا ، اس کی اداؤں سے ….مگر روشنی کی اناپسندی، کٹ حجتی ،ہائے ربا !!
انیس کی حالت یکبارگی یونہی ایسی نہیں ہوگئی تھی ، برسوں بعد روشنی کے رخ زیباں کا ایک بار پھر دیدار ہورہاتھا ، سامنے والی سیٹ پر روشنی بیٹھی تھی ، امریکہ سے لوٹ رہی تھی ،صرف چہر ہ ہی بہ مشکل تمام دکھ رہا تھا ، انیس اسے کیسے نہیں پہچان پاتا ، اسے اس کی خوشبوؤں سے پہنچا ننے کا وعدہ تھا ، روشنی کے چہرے کی بشاشت اور سکون قابل دید تھا ، ہاں وہ اکیلی نہ تھی ، اس کے ساتھ مرد تھا مرد ….واقعی مرد …جس کے چہرے پر داڑھی روشنی پھیلائے تھی ۔
انیس کی حالت اور غیر ہوتی جارہی تھی ، روشنی کی شرط پردماغ گھپا رہا تھا ، اس کی شرط تھی انیس تم بس ‘اپ ٹو ڈیٹ’بن جاؤ….اگر مسلمان رہنا ہوتو …’موڈرن مسلمان ‘…..ہوجاؤ…میں تمہاری ہوں ، صرف تمہاری !!مگر آج ایک ‘عام مسلمان’ جس کے چہرے پر داڑھی تھی ، کے ساتھ امریکہ سے لوٹ رہی تھی ، وہ تو واقعی ‘اپ ٹو ڈیٹ اورموڈرن’ نہیں تھا ،انیس کی آنکھوں سے دوقطرے آنسو ڈھلک کر رخسار پر خشک ہوگئے تھے ۔
پروفیسر کی بیٹی ، انیس کی چہیتی روشنی اپنی قسمت پر نازاں وفرحاں تھی ، ساجد کو پاکر….وہ مسلمان تھا، عام مسلمان تھا … جسے وہ کبھی نا پسند کرتی تھی ، اسے چاہئے تھا کوئی اپ ٹو…….مگر عام مسلمان کے ساتھ ایسی خوش ،آخروجہ کیا تھی؟
روشنی کی قسمت نے شاید یاوری کی تھی ، پہلے احسن ملا تھا اسے ، اپ ٹو ڈیٹ اورموڈرن مسلمان…….اسے پاکر مغرور تھی اور مسرور بھی ، مگر امریکہ کیا گئی کہ احسن نے اس کی انا پسندی کی وجہ سے طلاق دے دی تھی ، دیا ر غیر میں سہمی سہمی تھی ، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا ، مگر خوش قسمتی کہ اسے امریکہ میں ایک مرد مل گیا ، ایک مر د ، یعنی عام مسلمان ساجد ، جس نے اس سے شادی کرلی تھی ، روشنی کی حالت پر اسے رحم آیاتھا ، اب دونوں دہلی ایئر پورٹ سے نئی دہلی ریلوے اسٹیشن آئے اور اپنے شہربنگلور کو جارہے تھے ، واقعی بہت خوش تھی ، روشنی ، نہ جانے کیوں ؟
روشنی کی شادی ہوگئی تھی ، ایک نہیں دو دو ، مگر اب بھی بیچارہ انیس کنوارہ ہے ، تنہاہے ….پروفیسر کی بیٹی کی تلاش ہے …..انیس نے آخری نظر روشنی پر ڈالی ، اس کی آنکھیں بھی ڈبڈبا آئیں……..اب انیس نے آنکھیں میچ لی ..اپنے چیلنج سے آنکھیں نہ ملا پا یا…اب بھی بیچارہ کنوارہ ہے اور جاری ہے پروفیسر کی تلاش ……..۔
مقام گجبور ، پوسٹ بّرا ، وایا کنڈل ، ضلع دربھنگہ بہار
salmansamadsalman@gmial.com
9598271027

اپنا تبصرہ لکھیں