تعلیم یا شعور !

Khalid Zahid.....
قلم سے قلب تک
(شیخ خالد زاہد، نیو کراچی)

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک خصوصی طور پر ایٹمی ممالک جن کی ظاہری گنتی آٹھ ہے۔۔۔ہم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں تو شائد ڈھونڈنے سے بھی نہ مل سکیں مگر اللہ کی رحمت، ڈاکٹر عبدالقدیر اور انکی ٹیم کی مرہونِ منت ہم ان آٹھ ممالک میں سے ایک ہیں۔۔۔ہم لوگ طبعیتاً کافی جذباتی واقع ہوئے ہیں۔۔۔مگر افسوس اس امر کا ہے کہ ہمارے جذبات کی ترجمانی کرنے والا آج تک کوئی لیڈر یا رہنما پیدا نہیں ہو سکا ۔۔۔اور اگر کوئی ہم میں سے اٹھا بھی ہمارے جذبات کی ترجمانی کرنے کے شوق میں تو وہ گھیر لیا گیا۔۔۔اسے ہمارے ملک کا وہ قبیلہ کھا گیا جو غاصبوں کی طرح اس ملک پر خود براجمان ہے۔۔۔ہم پاکستانیوں کے پاس بڑی مشکل سے تین وقت کی روٹی کمانے کے بعد جو وقت بچتا ہے ۔۔۔وہ بجلی آنے کے انتظار میں گزرتا ہے۔۔۔CNG کی لائن میں گزرتا ہے۔۔۔کھانے کے لئے گھریلو گیس کا انتظارمیں گزرتا ہے۔۔۔ٹریفک میں پھنس کے گزرتا ہے۔۔۔ہم آٹھارہ کڑور پاکستانی آبادی کے لحاظ سے تو اپنے ملک کو چھٹے نمبر پر لے آئے ہیں۔۔۔مگر روز بروز دوسری تمام فہرستوں میں دور سے دور ہوئے جا رہے ہیں۔۔۔تعلیم کے عام کرنے کی باتیں سب کرتے ہیں۔۔۔کسی نہ کسی سطح پر کچھ عملی اقدامات بھی کر دیتے ہیں۔۔۔کوئی بستے تو کوئی کتابیں مفت دیتا ہے۔۔۔ کوئی پرائمری تعلیم مفت کروا دیتا ہے۔۔۔لاتعداد غیر سرکاری تنظیمیں تعلیم کو عام کرنے میں برسرِ پیکار ہیں۔۔۔مگر کیا وجہ ہے کہ کوئی قائدِاعظم نہیں پیدا ہو رہے۔۔۔کوئی ڈاکٹر اقبال پیدا نہیں ہو رہے۔۔۔کوئی ڈاکٹر عبدالسلام نہیں پیدا ہورہے۔۔۔کوئی فیض پیدا نہیں ہورہے۔۔۔آخر کیوں۔۔۔یہ سوال ہم سب سے ہے۔۔۔

اسمبلیوں میں بیٹھے سیاستدانوں کا کام آئین سازی کے نام پر آئین کی دھجیاں اڑاناہی ہے۔۔۔کیا ان لوگوں کوتعلیمی اصطلاحات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔۔۔یہ لوگ تو کبھی وطنِ عزیز کے تعلیمی نظام کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔۔۔ہر سال کو کوئی نہ کوئی نام دیا جاتا ہے۔۔۔کسی کے نام سے منصوب کیا جاتا ہے۔۔۔میں اپنے طور سے اور آپ لوگوں کی جانب سے سالِ نو کو ۔۔۔شعور کی بیداری۔۔۔کا سال قرار دیتا ہوں۔۔

ہمارے بچے کا نتیجہ اچھا آجائے ۔۔۔اسکول میں یا کلاس میں اول آجائے۔۔۔نہیں تو پاس تو ہو ہی جائے۔۔۔تاکہ جلدی جلدی اگلی کلاس میں تو جائے۔۔۔کیا ہمارے معاشرے کے یہی رجحانات نہیں ہیں۔۔۔طبقہ یا کلا س کوئی بھی ہو ۔۔۔ہیں تو پاکستانی ہی نہ۔۔۔ہم نے آخری دفعہ اپنے بچے کے اسکول کا بیگ کب چیک کیا تھا۔۔۔کیا تو تھا مگر ر ر ر ر ر۔۔۔ٹھیک سے یاد نہیں۔۔۔نصاب میں شامل کتابیں کس ٹیکسٹ بک بورڈکی ہیں یہ بھی پتہ تو ہے۔۔۔مگرررررررابھی یاد نہیں۔۔۔ان تمام مسائل کے پیچھے کون ہے۔۔۔جی۔۔۔بلکل ہمارے رہنما ہی ہیں۔۔۔جنہوں نے ان کتابوں سے نہیں ۔۔۔اپنے تجربوں سے علم حاصل کیا ہے۔۔۔جس کی بدولت پیسہ اور اقتدار کیسے بناناہے۔۔۔یا بن گیا تو کیسے بچانا ہے۔۔۔

بخدا میں جب لکھنے بیٹھا تھا تو ۔۔۔قطعی یہ سب نہیں لکھنا چاہتا تھا۔۔۔در اصل میرا مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم تو کسی نہ کسی طرح کتابوں سے مل ہی جاتی ہے۔۔۔مگر شعور کہاں سے ملتا ہے۔۔۔میں ایک سات سال کے ایسے بچے کو جانتا ہوں جسے اللہ نے بہت اچھا ذہن دیا ہے۔۔۔اور وہ تھوڑا سا دھیان لگا کر کچھ پڑھتا ہے یا کچھ دیکھتا ہے۔۔۔تو وہ بہت اچھی طرح مجھے سمجھا دیتا ہے ۔۔۔مگر نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے جیسے اس کا یہ علم یہ سمجھ سطحی ہے۔۔۔وہ ان چیزوں کو جذب نہیں کرتا ۔۔۔جس کی وجہ سے اسکی روحانی نشونما نہیں ہوپارہی ۔۔۔میں ایسا گمان کر رہا ہوں ۔۔۔یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے کہ آپ کس طرح کوئی بات کسی کے دل تک پہنچائیں۔۔۔اس بات کی نشاندہی کیسے ہو سکتی ہے کہ کوئی بات آپکے سامنے والے کے دل میں اتر گئی ہے یا ۔۔۔روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی۔۔۔

آپ یقیناًیہ ضرور سوچ رہے ہونگے کے سوائے وقت کے ضیاع کے اور اس مضمون میں کچھ نہیں۔۔۔مگر آپ جان لیجئے آپ کے مستقبل کی کامیابی کا راز اس مضمون میں پوشیدہ ہے۔۔۔اپنی آنے والی نسلوں کی تربیت صحیح سمت میں کیجئے۔۔۔انہیں بڑوں کا حقیقی احترام سیکھائیے۔۔۔باادب با نصیب بے ادب بد نصیب۔۔۔فیصلہ ہم نے کرنا ہے۔۔۔کیا اچھا ہے کیا برا کم ازکم بتانا ہے۔۔۔تربیت سے شعور بیدار ہوتا ہے۔۔۔علم کے حاصل کرنے کا شوق ذوق کے ساتھ بڑھتا ہے۔۔۔شعور وہ عنصر ہے جو دنیا میں ،اپنے کام میں، ہر جگہ ، جہاں کہیں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہوگی تبدلی لے آئے گا۔۔۔ایسا میرا ماننا ہے۔۔۔اور یقین ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کی مددان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے۔۔۔جو روح کی نمو کے لئے سر گرداں ہوتے ہیں۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں