تعلیم وقار انسانیت کا ذریعہ

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) غلام فرید
آج کی مہذب دنیا میں کوئی قوم تعلیمی اہداف حاصل کئے بغیر اقوام عالم میں عزت کا مقام حاصل نہیں کرسکتی۔ زیور علم سے آراستہ ہونا ہر فرد کا بنیادی حق ہے۔ ہر حکومت پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو دستیاب وسائل میں حصول علم کے بھر پور مواقع فراہم کرے۔ سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے قیام و اجراء کے ساتھ وہاں ضروری بنیادی سہولتوں کو بھی یقینی بنائے تا کہ طالب علم خوشگوار ماحول میں حصول علم کا فریضہ انجام دیں۔ افرادی قوت جب عصری تقاضوں کے مطابق معیاری تعلیم سے مزین ہوگی تو ملک و قوم کی ترقی میں بھرپور حصہ لے سکے گی۔ آج دنیا کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو وہی اقوام بہتر زندگی گزار رہی ہیں جہاںشرح خواندگی زیادہ ہے
ستم ظریفی کی بات یہ ہے کی آزادی کے بعد قائداعظم اور لیاقت علی جیسی شخصیات جلد اللہ کو پیاری ہوگئیں وہ قیادت جنہوں نے آزادی کی جنگ جیتی تھی اور ملک کی ترقی کے لئے اعلیٰ اہداف متعین کئے تھے بہت جلد موت کی آغوش میں چلی گئی۔ دوسرے درجے کی قیادت میں نہ تو وہ ذہانت تھی اور نہ ہی تجربہ، ان میں نہ تو وہ بے لوث خدمت کا جذبہ تھا اور نہ ہی سیاسی بصیرت کہ وہ اپنی قوم کی بہتری کے لئے اپنی خدمات بروئے کار لاتی۔ حکومتوں کی نت نئی تبدیلی نے آزاد وطن کو وہ جہت اور سمت نہ دی جو ترقی کا باعث بنتی۔ ذاتی اقتدار کی بندر بانٹ جاری رہی۔ اسی دوران مارشل لائی قوتوں کو اقتدار پر قابض ہونے کا موقع ملا، فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے طویل عرصے تک عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی۔ مفاد پرستی، خود غرضی اور ابن الوقتی نے ہمارے سیاستدانوں کو بے وقار کردیا۔ انہوں نے آزادی کے مقاصد اور ترجیحات کو پس پشت ڈال کر اپنی جاگیروں ، کارخانوں ، فیکٹریوں اور زمینوں کو محفوظ کرنے اور قومی دولت پر ہاتھ صاف کرنے کا وطیرہ اپنا لیا۔ ہم سے بعد میں آزادی حاصل کرنے والے ممالک کی قیادت نے اپنے ملکوںاور لوگوں کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال کر نام پید ا کیا۔ ملائشیا، انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک صنعتی میدان میں بہت آگے بڑھ گئے اور ہم ابھی تک غربت کے اندھے کنویں میں گر کر خودکشیاں کررہے ہیں۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ان پڑھ جاگیرداروں اور مالداروں نے جعلی ڈگریوں کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ جما لیا۔ چونکہ وہ دھونس، دھاندلی اور کالا دھن کے زور پر ایوانوں پر قابض ہوئے تھے لہٰذا تعلیمی ترقی، تعلیمی اہداف اور تعلیمی مقاصد ان کی ترجیحات میں شامل نہیں تھے۔ ان کے لئے غریب ہاری ، ان پڑھ مزدور اور جاہل عوام زیادہ مفید تھے جنہیں ڈرا دھمکا کر وہ ووٹ کی پرچی حاصل کرنے میں عافیت سمجھتے تھے اس لئے تعلیم کے میدان میں ہمارے زعما نے وہ تدبر، وہ حکمت عملی وہ پالیسی نہیں بنائی جو قوم کو علمی مدارج طے کرنے میں معاون ثابت ہوتی۔
جب حکومتی پالیسیاں عوام الناس کے حق میں نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئیں تو نجی شعبے نے مختلف سسٹم کے تحت سکول کھولے۔ ان انگلش میڈیم سکولوں نے نسل نو کو جہاں زیور علم سے آراستہ کیا وہاں گلوبل ویلج کے تقاضوں کو بھی پیش نظر رکھا۔ مگر اس طرز کی تعلیم سے صرف وہی طبقہ فیض یاب ہونے لگا جووسائل رکھتا تھا۔ ہر ماہ ہزاروں روپے کی فیسوں کی ادائیگی، مہنگی کتب، علمی و ادبی مشاغل کے لئے پیسہ خرچنے کی اہلیت، آرٹ و سائنس کے مقابلوں میں شرکت کے لئے درکار وسائل کی فراہمی، تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے سازو سامان اور مطالعہ فطرت اور وسعت نگاہی کے لئے ایجوکیشنل ٹرپس کے لئے رقم کی دستیابی۔ ظاہر امر ہے کہ جس ملک میں طبقاتی تفریق میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہو وہ لوگ جن کے پاس بڑے عہدے تھے ، جو پارلیمان کی زینت بنے انہوں نے ملکی وسائل کی لوٹ مار میں بھر پور حصہ لیا جاگیریں ، پلاٹ، کارخانے ، اعلیٰ سرکاری مناصب حاصل کرنے کے بعد بے دردی سے کرپشن کو پروان چڑھایا۔ بد قسمتی سے کرپٹ حکمرانوں کی چھتری تلے لوٹ مار کا بازار گرم ہوا۔ ملکی وسائل اور سرمایہ پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد دیار غیر میں اثاثہ جات کی خرید شروع ہوئی۔ سرے محل، انگریزی فلیٹس اور مختلف ممالک میں سرمایہ کاری نے غریب و امیر کے درمیان خلیج وسیع کردی۔ ایک طرف حکمران

طبقہ ہر قسم کی عیاشی کو اپنا حق سمجھنے لگا اور دوسری طرف محروم و مقہور طبقہ خودکشیوں میں اپنے لئے عافیت جاننے لگا۔ ان حالات میں کمزور انسانوں کے پاس صرف گورنمنٹ سکولوں کی تعلیم یا پھر مکتب و مسجد کے مدرسوں میں داخلہ کی آپشن بچی۔ قوم مختلف طبقات میں بٹتی چلی گئی۔ اعلیٰ مناصب پر صرف انہی لوگوں کا انتخاب ہوسکتا تھا جو انگریزی اداروں کے تعلیم یافتہ تھے۔ سی ایس پی اور پی سی ایس کے مقابلے کے لئے انگریزی پر عبور ضروری تھا۔ گورنمنٹ سکولوں کے فارغ التحصیل بہت کم تعداد میں مقابلے کے امتحان میں کامیابی حاصل کرپائے اور پھر اسلامی مدرسوں کے طلبہ و طالبات کے لئے کسی اعلیٰ حکومتی عہدے کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ قوم کی علمی و ادبی محاذ پر یہ تقسیم کسی لحاظ سے بھی قابل قبول نہیں تھی۔مگر وقت کے حکمران( تقسیم کرو اور حکومت کرو) کے اصول پر گامزن رہے۔ چونکہ ان کی تجوریاں زر کثیر سے بھری ہوئی تھیں لہٰذا وہ جمہوریت کا را گ الاپ کر اپنے اقتدار کو جائز ثابت کرنے پر تلے رہے۔ آج بھی ملک کا یہ ظالم حکمران طبقہ خطرے کی گھڑی میں ایک ہوجاتا ہے اور جمہوریت بچانے کی رٹ لگاتا ہے۔ غریب حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہے۔ وہ کس طرح معیاری تعلیمی اداروں کا رخ کرے کیونکہ تعلیم ہی واحد وقار انسانیت کا باعث ہے۔ پڑھا لکھا، باشعور طبقہ اپنے حقوق کو حاصل کرسکتا ہے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے دھرنوں نے تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کو اپنے حقوق کا شعور دیا ہے۔ اگر ایک طرف انہیں ملکی سطح پر مہنگائی، بے روزگاری، معاشی نا انصافی کا سامنا ہے تو دوسری طرف کرپٹ اشرافیہ کی لوٹ مار ان کی نگاہوں کے سامنے ہے اب نوجوان انقلاب کی راہ ہموار کرنے کے لئے تگ و تاز کررہے ہیں۔
تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا عجب نہیں ہے کہ یہ چارسو بدل جائے
وہی شراب وہی ہائے وہورہے باقی طریق ساقی و رسم کدو بدل جائے

اپنا تبصرہ لکھیں