خلا ئی تسخیر کے میدان میں گذشتہ سال کئی اہم سنگِ میل حاصل ہوئے، جِن میں چین کا چاند پر اترنے میں کامیاب ہونا اور اس کے ساتھ تیسرا ملک بن کر ابھرنا، بھارت کا مریخ کے مدار کی طرف اپنا مشن روانہ کرنا، اور امریکہ کا ’وائیجر ون‘ انسان کا تیار کردہ پہلی چیز ثابت ہوئی جو نظامِ شمسی سے پرے، بلندی کی دنیا کی طرف روانہ کی گئی۔ اسی طرح تسخیر پلوٹوکےلیےناسا نےسنہ 2006 میں ہورائزن پروب روانہ کیا تھا، جس نے پلوٹو کےقریب پہچنےکے لیے9سال اور 6 ماہ کا عرصہ لیا اور اس دوران اس نے 3 ارب کلومیٹر کا سفر طے کیا ہے جب کہ اس مشن پر بھیجا جانے والا خلائی جہاز اب تک خلا میں بھیجے جانا والا سب سے تیز رفتار جہاز ہے جس کا وزن ایک ہزار پاؤنڈ45میٹر قطر کا یہ سیارچہ تقریباً 7.8 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گزرے گا جو کہ گولی کی رفتار سے لگ بھگ دس گنا زائد ہے۔
ناسا کے مطابق نیو ہوریزنز پلوٹو کے سب سے قریب 14 جولائی کو گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق صبح 11 بج کر 50 منٹ پر پہنچے گا(جس وقت یہ مضمون شائع ہو گا ہورائزن پروب ,پلوٹو کے پاس سےگزر چکا ہو گا ) اور اس وقت اس کی دوری پلوٹو کی سطح سے محض 12500 کلومیٹر ہوگی۔ نیو ہوریزنز کا ہائی ریزولیوشن کیمرہ ’’لوری‘‘ اس فاصلے سے سیارے کی تصاویر کھینچ سکے گا جس کی ریزولیوشن100 میٹر فی پکسل سے بھی اچھی ہے۔امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا سے وابستہ لنڈلے جانسن اورتحقیق کاروںنے بتایا کہ ’’کرہ ارض کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے اورجوں جوں ہورائزن پروب مرحلہ وار پلوٹو کے قریب آتا جا رہا ہے انھوں نے اسےحیران کُن اور مزیدارتجربہ قرار دیا ہے۔
درست کہا شبانہ سمجھ تبھی لگے گی جب اسکی دوسری قسط لگے گی۔ تبصرہ کا شکریہ ہمارے ساتھ رہیں۔