بے زبان

ناروے میں‌پاکستانی کمیونٹی کے نمائندہ دانشور لکھاری اورشاعر ڈاکٹر سید ندیم کےقلم سے نکلی دلچسپ تحریر اردو فلک ڈاٹ‌نیٹ‌کے قارئین کےلیے

تحریر: سید ندیم حسین

  عید قربان پہ ہر سال ہمارے شہر میں جانوروں کی منڈی لگتی ہے۔ لیکن امسال بلدیہ نے فیصلہ کیا کہ منڈی شہر سے باہر لگائی جائے گی۔ چنانچہ شہر سےباہر ایک کھلے میدان میں قربانی کے جانوروں کے لیئے منڈی لگا دی گئی۔ ہم نے بھی ارادہ کیا ۔ کہ قربانی کے لیئے ایک اچھا سا بکرا خرید ا جائے۔ قُربانی سے ہٹ کر دیکھا جائے تو آجکل ہمارے ہاں  گھوڑوں کاکاروبار عروج پہ ہے۔ سُنا ہے وفاقی دالحکومت میں گھوڑوں کی ایک بہت بڑی منڈی لگتی ہے۔ جہاں بڑی بڑی اعلیٰ نسل کے گھوڑے بیچے جاتے ہیں۔  کبھی موقع ملا تو یہ منڈی بھی دیکھیں گے۔ فی الحال ذکر ہو رہا تھا ہمارے شہر کی بکر منڈی کا ۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ قربانی منڈی کا تو بے جا نہ ہو گا۔   ہم ایک رکشے میں بیٹھ کر منڈی گئے۔ تو وہاں ہر طرف  انواع و اقسام کے رنگ برنگ جانور نظر آئے۔  وہاں دُنبے بھی تھے۔ بھیڑیں بھی ، بکرے اور بکریاں بھی۔ موٹے تازے بیل اور گائیں بھی۔ ایک قطار اونٹوں کی بھی تھی۔  الغرض وہاں بہت سے جانور تھے۔ ہم بھی ایک ایک کر کے مختلف جانور دیکھ رہے تھے۔ کہ بھیڑوں کے ایک ریوڑ کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک دوست نے پوچھا کیا ڈھونڈ رہے ہو۔ میں نے مذاقاًً کہا کالی بھیڑیں۔ میرا اتنا کہنا تھا کہ ایک سُفید رنگ کی بھیڑ اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھول کے مجھے گھورنے لگی۔ مجھے لگا جیسے یہ ایک ذُومبی بھیڑ تھی اور مجھ پہ حملہ کرنے والی تھی۔  چند لمحوں بعد اس نے واقعی مجھ پہ حملہ کر دیا۔  میں وہاں سے بھاگا لیکن پھسلن ہونے کی وجہ سے گر گیا۔ وہ بھیڑ تو خدا کا عذاب بن کے نازل ہوئی۔ وہ مجھے قہر آلود نظروں سےدیکھ رہی تھی اوراس کے نتھنوں سے سانس یوں آ رہی تھی۔ جیسے سپین میں دوڑ والے بھینسے ہوتے ہیں۔  اُس نے اپنے اگلے دونوں پاؤں میرے سینے پہ گاڑ دیئے۔   میں بڑبڑایا کہ تمھیں خُدا کا کوئی خوف نہیں ۔ کہ ایک نیچے پڑے آدمی پہ یوں تشدد کر رہی ہو۔ اُس نے پاؤں میں میرے سینے پہ مارا اور بولی تُم لوگوں کو ہم پہ  رحم نہیں آتا جب ہماری گردنوں پہ چُھری چلاتے ہو؟ اور بعض اوقات تو ہمارے بچے بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن تمھیں کیا تم تو اپنے ہی ہم نسلوں کو ذبح کردیتے ہو اور تُمھیں پچھتاوا بھی نہیں ہوتا۔ انھیں بم مارتے ہو۔ گولیوں سے بھُون دیتے ہو۔ اُس وقت تمھیں خدا کا خوف نہیں آتا ؟ اس وقت رحم نہیں آتا؟ اور پھر تمھارے بہت سے ہم نسل بھی معاشرے میں نیچے پڑے ہوتے ہیں۔ کبھی ترس آیا اُن پہ ؟ اب خود تکلیف ہوئی ہے تو چخ چخ شروع کر دی ہے۔ ہلاکو خان کی رشتہ دار اس بھیڑ کو کوئی ترس نہیں آیا اور اس نے پھر پاؤں میرے سینے پہ مارا۔ میں نے تکلیف کے مارے پھر آہ کی۔ میری آہ کو سنی ان سنی کرتے ہوئےوہ پوچھنے لگی۔ یہ کالی بھیڑ کیا ہوتی ہے۔ ؟ میرے جواب دینے سے پہلے ہی وہ خود بول پڑی۔ یہ تم لوگ ہر محاورہ ہمارے نام کا ہی کیوں بناتے ہو۔؟ کبھی کہتے ہو بھیڑ چال، کبھی کالی بھیڑ،  اور پھر بُزدل ۔ اور اگر تممارے ہاں کسی کا نام ہمارے نام سے ملتا جُلتا ہو تو تم اس کا مذاق اُڑاتے ہو۔  ہم لوگوں نے تمھارا کیا بگاڑا ہے؟  ھٹلر کی خالہ اس بھیڑ کو کیا معلوم کہ ضروری تو نہیں کسی نے لازمی کچھ منفی کیا ہی ہو تو اس کے بارے منفی مشہور کیا جائے۔ آخر بھیڑ ہی تھی نا۔ وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ چیزیں ویسی ہی ہوتی ہیں جیسی دکھائی دیتی ہیں۔  وہ پھر بولی جواب کیوں نہیں دیتے تم لوگ ہر منفی بات کو ہم بھیڑوں سے ہی کیوں منسوب کرتے ہو۔  کیا تھاری طرح ہم  اپنے ہم نسلوں پہ ظُلم کرتے ہیں ؟ کیا ہم نے کسی کو اسلحے سے مارا ؟ کیا ہم جعلی دوائیاں فروخت کرتے ہیں؟ کیا ہم دودھ میں ملاوٹ کرتے ہیں۔ ؟ کیا کھانے پینے کی ہر شے میں ملاوٹ کر کے دوسروں کی موت کا باعث بنتے ہیں۔؟ کیا ہم دوسروں کے حقوق  غصب کرتے ہیں۔ ؟ کیا  دھوکہ دہی، معاشرتی تفریق اور ہر طرح کی قتل وغارت ہم کرتے ہیں۔؟

تم یہ سارے کالے کرتوت کر کے بھی اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سمجھتے ہو۔  اور پھر کالا ہمیں کہتے ہو۔ اس نے میرے سینے پہ پھر پاؤں مارا اور کہا  « کالے انسان»  کالی  بھیڑ نہیں ہوتی کالے انسان ہوتے ہیں۔ وہ میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بولی ہمارے ہاں جو اس طرح کےکرتوت کرے اسے ہم کالا انسان کہتے ہیں۔ تم لوگ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی  یہ کالے کرتوت کرتے ہو اور اسے بھیڑ چال کا نام دے کے بدنام بھی ہمیں کرتے ہو۔

خوف کی وجہ سے میں کچھ بھی نہیں کر پا رہا تھا۔ مجھے بار بار لگتا تھا کہ یہ ذومبی ہے اور اب یہ میرا خون پینا شروع کر دے گی۔ میں ہاتھ پاؤں بھی نہیں  مار پا رہا تھا۔ تو ظاہر ہے۔ جب آدمی نیچے بھی گرا ہو اور ہاتھ پاؤں بھی نہ مارے تو پھر ذومبیاں خون چوس جایا کرتی ہیں۔  لیکن خوش قسمتی سے یہ ذومبی نہیں تھی۔ بلکہ ایک اصلی بھیڑ تھی۔ میں تکلیف سے کراہتا اور خوفزدہ ہو کے بھیڑ کی باتیں سُنتا رہا۔ اتنے میں تیز بارش شروع ہو گئی۔ تو ہٹلر کی یہ خالہ اپنا شکنجہ چھوڑ کے بھاگ گئی۔  یوں میری اس ناگہانی آفت سے جان چھوٹی ۔  اور میری سانسیں بحال ہوئیں۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ بھیڑوں کو بولنا نہیں آتا۔ لیکن یہ بھول گیا تھا۔ کہ نا حق ظلم کریں تو پھر بے زبان بھیڑیں بھی بول پڑتی ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں