بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے

دوران تعلیم اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ 6 سال کا وقت گزارا۔
مشرف دور میں جمعیت کو تعلیمی اداروں سے نکالنے کی ایک سرکاری مہم چلی اور جمعیت کا رکن ہونے کی پاداش میں مجھے FC کالج سے نکال دیا گیا۔
عدالت میں کیس کیا تو کالج انتظامیہ نے “معتبر عدلیہ” کو بتایا کہ یہ لڑکے کالج میں دوسرے لڑکوں کو جہاد کشمیر پر ابھارنے کے “سنگین گناہ” میں ملوث ہیں۔ ہم نے معزز جج صاحب کو لاکھ سمجھایا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اس کی آزادی کا نعرہ لگانے کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم نے لوگوں کو جہاد پر ابھارا ہے۔ مگر عدلیہ نے ایک نہ سنی اور کالج سے اخراج ہمارا مقدر ٹھہرا۔ اس پر ظلم یہ ہوا کہ میرے ایک قریبی دوست جس کا جمعیت سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ اس کو ہر وقت میرے ساتھ کالج میں نظر آنے کے گناہ میں جمعیت کا سمجھتے ہوئے نکال دیا گیا۔

کالج سے نکال دیئے جانے پر اس کلاس فیلو اور دوست کے والد محترم، جن کی نظر میں بھٹو ابھی زندہ تھا، نے ہمیں خوب برا بھلا کہا اور فرمایا:
کہ یہ کشمیر والا چورن بیچنا اب بند کر دو۔ جمعیت اور جماعت اسلامی والوں نے لوگوں کے بچے مروائے کشمیر میں اور کشمیر آزاد نہیں ہوا۔ اپنے بچے امریکہ میں ہوتے ہیں انکے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ جماعت اسلامی ہمیشہ نان ایشو پر شور مچاتی ہے ہر الیکشن ہارتی ہے مگر پھر بھی باز نہیں آتی۔ یہ سارا ڈرامہ ڈالر اکٹھے کرنے کا بہانہ ہے ورنہ انکی بیرونی ایڈ بند ہو جائے گی۔ یہ ہارے ہوئے چند اسلامی فوبیا زدہ لوگوں کی جماعت ہے ان سے اپنا ملک سمبھالا نہیں جاتا اور ساری دنیا کے مسلمانوں کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں

خیر انکل نے اس دن خوب عزت کی۔ وقت چلتا رہا اور میرا کلاس فیلو انجینئر بن گیا۔ بیرون ملک سیٹ ہو گیا۔ مجھے اللہ نے PHD کا موقع دیا۔ شادی بیاہ بچے اور روزگار۔۔۔ اس بات کو 18 برس بیت گئے۔

پرسوں ہم دونوں دوست اکٹھے ہوئے اور میں نے اس کو وہ عزت افزائی کا دن یاد کروایا اور پوچھا کہ کیا خیال ہے۔ جماعت اسلامی نے تو اب کشمیر کا چورن بیچنا بند کر دیا ہے۔۔۔ پھر ہماری حکومتیں کشمیر کا مسئلہ حل کیوں نہیں کروا سکیں۔ آج سارا دن لاہور کی ضلعی انتظامیہ کشمیر کے جھنڈے کیوں بانٹتی پھر رہی تھی؟۔ یہ وزیراعظم پاکستان اب اس چورن کو کیوں بیچ رہا ہے؟ گورنمنٹ کالج لاہور، نیشنل کالج آف آرٹس اور کئی لاہور کے مادر پدر آزاد کالجوں کی دیوار پر کشمیر کے جھنڈے کیوں لگے ہیں؟ جس گناہ پر ہمیں کالج سے نکالا گیا تھا اس گناہ میں یہ ساری قوم ملوث کیوں ہے؟

تو اس نے ایک لمبا سانس لیا اور مسکراتے ہوئے کہا’
“جمعیت اور جماعت اسلامی الیکشن ہار کر بھی آج جیت گئی۔ جو انکا موقف تھا آج وہ اس قوم کا موقف ہے اور اسکے بغیر اب گزارا بھی نہیں”
تحریر.. ڈاکٹر فاروق بٹ۔ انتخاب۔ اظہر اقبال حسن ۔

اپنا تبصرہ لکھیں