بھوت کارندے

اپہلا حصة

پنی زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات اللہ کو حاضر ناظر جان کر پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ پہلے اپنا ہلکا سا تعارف اپنی ۱۹۶۰ء کی خودنوشت ڈائری سے کرا دوں جو اتفاق سے میرے پاس ابھی تک محفوظ ہے۔

من آنم کہ من دانم:
ذات کا آئینہ جب دیکھا تو حیرانی ہوئی
میں نہ تھا گویا کوئی مجھ سا تھا میرے روبرو
’’من آنم کہ من دانم ‘‘ایک فارسی ضرب المثل ہے جس کے معنی ہیں ’’میں جیسا ہوں خود ہی جانتا ہوں۔‘‘ میں کیسا ہوں‘ کیا ہوں‘ اس سلسلے میں اپنی ایک پرانی ڈائری سے اقتباس درج ہے۔

’’انصار عجیب آدمی ہے… سوچ رہا ہوں آج ان حضرت کے متعلق بھی کچھ خامہ فرسائی ہو جائے۔ حضرت خود کو احساس برتری کا شکار بتلاتے اور اپنے آپ کو عقلمند ترین اشخاص میں شمار کرتے ہیں۔ حالانکہ حکیم جالینوس یہ کہہ چکے ’’احمق کی پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ خود کودانا خیال کرتا ہے۔‘‘ میں تو ان کی کمزوریوں سے واقف ہوں۔ لیکن جب کسی کے مقابلے پر آئیں تو ایسا چت گرتے ہیں کہ کپڑے جھاڑنے میں کافی دیر لگتی ہے۔

’’ خود کو بہت معصوم ظاہر کرتے ہیں‘ لیکن ان کی نگاہیں اتنی بے باک ہیں کہ مجھے تنبیہہ کرنی پڑتی ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ واقعی عجیب آدمی ہیں۔ یہ میں ہوں یا انور (بھائی) جو اِن کی کمزوریوں سے واقف ہیں۔ ورنہ لوگ تو انہیں فرشتہ سیرت تصور کرتے ہیں۔ کہتے تو ہیں کہ بااصول ہوں‘ لیکن میرے اور انور کے خیال میں اتنا بے اصولآدمی شاید پیدا ہی نہیں ہوا۔ دوسروں کی برائی کرنے سے نہیں چوکتے پھر بھی اُمید یہی رکھتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے۔ انہی جیسے لوگوں کی اصلاح کے لیے بہادر شاہ ظفر بہت پہلے کہہ چکے ؎

نہ تھی حال کی کچھ ہمیں اپنی خبر‘ رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانئے گا‘ ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی‘ جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا

حضرت دوسروں کو تلقین کرنے کے لیے جعفر برمکیؓ کا قول منظوم کر چکے۔ اللہ تعالیٰ انھیں خود بھی اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے:
کسی نے پوچھا جعفر برمکیؓ سے
کہ عیب ہوتے ہیں کتنے آدمی میں
جواب اس کو دیا حضرت نے فوراً
کہ عیب ہوتے ہیں بے حد ہر کسی میں
مگر انساں کی خوبی ہے اک ایسی
اگر موجود ہو وہ آدمی میں
تو چھپ جاتے ہیں سارے عیب اس کے
نہیں ہوتا وہ رسوا زندگی میں
یہ پوچھا اس نے پھر‘ حضرت بتائیں
وہ خوبی کون سی ہے اور کیا ہے
جواب اس کو دیا تب آپ نے یہ
’’زباں پر قابو‘‘ کا رتبہ بڑا ہے
ویسے ایک اچھا انسان بننے کے بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
فرشتہ سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
دردِ شقیقہ (Migraine)کی تشخیص

مجھے بنکاک پہنچے چند ہی روز ہوئے تھے کہ ایک روز سر میں شدید درد ہوا جو کئی گھنٹے رہا۔ پھر قے پر منتج ہو کے دھیرے دھیرے ختم ہوا۔ دماغی اور جسمانی طور پر مجھے کچھ کمزوری محسوس ہوئی چناںچہ ڈاکٹر کے پاس چلا گیا۔ اس نے میری ساری روداد سنی تو پھر سوال کیا کہ کیا کبھی ایسا درد پہلے بھی ہو چکا ہے؟ سوچنے پہ یاد آیا کہ چار سال قبل بھی اسی طرح کا سردرد ہوا تھا۔ آرام مجھے قے ہونے کے بعد ہی ملا تھا‘ حالانکہ اس روز میں خیالوں سے درد بھگانے کے لیے زبردستی رئیس احمدجعفری کا ضخیم ناول نازلی پڑھتا رہا‘ لیکن جوں جوں میں ناول کے صفحات الٹتا‘ درد بڑھتا رہا‘ درد سے نجات کے بعد میں نے آرام کیا اور اسے وقتی بے اعتدالی سمجھ کر کسی سے اس کا اظہار بھی نہیں کیا اور نہ کسی ڈاکٹر سے مشورہ کیا۔

جب ڈاکٹر کو ہاں میں جواب دیا تو اس نے کہا کہ تم دردِ شقیقہ (Migraine)کا شکار ہو چکے۔ یہ درد اب وقفے وقفے سے تمھیں آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ لیکن گھبرانے یا پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ یہ وقتی اور ذہنی اور جسمانی طور پر بے ضرر ہے۔ جب کبھی سر میں تکلیف محسوس ہو‘ بلاتاخیر درد کی گولی کھا لو۔ پھر یہ درد رک سکتا ہے۔ تاخیر کی صورت میں اپنے پورے وقت کے بعد ہی ختم ہو گا۔ اس مرض کاابھی کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔

مجھے بنکاک میں دوبارہ مرض نے پریشان نہیں کیا۔ لیکن جب واپس کراچی پہنچ گیا تو پہلے لمبے وقفے اور پھر دو تین مہینوں بعد اس درد نے حملہ شروع کر دیا۔ اس درد کی وجہ سے میں خود تو پریشان رہا ہی ساتھ بیوی اور بچوں کو بھی پریشانی میں مبتلا رکھا۔ درد زیادہ ہونے کی صورت کمرے میں پردے کھینچ کر تنہا لیٹ جاتا۔ کسی قسم کی آواز یا شور انتہائی ناگوارہوتا۔ سر دبانا یا چھونا گراں گزرتا۔ البتہ سر کے گرد چادر یا دوپٹہ لپیٹنے سے کسی قدر آرام محسوس کرتا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات سمجھ میں آئی کہ سر میں ذرا بھی بھاری پن محسوس ہو تو دو گولی پیناڈول کھا لو۔ ورنہ ذرا سی تاخیر پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ دردِ شقیقہ کے حملے کا وقفہ بھی بڑھتا گیا۔ شدت میں بھی کمی آتی گئی۔ اب اللہ کے فضل و کرم سے اس مرض سے میری جان چھوٹ چکی۔
بنکاک کی قیامت خیز شب

تھائی لینڈ کے شہر بنکاک میں موسم برسات کا اپنا عجیب لطف ہے۔ کبھی ہلکی ہلکی‘ وقفے وقفے سے بارش ہوتی ہے اور کبھی موسلادھار! لیکن کراچی کی طرح سڑکیں زیرِ آب آنے یا ٹریفک معطل ہونے کی صورت کبھی نظر نہیں آئی۔ ایک شب ہاسٹل میں سارے لڑکے سو چکے تھے۔ اچانک گرج‘ چمک اور لگاتار بجلی گرنے کی تیز آوازوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ یوں محسوس ہوا کہ شاید صور پھونک دیا گیا ہے۔ ہر پاکستانی لڑکا مبہوت اپنے اپنے بستر پر بیٹھ گیا۔ اگر کوئی غسل خانے میں تھا تو اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ کمرے میں بستر پر جا کر لیٹ جائے۔ وہ خوفناک آوازوں اور بجلی و بادلوں کی تیز گَڑگَڑاہٹ سے ششدر ہو کر رہ گیا۔

جاری ہے۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں