بنے مکتب سبهی مقتل .

sadaf colum

کالم نگار
صدف مرزا
ڈنمارک

ڈنمارک میں بچوں کے سکول جانے کی عمر چھ برس ہے.  لیکن والدین کو بہت سے قوانین میں ترامیم کی اجازت بهی ہے.

مثلاً میں نے اپنے بچوں کو پانچ برس کی عمر میں سکول بهیجنے کی اجازت حاصل کر ہی  لی.
اب صورتحال یہ تهی کہ بچے جماعت میں سب سے چهوٹا ہونے کے سبب ان پر نظر زیادہ ہوتی
اور والدین کو میٹنگز پر مسلسل بلایا جاتا
اور ہر پہلو پر توجہ دی جاتی کہ بچے کی سماجی صلاحیتیں کیسی ہیں
وہ سکول آنے جانے کے اوقات.. دوسرے بچوں کے ساتھ رابطہ اور  سکول سے واپسی زمہ داری سے ہو.

سکول کی عمارت ایک محافظ فصیل کی طرح کهڑی ہوتی تهی. صبح  کے وقت جیسے پورا شہر سکول کی جانب رواں دواں ہوتا ہے.
یہاں پر سائکل چلانے کا رواج ہے
جگہ  جگہ بورڈ لگے ہوتے ہیں
“” ڈیوڈ نے ابهی سکول شروع کیا ہے
وہ ٹریفک میں نیا ہے
اس کا خیال کیجیے””

بچے پیدل.. سایکلوں پر اور ماں یا باپ کے ساتھ سکول کو رواں دواں ہوتے ہیں

گاڑیاں سکول کے چوراہے پر احتیاط سے موڑ کاتتی ہیں…
بہت کم رفتار کر کے گزرتی ہیں.

بچے کو سکول کی عمارت میں داخل ہوتا دیکھ کر اطمینان کا ایک احساس دل و دماغ میں جاگ اٹهتا ہے.  بس اب وہ ایک حصار میں داخل ہو گئے…
بس اب ارام سے گهر جا کر کام کریں
یا اگے ملازمتوں پر چل دیں

اب بچے ادارے کی زمہ داری ہیں.
ہم واپسی پر بچے کو لیتے ہوئے گهر آ جائیں گے…

تو میں اپنے سکول جاتے بچے کی ایک یاد کے ساتھ دن گزارتی رہی.

اگست کا مہینہ تها…  اور 
مشکل سے سوا پانچ برس کی عمر تهی اور اس دن میں اسے سکول کی عمارت تک لینے نہیں جا سکی. …
میرے لیے بوجوہ وہاں تک پیدل جانا ممکن نہیں تها.

طے یہ پایا تها کہ وہ سکول سے نکلا کرے گا اور میں گهر کی  عقبی گلی سے اسے دیکھ لوں گی.

ایک دو ہفتے کی بات ہے پهر مسئلہ حل ہو جائے  گا.

دو دن تو ہمارے صاحبزادے دور سے قطبی تارے کی طرح نطر آتے… اور کمر پر بستہ پہنے
ننهے ننهے ہاتھ ہلاتے..
کودتے پهاندتے ..  خاموش بنگلوں کے درمیان بنی کشادہ سڑک پر دورتے چلے آتے.

تیسرے دن میں حسبِ معمول گهر سے نکل کر عقبی گلی میں کهڑی ہوئی
11. 40 پر چهٹی ہوتی تهی ..
ٹهیک 11.50 پر اس کا ننھا وجود گلی کے کونے پر نمودار ہو جاتا…

لیکن
اس دن  11. 50 ہوئے…   چند بچے ننهی سائکلوں پر دور سے اتے دکهائی دئیے….

پهر دو تین بچے اپنی مائوں کے ساتھ نظر آئے…

11. 55
ہو گئے…
12 بج گئے…

میری نطر کلائی کی گهڑی پر تهی…
12.05  ..
اس محلے میں رہنے والے سب بچے گزر چکے تهے…

بے چینی اور گھبراہٹ سے میرا برا حال تها..  اور میں فیصلہ نہیں کر پا رہی تهی کہ اندر جائوں اور سکول کو فون کروں …
یا یہیں کهڑے مزید انتظار کروں

دنیا جہان کے ممکنہ خدشات ، اوہام و وساوس میرے زہن میں جهماکے کرنے لگے

مجهے جتنی سورتیں اور اوراد و وظائف  یاد تهے میں نے پڑھ دئیے

12. 10 منٹ پر  دور سے  ایک نقطہ نمودار ہوا…
زرا قریب آنے پر  میں نے اسے دیکها
دونوں ہاتھ کمر کی پیچهے کئے سست قدموں سے میری جانب آ رہا تھا…

میری جان میں جان آئی.  وہیں کهڑے اسے دیکهتی رہی…
نیکر سے جهانکتی
ننهی ننهی پتلی ٹانگیں….
سفید جرابیں اور کالے جوتے …
چهوٹے چهوٹے  قدموں سے وہ میرے قریب آیا….

امی…..  یہ دیکهیں میں اپ کے لیے کیا لایا ہوں …
اس کی چمکیلی انکهوں میں جیسے ستارے بهرے تهے…

اس نے پشت پر چهپائے دونوں ہاتھ آگے کیے… 

اس کے ہاتهوں میں چهوٹے چهوٹے  سفید اور پیلے پهولوں کا گلدستہ تها.

“”  امی   راستے میں بہت سے پهولوں کی کیاریاں تهیں. میں آپ کے لیے پهول چن رہا  تها….  آپ اپنے بالوں میں لگائیں گی نا “”
امی امی اپ رو کیوں رہی ہیں
اس نے میری مجنونانہ گرفت سے نکلنے کی کوشش کی….

وہیں کهڑے کهڑے میں نے اس ہاتهوں  پر چہرے پر پیار کیا
اپ کس سے پوچھ کر راستے میں رکے تهے
اپ کو نہیں پتا تها کہ امی وہاں چل کر نہیں آ سکتیں …  اور بہت پریشان ہوں گی.

سوری امی..  وہ واقعی پریشان ہو گیا… 
ائندہ نہیں کروں گا..
آپ کو پهول اچهے لگے ہیں نا..    تو میں وہاں بیٹھ کر توڑنے لگا…
سوری پیاری امی..

آئندہ نہیں کروں گا….

اج بهی مجهے اپنی زندگی کے وہ بیس منٹ اور ان کا تصور ہراساں کر دیتا ہے اور یہ واقعہ ہمیشہ ہماری زندگی میں شامل رہا.  بچوں نے بهی سیکها کہ تاخیر کرنا اور رابطہ نہ رکهنا ماں کے لیے کیسی ناقابلِ برداشت اذیت ہے.

لیکن  

آج پاکستان میں بے قرار مامتا کو گلیوں سڑکوں میں  پاگلوں کی طرح بهاگتے ریکها….
باپوں کے کاندهے پر لہولہان مستقبل کے خواب ….

معصوم بچوں کے جنازے. ..
میرے خدایا…    
اور تو خاموشی سے سب دیکهتا رہتا ہے….

بیس منٹوں کی ناقابلِ بیان ازیت  مجهے پوچهتی ہے کہ عمر بهر  غم کے تازیانے کهانے کے لیے ان مائوں کے پاس حوصلہ کہاں سے آئے گا.

اگرچہ میں ٹیلی ویژن پر یہ بهیانک مناظر نہیں دیکهتی. ..  لیکن انٹر نیٹ پر چیختی دهاڑتی خبریں تعاقب کرتی ا ہی جاتی ہیں .

سی این این کی رپورٹ کے مطابق  ارمی پبلک سکول اور جونیئر کالج  میں اچانک 
“” مجاہدوں””   کے نعرے گونجے
“”اللہ اکبر. … اللہُ اکبر””
اور وہ  اس مالک اور خالق کے نام پر معصوم زندگیوں کے چراغ بجهانے لگے.

اللہ اکبر….   اللہ سب سے بڑا ہے…   اللہ سب سے بڑا ہے….
پهر کسی پاکستانی طالبان کی آواز  رہنمسئی کرتی ہے…

میزوں کے نیچے بہت سے بچے چهپے ہیں..   انہیں بهی مار ڈالو….
“”
اللہ اکبر   اللہ اکبر””

وحشی صدائیں اعلائے کلمہ حق کرتی ہیں اور پهر خوفناک دهماکے قیامت صغریٰ برپا  کر دیتے ہیں

قوم کا مستقبل خاک و خون میں غلطاں… 
سوچئے…   ہدف آرمی پبلک سکول ہے 
بنی اسرائیل کی قوم کے بیٹوں کو قتل کرنے کی دہائی مقرس صحیفوں  اور معطر جزدانوں کے سینے چیر کر نکلتی ہے…

یہ ہدف بہت سوچ سمجھ کر منتخب کیا گیا ہے..  اس کشت ہفت رنگ میں قوم نے اپنے خواب بو رکهے تهے.
135 …  
تابناک ابواب..   ان میں سے نجانے کتنے مسیحا و مصلح پیدا ہوتے .
کتنے ملک و قوم کی بجهتی نگاہوں میں نئی بصارت کا نور بن کر نئے مناظر ترتیب دیتے…
لوریاں دینے والی اور دعائیں نچهاور کرنے  والی مائیں اب عمر بهر نیند اور سکون کو ترسیں گی.
قوم صف ماتم لپیٹ دے گی …    دیواروں پر گولیوں کے سوراخ بهر  دئیے جائیں  گے
سکول کے فرش پر سے خون کے دهبے دھل جائیں گے…  
فضائوں سے گولیوں کی تڑا تڑ اور دهماکوں کا شور لہروں کی صورت معدوم ہو جائے گا…

قبرستان میں شہیدوں کی چهوٹی چهوٹی قبروں کی مٹی خشک ہو جائے گی  کیونکہ ان کو تر رکهنے والی مائوں کی آنکهیں
بے نور ہو چکی ہوں گی..
جنونیوں کی نئی فصل تیار ہو جائے گی
اور حکمران اور سیاسی طاقتیں دهرنے دیں گی.

یہ سیاسی منظرنامہ سالہا سال سے ایسے ہی   چلا آ رہا ہے. اس پر سمجهوتے اور صبر و شکر  دتم کی  اس سیاہ رات کی طوالت  میں اضافہ کرے گا.

نظری اختلافات رکهنے والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ سارا داخلی انتشار بهلا کر ملک و قوم کے  تحفظ کو اولیت دیں.

سقوط ڈهاکہ کو رونے والو…  ڈهاکہ کا امن و امان  خاموش پیغام دیتا ہے کہ وہاں مائوں کے آنچلوں میں کوئی انگارے نہیں باندهتا…
وہاں مکتب مقتل نہیں بننتے

نوحے اور مرثیے لکهنے کی بجائے اور اپنی زمہ داریاں دوسروں پر الزامات بنا کر تهوپنے کی بجائے فصیلیں مضبوط کرنے کا وقت ہے
قلعے کے دروازے اندر سے کهولنے والے غداروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے 
ورنہ موت کے کنوئیں پر خونی دائرے کی صورت میں اسلحہ اپنی نمائش کرتا رہے گا..
مائوں کی  گود قبرستان بنتی رہے گی.  

اپنا تبصرہ لکھیں