بنگلا دیش کے مضحکہ خیز انتخابات

شیخ حسینہ کے ۱۰ سالہ دور حکومت میں بنگلا دیش نے زبردست ترقی حاصل کی۔اس دوران غریب ترین ممالک میں شمار ہونے والے بنگلادیش کی فی کس آمدنی میں ۱۵۰؍فیصد اضافہ ہوا، ملک میں انتہائی غریب افراد کی تعداد۱۹ فیصد سے کم ہوکر۹ فیصد رہ گئی،ان ساری اچھی باتوں میں افسوسناک یہ ہے کہ شیخ حسینہ نے آمرانہ ہتھکنڈے استعمال کیے اورحالیہ انتخابات میں پارلیمان کی۳۰۰ میں سے۲۸۸ نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی،ان کی کامیابی کا تناسب۹۶ فیصد بنتا ہے۔۳۰ دسمبر کے انتخابات سے کچھ ہفتوں اور مہینوں قبل انسانی حقوق کی مقامی اور بین اقوامی تنظیموں کی جانب سے مسلسل بنگلا دیشی حکومت کے آمرانہ ہتھکنڈوں کی نشاندہی کی گئی۔ جس میں لوگوں کو دھمکانے کی مہم،حزب اختلاف کے امیدواروں اور مظاہرین کی گرفتاریاں اور تشدد،’’ڈیجیٹل سیکیورٹی لا‘‘ کے نام سے کالے قانون کا نفاذ،جس میں جارحانہ مواد سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے پر قید کی سزا دی جاسکتی ہے،جیسے اقدامات شامل ہیں۔ پرتشدد مہم کے دوران ۱۷؍افراد کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔انسانی حقوق کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں عام آدمی سے لے کر اہم شخصیات تک کو خوفزدہ کرنے کے بارے میں بتایاگیاہے، جس سے بچاؤ کے لیے خوفزدہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن نے کچھ نہیں کیا۔دسمبر میں نیو یارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم شیخ حسینہ نے آمرانہ رویے اور انسانی حقوق پر خدشات کو ہر جگہ غلط انداز میں معاشی ترقی سے ملادیا۔ان کاکہناتھا کہ’’میں لوگوں کو کھانا، نوکری اور صحت کی سہولیات فراہم کرسکتی ہوں اور یہی انسانی حقوق ہیں،مجھے کوئی پریشانی نہیں کہ حزب اختلاف، سول سوسائٹی یا آپ کی غیر سرکاری تنظیمیں کیا کہہ رہی ہیں۔ میں اپنے ملک کو جانتی ہوں، میں جانتی ہوں کہ ملک کو ترقی کیسے دینی ہے‘‘۔ کوئی بھی شیخ حسینہ سے سوال نہیں کرے گاکہ ۱۹۷۱ء میں کون ان کے ملک کو جانتا تھا،ان کے والد شیخ مجیب الرحمٰن بنگلا دیش کے پہلے صدر تھے۔ ۱۹۷۵ء میں جب شیخ مجیب کو قتل کیاگیا تو شیخ حسینہ بیرون ملک تھیں۔۱۹۸۱ء میں واپس آکر شیخ حسینہ نے عوامی لیگ کی قیادت سنبھالی، جب سے وہ پارٹی کی مسلسل سربراہ ہیں۔ عوامی لیگ اور خالدہ ضیا کی سربراہی میں بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی باری باری اقتدار میں آتے جاتے رہے۔۲۰۱۴ء میں اپوزیشن جماعتوں نے انتخابی طریقہ کار میں تبدیلی پر انتخاب کابائیکاٹ کردیا،جس کے وجہ سے حسینہ واجد کوبلامقابلہ اگلے پانچ برس کے لیے حکومت مل گئی۔ گزشتہ برس خالدہ ضیا کو بدعنوانی کے الزام میں جیل بھیج دیاگیا،جب کہ حسینہ واجد ایک مرتبہ پھر وزیراعظم بن گئیں۔حسینہ واجد نے موثر انداز میں ملک میں ایک جماعتی نظام نافذ کردیا ہے اور وہ اپنا اقتدار مزید مضبوط کرنے کی تیاریوں میں ہیں۔انتخابی نتائج کوآخر کیوں متنازعہ بنایاگیا جب کہ رائے عامہ کے جائزے بتارہے تھے کہ منصفانہ انتخابات کی صورت میں بھی حسینہ واجد باآسانی جیت جائیں گی۔ آمرانہ ہتھکنڈے اور ظالمانہ اقدامات حسینہ واجد کی ہر کامیابی کو تباہ کردیں گے۔وزیراعظم کے ناقدین ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں یا پھر زیر زمین چلے گئے ہیں، ان کے لیے حالات مزید سخت ہوں گے۔اس صورتحال پر حسینہ واجد کے بیرون ملک حمایتی بھی پریشان ہیں۔امریکا بنگلا دیش میں سب سے بڑا سرمایہ دار ہے اور بنگلا دیشی مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار بھی۔اس کے باوجود امریکی وزارت خارجہ نے سوائے انتخابی مہم کے دوران دھمکی اور تشدد کی مصدقہ اطلاعات پر خدشات کا اظہار کرنے اور الیکشن کمیشن سے تمام شکایات کے ازالے کا مطالبہ کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔اسی طرح یورپی یونین نے بھی بنگلا دیش سے تشدد اور انتخابی عمل میں رکاوٹ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔شیخ حسینہ کے ذاتی اور سیاسی المیے کے پیش نظر ان کے آمرانہ رویے کو ترک کرنے کا کوئی امکان نہیں،لیکن بنگلا دیش کے اتحادی ممالک اور غربت میں کمی پر خوشی کااظہار کرنے والوں کو یادرکھنا چاہیے کہ انسانی حقوق کا تحفظ کسی ملک کی ثقافت کا جز یا اندرونی معاملہ نہیں ہوتے، بلکہ یہ تو ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے اہم ترین ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں