بنا محنت دعا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں

afkare tazaکراچی میں سخت گرمی کے موسم میں پانی کے شدید بحران کو حل کرنے کے لیے حکومت وقت نے بہت آسان حل تلاش کرتے ہوئے سندھ اسمبلی میں دعائیں کیں۔ اس پر مجھے ظفراللہ جمالی یاد آگئے جب وہ وزیراعظم تھے تو کسی نے اُس سے سوال کیاکہ ملک میں بدعنوانی بہت بڑھ گئی اور اس کرپشن کو روکنے کے لیے آپ کی حکومت کیا اقدامات کررہی ہے تو انہوں جواب دیا کہ کرپشن تو اللہ تعالیٰ ہی ختم کرسکتا ہے لہذا دعا کریں کہ خدا کرپشن کو ختم کردے۔ کیا خوب انداز حکومت ہے اور کیا اچھا طریق ہے کہ اپنی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر ڈال دی جائے اور یہی کیا سندھ حکومت نے ۔ پانی کے بحران میں بند انتظامی، منصوبہ بندی، ٹینکر مافیا کی کارستانیوں اور اس میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے دعائوں سے کام چلانے کا آسان نسخہ استعمال کیا۔عوام کے سامنے اپنی گلوخلاصی کراتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ ہم نے تو اسمبلی میں دعا کروا دی ہے اب یہ اللہ قبول کرلے گا تومسئلہ حل ہوجائے گا۔ اس آسان نسخہ سے ملک کے تمام مسائل بڑی آسانی سے حل کیے جاسکتے ہیںچاہے دہشت گردی کا مسئلہ ہو یا بے روزگاری کا۔ ملک سے جہالت دور کرنی ہو یا پولیو کا خاتمہ، سب کے لیے یہ نسخہ کار آمد ہے اور اسمبلی کا کام بھی آسان ہوجائے کہ قانون سازی کی بجائے دہاں دعائیں کی جائیں اور بعد میں اسمبلی سالانہ کارکردگی رپورٹ شائع کی جائے کہ انہوں نے کتنی دعائیں کی ہیں۔ قوم کے ٹیکسوں پر عیاشی کرنے والے جن اراکین اسمبلی نے پانی کے بحران کے لیے دعائوں کا راستہ اپنایا ہے انہیں عوام کی مشکلات کا کیا علم ہو۔ اگر ان کی خواتین اور بچے بھی ہاتھ میں برتن پکڑے پانی کی بوند بوند کے لیے تگ و دو کررہے ہوں تو پھر انہیں علم ہوجائے گا کہ دعا کی ضرورت ہے یا دوا۔

ہم جن بہت سی اسلامی تعلیمات کی غلط تعبیر و تشریح کرکے اپنی مرضی کا عمل کرتے دعا بھی انہی میں سے ایک ہے۔ دعا کا معنی مانگنا نہیں بلکہ پکارنا ہے اور قرآن حکیم میں ہے کہ جب بھی کوئی اللہ کو پکارتا ہے یعنی دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کی پکار کا جواب دیتا ہے۔قابل غور ہے کہ خدا کی طرف سے ہماری پکار کا جواب دینا کیاہے اور کیا کبھی کسی نے پکار کا جواب سُنا۔ اس کی وضاحت بھی کتاب عظیم میں کردی کہ جب کوئی دعا کرتا ہے یعنی پکارتا ہے تو اس کا جواب قرآن حکیم میں رہنمائی کی صورت میں موجود ہے۔ انسان جو رہنمائی اور مدد طلب کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے نام اپنے آخری پیغام میں دے دی ہے ۔ یہ ہے پکار کا جواب۔ ساتھ ہی یہ اصول بھی دے دیا کہ انسان کووہی کچھ ملے گا جس کی وہ کوشش کرے گا۔ وہ انسان شنتا رام ہو، محمد دین یا ڈیوڈ ، اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا مگر عمل کسی کا بھی رائیگاں نہیں جائے گا۔ وہ قوانین و ضوابط اٹل ہیں، ان میں کوئی تبدیلی ممکن نہیںاور انہیں سنت اللہ قرار دے کر واضح کردیا کہ تمہاری آرزو، پکار یا دعا وہی قبول ہوگی جو اُن قوانین کے مطابق ہوگی اور جو اُن قوانین سے متصادم ہوگی اس کی قبولیت بھی ممکن نہیں ۔ خالق کائنات نے کشش ثقل کا قانون بنایا ہے جس کی رو سے زمین ہر چیز کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور زمین کی اس کشش سے نکلنے کے لیے اس سے زیادہ قوت درکار ہوگی۔ یہ ایک اٹل اور غیر متبدل قانون ہے۔ اب اس قانون کے برعکس اگر ایک گیند کو ہوا میں اچھال دیں اور پوری دنیا کے مسلمان دعا کرنا شروع کردیں کہ یا اللہ یہ نیچے نہ آئے لیکن گیند نیچے ضرور آئے گا۔اسی طرح اگر شنتا رام زراعت کے جدید اصولوں کو مدنظر رکھ ااچھے بیج، کھاد اور بروقت پانی کا استعمال کرتا تو وہ اچھی فصل برداشت کرے گا جبکہ محمد دین یہ سب نہیں کرتا تو محض دعائوں سے اچھی فصل کا حق دار نہیں ہوگا۔ بچپن میں ایک لطیفہ سنتے تھے کہ ایک طالب علم دعا کررہا ہوتا ہے کہ یا اللہ لاہور کو پاکستان کا دارالحکومت بنا دے۔ اُس کا باپ سُن کر پوچھتا ہے کہ یہ دعا کیوں کررہے ہو تو بیٹا جواب میں کہتا ہے کہ وہ امتحان میں لاہور کو پاکستان کا دارالحکومت لکھ آیا ہے۔ ایسی دعائیں کب پوری ہوسکتی ہیں۔
ہم نے قرآن حکیم کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ سے دعا کا درست سمجھا ہی نہیں۔ غزوہ بدر اور دیگر غزوات کو ہی لیں، آپۖ نے اپنی پوری تیاری اور حکمت عملی کے بعد دعا کی، یہ نہیں مدینہ میں بیٹھ کر دعا کرتے رہے کہ یااللہ کفار کو نیست و نابود کردے۔ رسول پاکۖ کی خدمت میں جب ایک شخص بھیک مانگنے آیا تو آپۖ نے اپنے دست مبارک سے اسے کلہاڑا تیار کرکے دیا اور کہا کہ جائو لکڑیاں کاٹو اور اپنا گذارا کرو۔ آپۖ نے اُسے عمل کا درس دیا نہ کہ عملیات کا۔ دعا کی اہمیت مسلمہ ہے اور کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ دعا کی ہی نہ جائے بلکہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پہلے اپنی پوری کوشش اور جدوجہد کرکے ر پھراور دعاکی جائے اور اُس دعا سے نفسیاتی طور پر مزید جذبہ محرکہ اور عمل کی قوت ملے گی جو راستے کی مشکلات کو آسان کردے گی۔ دعا کرتے وقت اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کو مدنظر رکھنا اشد ضروری ہے۔ دعا اللہ اور بندے کے مابین تعلق کو مضبوط کرتی ہے۔
حضرت عمر جب خلیفہ بنے تو آپ نے لوگوں سے کہا کہ میری یہ کوشش ہوگی کہ تمہاری د عائوں کو اللہ تک نہ پہنچنے دوں۔ کسی کہا یہ آپ نے کیا کہا۔ تو جواب دیا کہ تم دعا اُسی وقت کرو گے جب تمہیں مشکلات پیش آئیں گی اور یہ درحقیقت خدا کے حضور میری شکائیت ہوگی اس لیے یری کوشش ہوگی کہ تمہیں دعا کرنے کی ضرورت ہی پیش آئے اس طرح میں تمہاری دعائوں کو آگے جانے نہیں دوں گا۔ پاکستان میں ہر کوئی ہمہ وقت دعا کررہا ہوتا ہے کہ یاللہ بجلی آجائے، یاللہ گیس آجائے، یا اللہ پانی آجائے، ہاسپٹیل سے دوا مل جائے، فلاں شخص دفتر میں مل جائے، فلاں کام ہوجائے لیکن ترقی یافتہ ممالک کے عوام کو اس طرح دعائیں نہیں کرنا پڑتی کیونکہ وہاں کی حکومتیں حکمت فاروقی پر کابند ہیں اور عوام کے مسائل حال کرتی ہیں نہ اسمبلیوں میں دعائیں۔ حکمرانوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے کہ عوام نے انہیں کس لیے منتخب کیا ہے۔ عوام پانی کی ایک ایک بوند کو ترسییں اور حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں میں مگن رہے۔ کیا یہ کسی المیے سے کم ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کے باشندے پینے کے پانی کے لیے خوار ہوررہے ہیں۔ بڑے بڑے بیانات اور عمارتیں کھڑے کرنے سے خوشحالی نہیں آتی بلکہ عوام کی بنیادی ضروریات ان کی دہلیز پر پہنچانے سے ہی ایک پرسکون معاشرہ اور خوشحال مملکت وجود میں آتی ہے۔ عوام کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ آخر کب تک وہ اپنا استحصال کرواتے رہیں گے اور کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

بنا محنت دعا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں