بلاعنوان

بلاعنوان

بلاعنوان

از: ابونبیل

See full size image

مستقبل کو محفوظ بنانا کتنا مشکل ہے۔ تم اگر ساتھ نہ دیتیں تو ہماری معاشی حالت بھی ہینڈ ٹو ماوتھ ہوکر رہجاتی۔زندگی کے پینتیس سال شاپ کیپر کے طور گلف میں گزارے۔شادی کے وقت میں پچیس اور تم اکیس برس کی تھیں۔بڑا صبر کیا تم نے میرے ساتھ۔  پہلے ہی سال نورہ پیدا ہوئی  پھر حمدان پھرسلمان پھرسلمہ پھر رضوان پھر صفا اور مروہ میرے آنگن کو تم نے اِن گلابوں سے بھر دیا۔کتنی محنت کی تم نے ان کی تعلیم و تربیت پر۔ بچت کرکرکے  یہ جو پلاٹ خریدا تھا پتہ ہے اس  کی آج مارکٹ والیو کیا ہے؟  دوسو گنا بڑھ چکی ہے تب ہی تو آدھی زمین بیچ کر یہ ڈوپلکس  بنگلہ تعمیر ہوا ہے۔ نورہ  اور سلمہ کی شادیاں کتنی دھوم دھام سے ہوئیں۔ حمدان اور سلمان انجینیر بن گئے۔ رضوان کا ایم بی اے کا آخری سال ہے ۔ صفا اور مروہ بھی گراجوئیٹ ہو جائینگی اور اس سال دونوں کی شادیاں  بھی ایکساتھ انجام پائینگی  لڑکوں کا کیا ہے وہ اپنے پیروں پر خودکھڑے ہوجائینگے ۔ اب کسی  بات کی فکر نہیں ہے مین روڈ پر جو دکانیں ہیں ان کا کرایہ عیش  و اآرام سے جینے کے لیے کافی ہے۔اب   باقی عمر ہم ساتھ رہینگے اور ساتھ جئینگے ۔ حنیف  کوٹی کسی قدر رومانٹک بنتے ہوئیبڑے ناز سے اپنی بیوی فاطمہ کو دیکھا۔ چلو ہماری ساری زندگی کی تگ و دو کا حاصل اپنے اس بنگلے کا باہر سے نظارہ کرتے ہیں سارے روشنیاں جلاکر۔ حنیف  کوٹی نے فرحت وانبساط سے مغلوب ہوکر کہا۔
لیکن فاطمہ کے چہرے پر دنیا جہاں کی محرمیاں سمٹ آئیں۔  ہاں ہماری شادی کوتیس برس ہوچکے لیکن  حق زوجیت کے طور آپ نے مجھے صرف ڈھائی سال دیے ہر سال صرف ایک ماہ کی چھٹی میرے ساتھ گزاری۔ تمھاری قربت کی شدید تمنا دل میں لییتمھارا انتظار کرتی رہی۔ازدواجی زندگی کے فلسفہ کو سمجھنے میں عمرہی بیت گئی۔   انمول جوانی کے کھنڈر پر کھڑے  اس عالی شان بنگلہ کے نظارہ کا اب لطف ہی کیا ہے۔تم تنہازندگی بتانیکے عادی ہوچکے ہو مجھے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ میں اب بس ایک ماہ کی مہمان ہوں۔میرے مجازی خدا کو میں نے اپنی زندگی تج دی۔  فاطمہ کے دل میں غم کا سمندر ٹھاٹیں مار رہا تھا لیکن آنکھیں خشک دریا کی طرح بہنے سے بھی خاصر تھیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں