بزمِ اردو قطر کا ماہِ ستمبر کا طرحی مشاعرہ

رپورٹ: محمد طاہر جمیل۔ میڈیا سیکریٹری بزمِ اردو قطر

قطر کی اولین ادبی تنظیم بزمِ اردو کے زیرِ ااہتمام ماہانہ طرحی مشاعرہ ستمبر ٢٠١٤ ہفتہ ٢٧ ستمبر کی شام ابنِ حجر لائبریری بن عمران میں منعقد ہوا۔ تقریب کی ابتدائی نظامت انڈین اسکول کے استاد اور معروف شاعر اطہر اعظمی صدیقی نے بہت ہی شاندار انداز سے کی انہوں نے نہایت باوقار اور دلکش طر یقے سے تقریب کے صدر جناب خالد داد خان صدر انجمنِ محبانِ اردو ہند ، مہمانِ خصوصی قطر کے معروف شاعر شو کت علی ناز اور مہمان، اعزازی مولانا عبد الغفار صاحب کی غیر مو جودگی میں حبیب النبی صاحب جو بزم کے نائب سر پر ستِ اعلیٰ بھی ہیں، کو اسٹیج کی رونق بخشنے کیلئے درخواست کی ،اسٹیج اور ہال میں تمام مہمانوں کے کرسی نشیں ہونے کے بعد تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام، پاک سے ہوا جسکی سعادت مبارک حسین حافظ نے حاصل کی ۔ مقصود سلطان پوری نے بیعد خوبصورت نعتِ رسول مقبول ۖ پیش کی، اطہر اعظمی نے ایک منجھے ہوئے ناظم کی طرح ابتدائی نظامت کے فرائض انجام دئے بزم کے صدر سید فہیم الدین نے خطبہء استقبالیہ پیش کیا ۔ جسکے بعد مشاعرہ کا مرحلہ تھا جس کی نظامت کی ذمہ داری قطر کے نو آموز شاعر طا ہر جمیل کو سونپی گئی جو انکے لئے ایک نیا تجربہ تھا جسے انہوں نے خوش اسلوبی سے نبھانے کی کوشش کی ، وہ اپنی اس کو شش میں کس حد تک کامیاب ہوئے اس کا اندازہ مہمانانِ گرامیِ قدر کے خیالات، قطر کے منجھے ہوئے سینئر شعراء کرام اور سامعین ِ مجلس کے تبصروں سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے جنہوں نے اس نظامت کو روایت سے ہٹ کر خوبصورت انداز میں کرنے کو پسند کیا اور سراہا۔ نظامت میں جہاں کہیں کوئی کمزوریاں تھیں اسکی نشاندئی کچھ لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں کئیں ۔ ناظم مشاعرہ نے پہلی بار کسی مشاعرہ کی نظامت کی تھی ا ور پہلی بار غلطیوں کا سرزد ہو جانا کوئینئی بات نہیں ، ایسا ہو جاتا ہے اپنے اوپر تنقید کو بہر حال مثبت انداز میں لیا گیا جو اچھی بات ہے۔ آج کے طرحی مشاعرہ کا مصرح طرح ” آپ کے لطف و کرم کا مجھے انکار نہیں ” ، علامہ شبلی نعمانی کی مشہور غزل جو انہوں نے حضرت اکبر الہ آبادی کی دعوت میں شرکت نہ کرنے کے جواب میں ان کو ارسال کی تھی سے لیا گیا تھا۔ بہت ہی مختصر نوٹس پر اس تقریب کے انعقاد کے باوجود یہ ایک کامیاب مشاعرہ تھا جس میں ١٦ مقامی شعرائِ کرام نے اپنا طرحی اور غیر طرحی کلام پیش کیا اور ای میل سے ٣ غزلیں موصول ہوئیں۔ اس تقریب میںسامعین کی ایک بڑی تعدا د نے شرکت کی۔ جب تمام شعراء اپنا کلام سنا چکے تو مہمانِ اعزازی جناب حبیب النبی نے اپنے خیالات پیش کئے اور مشا عرہ کی نظامت کے نئے اندا ز کو پسند کیااور امید ظاہر کی کہ اس میں مزید بہتری ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ میدان ملنے سے ہی آدمی اپنی صلاحیت دکھاتا ہے اور بتدریج ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے انہوں نے بزمِ اردو کو کامیاب مشاعرہ کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی اور اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ اُنکے بعد مہمانِ خصوصی شوکت علی ناز نے اپنے خیالات کا اظہار کیا خصو صاًاطہر اعظمی کی ابتدائی نظامت کو پسند کیا ، مشاعرہ کو کامیاب قرار دیا اور ناظمِ مشاعرہ پر تنقید بھی کی جسے سامعین نے پسند نہیں کیا۔ آج کے مشاعرہ کے صدر بہت ہی محترم اور ہر دلعزیز شخصیت جناب خالد داد خان ، صدر انجمنِ محبانِ اردو ہند۔ قطر کو
اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی گئی، جنہوں نے اپنے مختصر خطاب میں بزم کے چئیرمین امجد علی سرور کا شکریہ ادا کیا اور تمام شعراء کے کلام پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیااو ر کامیاب مشا عرہ پر مبارکباد پیش کئیں ۔ بزم، اردو قطر کے چئیرمین امجد علی سرور نے اسٹیج پہ موجود صدر مشاعرہ ، مہمان ِخصوصی ، مہمان، اعزازی، نا ظم تقریب، ناظم مشاعرہ، منتظمیں ابنِحجر لائبریری اور سامعین ِ کرام کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ہفتہ کا دن ہونے کے باوجود کہ کل ورکنگ ڈیہے بڑی تعداد میں شرکت کرکے اس مشاعرہ کو کامیاب بنایا ، انہوں نے بزم کے عہدیداران کو اس تقریب کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد پیش کئیں۔ حسبِ سابق صدر بزم ِ اردو سید فہیم الدین کی جانب سے نا ظم تقریب، ناظم مشاعرہ،مہمانِ اعزازی اور مہمانِ خصوصی کو کتاب کا تحفہ پیش کیا گیا۔
تقریب میں شامل غزلوں سے منتخب اشعار۔
تنویر پھول۔
وہ اگر چاہیں تو آجائیں بُلا لیں ہم کو
راہ میں اُنکی تو حائل کوئی دیوار نہیں
کرامت غوری۔
ہم گدائوں کے لئے خلعت و دستار نہیں
منزل جادہء حق منبر و دربار نہیں
اعجاز حیدر۔
بس مزاجاً ذرا خوددار سا واقع ہوا ہوں
آپ کے لطف و کرم کا مجھے انکا رنہیں
محمد طاہر جمیل۔
جانے کیوں مجھ کو وہ سمجھانے چلے آتے ہیں
کیا بدل جائیں گے ہم ایسے تو آثار نہیں
اسفندیا ر انصاری۔
ذکر چاہت کا کبھی بھی نہ کیا غزلوں میں
دل گواہ ہے اس کا لیکن میرے اشعار نہیں
راقم اعظمی۔
میری محفل میں تو موجود ہیں لاکھوں افراد
جو ہے مطلوب اسی کا مجھے دیدار نہیں
سعادت علی سعادت۔
دل میں حسرت تھی کہ جی بھر کے تجھے دیکھوں گا
غم تو اس کاہے کہ آج بھی دیدار نہیں
مبارک حسین مبارک۔
چہار سمت اندھیروں کا دور ہے حافظ
چراغ بن کے تمہیں روشنی دکھانا ہے
محمد اطہر اعظمی۔
یہ ترا ظرف ہے دیتا ہے گناہوں پر بھی
ورنہ مولا تری رحمت کا مین حقدار نہیں
منصور اعظمی۔
ہم نے صحرائے تمنا میں اُگائے ہیں شجر
اس میں بس پھول ہی کھلتے ہیں خار نہیں
قیصر مسعود۔
کچی مٹی سے بنا ہوا ہوں
اسلئے ڈر رہا ہوں پانی سے
سید فہیم الدین۔
میں اپنے آپ سے بیگانہ ہو گیا تو میرے
تمام مال و متاع و رسد کو آگ لگی
احمد اشفاق۔
میں تجھ کو لکھتے لکھتے تھک چکا ہوں میری دنیا
میری تحریر اب ہر پل محبت چاہتی ہے
ندیم ماہر۔
زیست ہماری ایک معمہّ
آج ہے رونق کل ویرانی

عزیز نبیل۔
بھیڑ یہ کیسی لگائی ہے خریداروں نے
یہ میرا دل ہے مصر کا بازار نہیں
شوکت علی ناز۔
یہ تو ممکن ہے کہ ہو جائے جدا سر لیکن
گرنے والی مرے سر سے مری دستار نہیں
فرتاش سید۔
عشق ہوں تو جانتا ہوں دشت میں
کیا نہین درکار، کیا درکار ہے
شفیق اختر۔
مجھ کو نگاہِ ناز سے دیکھا نہ کیجئے
مر جائوں ھا حضور ایسا نہ کیجئے
امجد علی سرور۔
رزق محنت سے ملے شرم نہیں عار نہیں
جو حقارت سے ملے اسکا طلب گار نہیں

اپنا تبصرہ لکھیں