برطانیہ کے معروف ادیب و صحافی ڈاکٹر مقصود الہٰی شیخ سے ایک انٹرویو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انٹرویو کامران غنی مدیر اعزازی برائے ہندوستان
ڈاکٹر مقصود الہٰی شیخ کا نام کسی محتاج کا تعارف نہیں۔وہ بحیثیت، صحافی، شاعر، ناول نگار اور افسانہ نویس طویل عرصہ سے اردو زبان و ادب کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں برطانیہ کی بریڈفورڈ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔پاکستان میں انھیں صدرتی ایوارڈ”تمغۂ امتیاز” سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر مقصود الٰہی شیخ کی درجنوں تصانیف منظر عام پر آ چکی ہیں۔ پیش ہے ڈاکٹر مقصود الٰہی شیخ سے اردو نیٹ جاپان کے اعزازی مدیر کامران غنی کی بات چیت:

کامران: آپ کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی؟
جواب: کہاں کا جواب ہے گجرات (پنجاب) میں پیدا ہوا۔ کب۔۔۔۔ یہ مت پوچھئے۔ جھوٹ بولنا پڑ جائے گا۔
سوال: برطانیہ نقل مکانی کا کیا سبب تھا؟
جواب: مختصراً میں اپنی اہلیہ کے کینسر کے علاج کے لئے آیا تھا۔ 31 مئی1962 کو آیا تھا۔ 19 اگست کو ان کا انتقال ہو گیا۔ تین چھوٹے بچوں کی خاطر یہیں رک گیا ورنہ واپسی پر دوسری شادی کر دی جاتی اور میرے بچے رل جاتے۔ اس وقت سب سے چھوٹا بیٹا دس ماہ کا تھا۔ دوسری شادی بچوں کی خاطر 1971 میں کی۔ یوں کہ بچے سیانے ہو رہے تھے۔
سوال: اپنے تعلیمی اور ادبی سفر کے متعلق بتائیں۔
جواب: چھ دہائی پرے، میں خالی بی اے تھا۔ مگر ادب میں افسانہ نگار کے طور پر جانا جاتا تھا۔ بلند ظرف ایڈیٹر میرے گھر پر آ کر میرے افسانے اشاعت کے لئے لے جاتے۔ میں کوئی ” پھنے خاں ” یا طرم باز نہیں تھا۔ میں وضعی اور روایتی شاعروں ادیبوں کی ہیئت کذائی سے مختلف سیدھا سادہ اور منکسر المزاج (جھجک کر کہتا ہوں) خلیق و با مروت تھا۔ بڑے شفقت اور چھوٹے محبت سے ملنا چاہتے تھے۔ ایک دو بار کراچی کے خالق دینا ہال میں ادبی نشست میں افسانہ پڑھا ہو گا ورنہ اس دنیا سے دور تھا۔ اس سے زیدہ روداد ہے نہ اثاثہ۔ بس۔ ایسی منہ سے لگی کہ ہنوز چھٹی نہیں۔
سوال: اردو سے محبت کی کوئی خاص وجہ؟
جواب: کوئی پوچھے ماں سے محبت کیوں ؟ تو آپ کیا کہیں گے، کیا جواب دیں گے ؟ کوئی طعنہ تو ہے نہیں۔ بھائی! محبت ہو جاتی ہے۔ ہو گئی۔ منہ بولی ماں سے ہو گئی۔ اب اس بڑھاپے میں کیا علیحدہ ہو جاؤں ؟
سوال: اب تک آپ کی کتنی تصانیف منظر عام پر آ چکی ہیں؟
جواب:کوئی ایسی نہیں جو ساتھ لے کر” وہاں ” جا سکوں۔ آپ کو سی وی بھیج دیا ہے۔ زحمت کر کے خودی دیکھ لیجئے۔ شکریہ۔ ورنہ جاپان انٹر نیٹ پر کتابوں کا اشتہار جان کر حذف (ایڈٹ) کر دیا جائے گا۔
سوال: برطانیہ میں اردو زبان و ادب کے تعلق سے آپ کی خدمات لائق ستائش ہیں۔ آپ نے پہلے ہفت روزہ “راوی” اور پھر رسالہ “مخزن” کی ادارت کی لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ آپ کو اخبار اور رسالہ کی اشاعت بند کرنی پڑی؟
جواب:آپ نے اس ناچیز کے معمولی کام کو خدمت کہہ کر سراہا، شکریہ بلکہ صد شکریہ۔ سیدھا اور سچا جواب یہ ہے کہ میری محنت بنجر زمین میں پھول اگانے لگی تو میں تھک چکا تھا۔ نئی تکنالوجی پیسہ مانگتی تھی۔ اخبار رسالہ آگے جانا چاہا تھا اور میں پیچھے گھسٹ رہا تھا۔ خدا کی عطا کردہ ہمت اور خدا داد محنت و توفیق کے بل پر پتھر کے زمانے کے حسابوں پانی میں گلگلے/ پکوڑے تل رہا تھا۔ میری عمر دیکھتے ہوئے انشورنس اور بنک بغیر ضمانت سرمایہ فراہم سے انکاری تھے۔ شئیر ہولڈر ( راوی نیوز پیپر لمیٹڈ) مارکیٹ میں شیئرز کی گھٹتی قیمت کی بنا پر نزدیک آنے پر تیار نہ تھے۔ ایک دو کی حالت ویسے ہی مخدوش تھی۔ مشترکہ دوستوں کا دباؤ تھا لہذا اپنے پاس سے (قرض لے کر) ان صاحب کے شیئر خود خرید لئے جبکہ ان کی کوئی مارکیٹ وییلو نہیں تھی۔ یہ تو وہ جانتے ہیں جن کے پاس پیسہ ہوتا ہے اور وہ سرمایہ کاری کرتے ہیں یہاں تو انہوں نے مجھ ناچیز کودوست سمجھ کرکی مدد کی تھی۔ کشتی ڈوبنے کا خدشہ دیکھا تو بچاؤ تو کرنا تھا۔ خیر یہ جملۂ معترضہ تھا۔ اس ناہوتی میں بھی سیاسی اورسیٹھ لوگوں کے زیر دام آنے سے بچے بچاتے دن کاٹ رہے تھے۔ ایک ڈکٹیٹر نے سفارت خانے کو منع کر دیا ،سرکاری یا دیکھا دیکھی نیم سرکاری اشتہاروں کی بندش تھی۔ میں پہلے ہی دو بار اپنا گھر ری مارگیج کر چکا تھا بیوی نے وکیل کے سامنے رونا دھونا شروع کر دیا۔ فائدہ اور ترقی نظر آ رہی تھی پھر بھی بیوی صاحبہ رسک لینے پر آمادہ نہ ہوئیں۔ آخر فیصلہ کیا کہ اخبار بند کر دو اس سے پہلے کہ خود بند ہو جاؤ۔ میں نے اعلان کردیا کہ اخبار بند کر رہا ہوں۔ نئی بات تھی اردوس مین چپ چپاتے گم ہوتے ہیں۔ یہی نہیں لوگوں کا زرسالانہ (بقیہ رہ گئی مدت کا) واپس اور نئے خریداروں کے چیک لوٹانے لگا۔ اردو میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ غالب کے مرنے کے بعد تو گھر سے حسینوں کے خطوط، چند تصویر بتاں نکلنے کی نوید تھی یہاں معاملہ صفا چٹ تھا۔ شاید بعد تلاش کوئی ایسا خط مل جائے، کیا غضب کرتے ہوئے چندہ واپس کرتے ہو!!۔ اردو میں تو ایسا کبھی نہیں ہوا۔
سوال: آپ نے پوپ کہانی پر کافی تجربات کئے ہیں۔ مختصراً بتائیں کہ پوپ کہانی کیا ہے اور کیا وجہ ہے کہ دوسرے ادیب اس جانب توجہ نہیں دے رہے ہیں؟
جواب:یار! آپ اچھے آدمی ہیں یہ کیا پوچھ بیٹھے؟ ایک سوال بار بار پوچھا جاتا ہے اور میں ہر مرتبہ نئے سے نیا جواب گھڑتا ہوں مگر قبول نہیں ہوتا۔ آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔ سنیئے، یہ پوپ کہانی میری کسی کتاب میں نہیں ملے گی۔ فنی طور پر آپ پوپ گانوں کی تقلید میں اسے ” ری مکس ” کہہ لیں۔ ملاحظہ کریں ؛۔
میں اور تو
ٹمبکٹو
کہاں کی بڑھیا کہاں کا تو
چل میرے مٹکے ٹھمک ٹھو!۔
آگے چپ ! اگر اطمیناں نہ ہو تو پوپ کہانی ٢ کا دیباچہ دیکھ لیجئے یا پروفیسر ڈاکٹر غازی علم الدین کی کتاب ” تنقیدی و تجزیاتی زاوئیے ” جس میں انہوں نے اس دیباچے کو سامنے رکھ کر تجزیہ کیا۔
سوال: برطانیہ میں اردو کی کیا صورت حال ہے؟
جواب: میں زیادہ پر امید نہیں رہا۔ ان پڑھ اور دیہاتی، قصباتی ذہن رکھنے والے والدین اور ان سے زیادہ اکثر تعلیم یافتہ مغرب سے مرعوب پروفیشنل حضرات جو غلط طور پر سمجھتے ہیں کہ یہاں اردو سے روزی روٹی نہیں جڑی وہ سب اردو کا جنازہ چپکے چپکے اٹھا رہے ہیں۔ یقین مانیے اس ملک میں ذو لسانی ہونا رزق کے کئی دروازے کھول رہا ہے۔ آئندہ پچاس سال تک قطعی مواقع برقرار رہیں گے مگر اس پر سر کو پیٹئے یا جگر کو کوسیے، بچوں کی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کہ اردو کے بدلے فرنچ یا جرمن زبان پڑھو اس میں کوئی ہرج نہیں۔ کوئی سی زباں سیکھ لیجئے اس کے فوائد ملیں گے مگر، ظاہر ہے ہمارے بچوں کو عملاً ان زبانوں سے فائدہ نہیں اٹھانا جبکہ اردو کا خواہی نخواہی بطور عالت یا امیگریشن میں ، وکالت میں مترجم یا براڈکاسٹر، یا اینکر وغیرہ بن کرجزوی یا کل وقتی کمائی کر سکتے ہیں۔
سوال: آپ نے اکثر برصغیر ہندو پاک کے شعرا، ادبا، محققین اور صحافیوں کے درمیان خلیج کا گلہ کیا ہے۔ آپ کی نظر میں اس خلیج کی کیا وجوہ ہیں اور انھیں کیسے دور کیا جا سکتا ہے؟
جواب: اس حوالے سے برصغیر کی بات، میں نہیں کرتا۔ اگر کی ہے تو یہ کہ وہاں گروہ بندی ہے۔ خلیج تو برصغیر اور بیرونجات یعنی سمندر پار کے اردو قلمکاروں یعنی صحافی، افسانہ و کالم نگار وغیرہ کے بارے میں کہتا رہا ہوں۔ آئندہ بھی کہوں گا۔ ایسا میں اپنے لئے نہیں دوسرے سبھوں کے لئے مرکزی دھارے میں جگہ / گنجائش نکالنے کی بات کرتا ہوں۔ وہاں والے ہم لوگوں کو سڑک سے لڑھکا ہوا روڑا اور پتھر سمجھتے ہوئے گھاس نہیں ڈالتے۔ آپس میں ہی مل بانٹ کر چلتی گاڑی میں گھس رہے ہیں اور جیسا کہ مسافروں کی نفسیات ہوتی ہے خود اندر گھس کر کسی دوسرے کو خواہ اس کی جان جائے اندر داخل نہیں ہونے دیتے ہیں۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے سمندر پار اردو تخلیقات معیار کے لحاظ سے کم ہوتی ہیں۔ بالفرض فنی لحاظ سے کم بھی ہوں تب بھی وژن اور مشاہدے اور نئے پن میں دیسیوں کو عقب میں دھکیل رہی ہوتی ہیں۔ بس اسی مثال پر قیاس کر لیجئے۔ آئی ٹی کا زمانہ ہے دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی مگر ہمارے اخبار، خاص کر رسالے وہی پرانی طرز و روش پر چل رہے ہیں۔ حالانکہ وہ اپنا دامن کشادہ کریں تو سمندر پار کے لکھنے والوں کے سبب ان کی حیثیت مقامی سے بین القوامی بن سکتی ہے۔
سوال: کیا آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نوجوان نسل اردو سے د ور ہوتی جا رہی ہے؟
جواب: میرا چند لفظی جواب یہ ہے کہ دور ہو نہیں رہی دانستہ دورکی جا رہی ہے۔ ہندستان میں فرقہ واریت اور تعصب ہے تو پاکستان مسلکی دھڑا بندی کے باوجود اردو سر بلند ہے۔ وہاں مسئلہ مغرب زدگی ہے۔
سوال: آپ کی نظر میں اردو کے ایسے کون سے مسائل ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے؟
جواب: کیا ہیر اور کیا پھیر؟ کوئی مسئلہ نہیں ذرا سی توجہ درکار ہے۔ بس نصب العین اور ہدف مقرر کرنا ہے، اردو بولیے، اردو پڑھیئے اور اردو لکھئے۔ اپنی آنکھوں دیکھ لیجئے گا کہ سارے زمانے میں دھوم ہماری زباں کی ہے۔ مجھے بتائیے غیر ملکی ہوں انگریز ہوں یا فرانسیسی، چینی یا جاپانی یا کوئی سی یورپی زبان بولنے والا۔ دھانسو امریکہ بہادر۔ کوئی ہو، کبھی ان کو، آپ نے، کسی دوسری زبان میں بولتے سنا یا دیکھا ہے ؟ یہ وبا ہمارے اندر ہی پنپ گئی اور مزید پنپ رہی ہے کہ ہم آپس میں ملتے ہیں تو اردو کے بجائے دوسری زبان یعنی بر صغیر کی حد تک کسی دلیل کے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ بے تکلفانہ انگریزی کی پیوند کاری کرتے ہیں اور کرتے چلے جاتے ہیں۔ اپنے یہاں ٹی وی پر خبریں سنیے یا کسی منتری کا بھاشن سنیے وہ پچ میل زبان بول رہا ہو گا خواہ اس کا ووٹر نہ سمجھتا ہو مگر اس نے تو فیشن میں یا دوسروں کو مرعوب کرنے کے لیے اپنی زبان کم اور دوسری زبان کے زیادہ سے زیادہ الفاظ استعمال کرنے ہی کرنے ہیں۔
سوال: انٹرنیٹ نے اردو زبان و ادب بالخصوص اردو صحافت کو کس حد تک متاثر کیا ہے؟
جواب: اچھی نہیں بری طرح متاثر کیا ہے۔ ایک نئی اور مفید تکنیک کی راہ ملی تھی اس کا فائدہ اٹھانے کے بجائے اس کا ” ریپ ” کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ بدفعلی اور بلات کار کیا جا رہا ہے۔ کنوئیں کے منیڈک بن کر ہم زمانے سے رابطوں کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہے ہیں۔ ایک پاکستانی شخص ہے راشد اشرف وہ تھکے بغیر اردو کلاسک کتابیں انٹر نیٹ کے ذیعے پھیلا بھی رہا ہے اور محفوظ بھی کر رہا ہے۔ میرے اس بارے میں تحفظات ہیں۔ کئی حضرات کسی کتب خانے میں جانے یا کتب فروش حتٰی کہ سڑک کنارے (فٹ پاتھ) پر کتاب کی تلاش کے بجائے راشد اشرف سے فرمائش کرتے ہیں کہ ذرا اس کا لنک بنا دو اسے ڈاؤن لوڈ کرا دو۔ وغیرہ۔ وہی ہاتھ پیروں کی آلکسی منہ میں مونچھیں آئیں۔
سوال: آپ ایک صحافی بھی ہیں اور ادیب بھی۔ آپ کی نظر میں ادب اور صحافت میں بنیادی فرق کیا ہے؟
جواب:جن سوالوں کے جوابات شرح و بسط چاہتے ہیں آپ نے ان کو سرسری بنا کر پیچھے دھکیل دیا۔ دو لفظوں میں صحافی وہ شخص ہے جو جیسے کیسے گاڑی چھٹنے سے قبل اس پر سوار ہونے کا خواہاں ہے اور ادب میں تو بقول شاعر بیٹھے ہیں تصور جاناں کئے ہوئے اور اس عشق میں وہ جاں ہار جاتا ہے پھر بھی انصاف نہیں کر پاتا۔ وہ نشان چھوڑتا ہے کہ آنے والے نشاں نگاہ بناتے ہیں لیکن غریب ادیب کی قسمت منزل دور ہی رہتی ہے۔۔۔۔اور کیا اور کیسے کہوں؟
سوال: قارئین اردو نیٹ جاپان کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
شاید میری بات دل میں اتر ہی جائے۔ اگر اخلاص سے آپسی تعلق پیدا کرنا ہے تو اردو بولئے۔ عشق و محبت کا اظہار کرنا ہے تو فرنچ سیکھئے اور اگر محبت جتانی، ہائے وائے کرنا ہے یا بے وفائیوں کا مزہ چکھنا / چکھانا ہے تو فارسی بھی میٹھی اور دہری و کار گر زبان ہے۔ میرا مخلصانہ مشورہ ہے :۔۔۔۔جاپان والو! اردو بولو۔ اردو پڑھو اور اردو لکھو۔ سچی! اس کا مزہ ہی اور ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں