بدعت یا سنت الہی حصہ اول

عارف محمود کسانہ
اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں فرقہ بندی سے سخت منع کیا ہے اسی لیے اختلافی اور فرقہ وارانہ امور میں الجھنے کی کبھی کوشش نہیں کی لیکن جب بات اُن کی ہو جو وجہ تخلیق کائنات ہوں اور جن کی نسبت سے ہی سب کچھ ہو تو پھر خاموشی ممکن نہیں۔ حضورﷺ کے ولادت کے حوالے سے میرے گذشتہ کالم کے بعد بہت سے احباب نے عید میلادالنبی ؐ کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا قرآن حکیم ، احادیث مبارکہ اور صحابہ اکرام کے طرز عمل سے حضورپاک ؐ کی ولادت کا تذکرہ اور تفصیلات ملتی ہیں ؟ کچھ احباب عید میلاد النبی کو بدعت قرار دیتے ہوئے اس دن کی مناسبت سے تقریبات منعقد کرنے کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا کہ نہ ہی رسول اکرم نے اور نہ ہی صحابہ اکرام نے میلاد منایا اس لئے ہمیں بھی نہیں منانا چاہیے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہر سال جب بھی رسول پاکؐ کی ولادت کا دن آتا ہے تو اس طرح کی بحث شروع ہوجاتی ہے۔ اس صورت حال ایک عام مسلمان فرقہ وارانہ بحث اور جذباتی انداز سے ہٹ کر علمی انداز میں دین کی تعلیمات کی روشنی اور دلائل و برہان کے ساتھ اصل صورت حال جاننا چاہتا ہے۔ موضوع نہایت اہم ہے اور ایک کالم میں اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں اس لیے پہلی قسط میں قرآن حکیم ، احادیث مبارکہ اور صحابہ اکرام کے طرز عمل سے حضورپاک ؐ کی ولادت کا تذکرہ دلائل کے ساتھ دیا جارہاہے جس سے یہ واضع ہوجائے گا کہ میلاد مصطفےٰ ؐ کوئی نئی ایجاد نہیں۔ دوسری قسط میں بدعت کے بارے میں تفصیلات پیش کروں کا کہ بدعت کسے کہتے ہیں مزید یہ کہ بدعت اور جدت میں کیا فرق ہے۔
سب سے افسوس ناک بات یہ ہے دنیا کے کسی بھی مذہب کے پیروکاروں نے اپنے پیغمبر یا بانی مذہب کی ذات کو متنازعہ بحث کا موضوع نہیں بنایا جس طرح مسلمانوں نے اپنی نبیؐ کو بنا رکھا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں سخت تنبیہ کی حضورؐ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لو یہ نہ ہو سب اعمال ضائع ہوجائیں اور تمھیں شعور بھی نہ ہو۔ دراصل کچھ احباب کو عید میلاد النبی کی اصطلاح سمجھ نہیں آتی اور وہ اس پر معترض ہوتے ہیں۔ عید عربی کا لفظ ہے جس کامعنی خوشی کا تہوار جو بار بار آئے، یہ کوئی مذہبی لفظ نہیں جیسے ہم یوم آزادی کو عید آزادی بھی کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں عید الفطر اور عید الاضحی کا بھی کوئی ذکر نہیں ۔میلاد بھی عربی کا لفظ ہے اور یوم میلاد کا معنی ہے پیدائش کا دن۔ میلاد النبی ؐ سے مراد یہی ہے کہ آپ ؐ کی ولادت کا تذکرہ کیا جائے اور دنیا میں آپ کی تشریف آوری پر مسرت کاا ظہار کیا جائے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو قرآن و احادیث اور صحابہ اکرامؓ کے عمل سے میلاد النبیؐ منانا ثابت ہے۔ دین اسلام میں سپریم اتھارٹی قرآن حکیم ہے۔ یہ وحی خدا ہے جس پر خود رسول پاک ؐ بھی عمل کرتے تھے۔ اگر قرآن میں کوئی حکم موجود ہے تو پھر مزید کسی دلیل ضرورت نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ کسی اور نے یہ کیا یا نہیں کیونکہ ہمارا ایمان قرآن پر ہے اور اس کی ایک آیت کا بھی انکار ایک مسلمان کے لیے ممکن ہی نہیں۔علامہ اقبال نے حضورؐکی نعت لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
یعنی حضورؐ کو مجسم قرآن کہہ رہے ہیں یہ اُس حدیث کی روشنی میں میں جس میں حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ حضورؐ کا خلق قرآن تھا اور چلتے پھرتے قرآن تھے۔ کیا حضورؐ اور قرآن الگ الگ ہیں؟ یقیناًنہیں ۔ کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ حضورؐ مجسم قرآن نہ تھے؟ اور اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ آپ ؐ مجسم قرآن تھے تو سارا مسئلہ ہی حل ہوجائے گا۔ اب سورہ یونس کی آیت 58 پر غور کریں ،ارشاد ربانی ہے۔
ان سے کہہ دیں کہ یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔ سورہ یونس کی اس آیت کی روشنی میں قرآن کے ملنے پر جشن مسرت منانے کا حکم ہے۔قرآن حکیم چونکہ رمضان میں نازل ہوا اس لیے اس حکم کی تعمیل میں ہم نزول قرآن کے مہینہ کے اختتام پر عید الفطر کی صورت میں جشن مسرت مانتے ہیں اور دوسرا جشن مسرت ربیع الاول میں حضورؐ کی اس دنیا میں تشریف آوری پرمناتیہیں۔ مجھے اس کوئی غرض نہیں کہ کس نے کیا کِیا میرے سامنے قرآن کا حکم ہے جس پر عمل پیرا ہوں۔ اگر کوئی حضورؐ کو مجسم قرآن تسلیم نہیں کرتا تو وہ یہ جشن مسرت نہ منائے۔کیا قرآن کے اس حکم کے باوجود شکوک و شبہات رہ جاتے ہیں؟ مجھے حیرت ہے ہم اپنے بلکہ دوست احباب کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو تو خوشی مناتے اور مبارک باد دیتے ہیں لیکنرسول پاکؐ کی پیدائش کا موقع آتا ہے تو تاویلیں شروع کردیتے ہیں۔ کیا اسی کو محبت رسول ؐ کہتے ہیں۔ دنیا میں کسی مذہب کے ماننے والے ایسا رویہ نہیں رکھتے۔ تاریخ میں ہمیں حضورؐ کے یوم ولادت منانے کا کوئی ثبوت ملے یا نہ ملے، میرے یہ حکم کافی ہے کیونکہ میرا ایمان قرآن پر ہے تاریخ پر نہیں۔میلاد کا مطلب ہے پیدائش کا ذکر کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے انبیاء اکرام کی ولادت یعنی میلاد کا تذکرہ کیا ہے۔ ان انبیاء میں میں حضرت آدمؑ ، حضرت موسیٰ ؑ ، حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ کے یوم میلاد پر سلام بھیجا ہے (سورہ مریم آیت 15 اور 33) اس اعتبار سے انبیاء کے یوم ولادت کا ذکر کرنا اور درود و سلام بھیجنا سنت الہی ہے اور ہمیں اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔
اس کے باوجود اگر کوئیتاریخی حوالے چاہتا ہے او ر یہ کہ رسول پاک ؐ او ر صحابہ اکرام کے ہاں ولادت باسعات کا ذکر کیا ملتا ہے تو عرض یہ ہے کہ منانے کا اندز مختلف ہوسکتا ہے اور جیسے دور حاضر میں منایا جاتا ہے ممکن ہے وہ اس نادز میں نہ مناتے ہوں لیکن اصل بات ہے کہ یوم ولادت کو اہمیت دینا۔ میں اس امر کی وضاحت ضرور کانا چاہوں گا کہ یوم ولادت مناتے ہوئے غیر شرعی کاموں کا کوئی جواز نہیں اور نہ ہی ہمیں کسی ایک مخصوص انداز یا طریقہ کار کو اپنانے اور اسی پر کاربند رہنے کی ضرورت ہے۔ اصل مقصد حضورؐ کی ولادت کے ذکر سے اپنے دلوں میں محبت رسولؐ کا جزبہ موجزن کرتے ہوئے اپنے کردار و عمل کو اس کی روشنی میں ڈھالنا ہے۔ حضورﷺاپنے پیدائش کے دن پیر کو روزہ رکھا کرتے تھے اس طرح ہر ہفتے آپؐ اپنا یوم ولادت منایا کرتے تھے۔صحابہ اکرام تو حضورؐکی ولادت کا تذکرہ اکثر کرتے رہتے تھے۔حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضورؐ کی موجودگی میں میلاد منایا اور نعت پڑھی جس کا ترجمہ ہے کہ
:’’اے آمنہ کے مبارک بیٹے! جو انتہائی پاکیزگی اور عفت کے ساتھ پیدا ہوا۔ آپ ایسا نور تھے جو ساری مخلوق پر چھا گیا اور جسے اس مبارک نور کی پیروی نصیب ہوئی وہ ہدایت یافتہ ہو گیا۔ رات کی تاریکی میں حضور کی جبینِ اقدس اس طرح چمکتی دکھائی دیتی ہے جیسے سیاہ اندھیرے میں روشن چراغ۔‘‘ دیوان حضرت حسان بن ثابت 153
حضرت حسان کی ایک بہت مشہور نعت ہے جس میں وہ حضورؐ کے میلاد کا تذکرہ یوں کرتے ہیں کہ آپ سے حسین تر کوئی دیکھا نہیں گیا ۔آپ سا جمیل بھی کسی ماں نے نہیں جنا۔ہر عیب سے آپ کو بری پیدا کیا گیا۔گویا جیسے آپ نے چاہا آخر وہی ہوا۔ حسان بن ثابتؓ کے علاوہ ، اسود بن سریعؓ ، عبد اللہ بن رواحہؓ، عامر بن اکوع ؓ ، عباس بن عبد المطلبؓ، کعب بن زہیرؓ ، نابغہ جعدیؓ ، کعب بن مالکؓ اور بہت سے صحابہ حضورؐ کی شان بیان کرنے اور ودلادت کو ذکر کرنے میں شامل تھے۔ یہ میلاد منانا نہیں تو اور کیا ہے؟
لیکن اس کے باوجود کوئی عید میلاد النبیؐ کو بدعت قرار دیتے اسے ناجائیز سمجھتا ہے تو اسے میرے کالم کا دوسرا حصہ پڑھنا چاہیے تاکہ بدعت کا اصل مفہوم واضع ہوسکے۔

4 تبصرے ”بدعت یا سنت الہی حصہ اول

  1. مجھے حیرت ہے ہم اپنے بلکہ دوست احباب کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو تو خوشی مناتے اور مبارک باد دیتے ہیں لیکنرسول پاکؐ کی پیدائش کا موقع آتا ہے تو تاویلیں شروع کردیتے ہیں۔ کیا اسی کو محبت رسول ؐ کہتے ہیں۔

    السلام و علئیکم عارف صاحب
    ۔یہ جملے جو آپ نے لکھے ہیں یہ ایک بہت واضع مثال ہے اگر اس دلیل اور جیتی جاگتی مثال کے باوجود بھی کسی کو میلاد منانے پر اعتراض ہو تو پھر اس سے ذیادہ نا عاقبت اندیشی کیا ہو گی۔
    آپکے اس مضمون کے ایک ایک حرف سے عشق رسول کی خوشبو آ رہی ہے جسے ہر اہل دل شخص محسوس کر سکتا ہے۔آپ نے بہت اچھے طریقے سے مضمون میں میلاد کی حقیقت بتا دی ہے۔پڑھ کربے حد خوشی ہوئی۔
    بہت سی دعائیں
    شازیہ
    Back to Conversion Tool

    1. All of us are great full to You for your passion and efforts and hope that you will remain in touch with us for enlightning our hearts and paths.
      Regards for my brother Dr.Arif Kisana

اپنا تبصرہ لکھیں