ایک دن دو بڑے دن… اور اندلس …مظفراعجاز …

…مظفراعجاز …
قوموں کی زندگی میں بڑے دن مختلف حوالوں سے آتے ہیں کسی کا یوم آزادی اس کے لیے بڑا دن ہوتا ہے کسی کا اپنے بادشاہ یا حکمران کے
یوم پیدائش کے مناسبت سے بڑا دن آتا ہے۔ ہم مسلمانوں میں تو عیدین اور جمعہ بڑے دن ہیں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں گزشتہ ہفتے ہم ایک ہی دن میں دو بڑے دنوں کی تقریب میں شریک ہوئے۔ اور وہ بھی دعوت کی بنیاد پر قائم ہونے والی جماعۃ الدعوۃ کے زیر اہتمام دارالاندس نامی کتب کے شو روم کا افتتاح تھا۔ ایک تو دعوت کا پورا پورا مدار کتاب پر ہے دوسرے یہ کہ جس عنوان سے یہ مکتبہ یا شو روم کھولا گیا اس نے پوری تاریخ نظروں کے سامنے سے گزار دی…
اندلس! اسپین پر مسلمانوں کی حکومت کی درخشاں تاریخ مسلمانوں کے خلاف سازشیں ان کا اسپین سے اخراج یا زوال یہ سب ایک لمحے میں نظروں کے سامنے آگیا۔ باقی کام حافظ عبدالرحمن مکی، ڈاکٹر طاہر مسعود، مولانا شفیع چترالی، سعید خاور، شیخ محمد سلفی، شاہنواز فاروقی اور سیلانی نے کردیا۔ پوری تاریخ ہی تو سامنے رکھ دی اور سب کا کہنا یہی تھا کہ مسلمان کو کتاب سے دور کردیا گیا اور اس کو زوال کاشکار کردیا گیا۔ لیکن یہ بڑا دن کیسے ہوگیا یہ ہم بتاتے ہیں گھنٹوں منٹوں اور سیکنڈوں کے اعتبار سے سورج کے طلوع وغروب کے اعتبار سے 22 جون سال کا سب سے بڑا دن ہوتا ہے اور کتابوں سے رشتہ جوڑنے اور کتب خانے کا افتتاح کرکے جماعۃ الدعوۃ نے دعوت کے میدان کا سب سے بڑا کام کیا جو بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں بڑا دن ہے گویا ایک ہی دن میں دو بڑے دن…
دارالاندلس شو روم ایک بہت خوبصورت کتب خانہ ہے اگرچہ چھوٹا سا ہے لیکن اس میں بہت سی تاریخی کتب دینی علوم بچوں کی تربیت سے متعلق کتب، دلچسپ تاریخی کہانیاں اور حج وعمرے کے حوالے سے لوازمات سب ہی موجود ہیں… دارالاندلس نے ہمیں یاد دلادیا کہ جب اندلس سے مسلمانوں کو نکالنے کی سازش کی گئی تو سب سے پہلا حملہ تعلیم اور کتب پر ہی کیا گیا تھا۔ بڑے بڑے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے جیسا کہ آج کل انٹرنیشنل اسکولز کی چین ہوتی ہے۔ بیکن ہائوس، فائونڈیشن، آغا خان سٹی اور نہ جانے کون کون سی زنجیریں (چینز) ہیں جو آج کل ہمارے تعلیمی نظام کے گرد لپٹی ہوئی ہیں۔ اُس زمانے میں بھی بڑے عالی شان قسم کے تعلیمی ادارے بنائے گئے خوبصورت عمارتیں تیار کی گئیں اور شور مچا کہ باہر سے تعلیمی نصاب آئے گا۔ مسلم حکمرانوں کی گرفت ڈھیلی ہو رہی تھی اس وقت بھی یہی ہوا کہ امرا کے لیے الگ نظام تعلیم اور عام لوگوں کے لیے الگ۔ جو لوگ اس اشرافیہ کے تعلیمی نظام سے پڑھ کر نکلے وہ معاشرہ میں عزت پانے لگے جیسا کہ آج کل ہے۔ اولیول ، اے لیول اور انٹرنیشنل چین کے اسکول وتعلیمی ادارے سے پڑھا ہوا شخص ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ اُس زمانے میں بڑی سازش یہ ہوئی کہ پہلے پہل مسلمانوں میں یہ اسکول مقبول نہیں ہوئے لیکن جب معاشرہ نے اس چین سے وابستہ لوگوں کو پھلتے پھولتے دیکھا تو بھیڑ چال شروع ہوگئی لیکن سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ پرنسپل کی آڑ میں بیشتر پادری تھے جو پہلے غیر مسلم یا کافر سمجھے جاتے تھے اب پرنسپل اور استاد ہونے کے ناتے معزز اور قابل احترام ٹھیرے… بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ اب یہی پرنسپل اور استاد نئے حوالوں کے ساتھ مسلمان اشرافیہ کے بچوں کو تعلیم دینے لگے۔ اور رفتہ رفتہ مسلمان بے وقوف، قرآن پڑھنے پڑھانے والے کم علم اور ان اسکولوں میں پڑھنے والے عقلمند سمجھے جانے لگے۔ اس کے بعد اسلام کو دیس نکالا دینے کے لیے کچھ نہیں کرنا پڑتا… آج کے پاکستان میں تو کئی مسائل ہیں یہاں اب بھی اکثریت قرآن سے جڑی ہوئی ہے حالانکہ یہاں بھی انٹرنیشنل چین سے پڑھنے والے چین سے رہتے ہیں اور عام اسکولوں سے پڑھنے والے بے چین… اور اقتدار میں بھی یہی لوگ آتے ہیں اور ایوان اقتدار کو چلانے والے اداروں میں بھی یہی لوگ آتے ہیں پھر ملک بھی یہی لوگ چلاتے ہیں۔ اسی لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نصاب تعلیم تبدیل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے مخصوص قرآنی آیات نکالی جارہی ہیں جہاد کو نصاب سے خارج کیا جارہا ہے کوشش یہ بھی پوری طرح کامیاب نہیں ہورہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام اب بھی کتاب یعنی الکتاب سے رشتہ جوڑے ہوئے ہیں اور یہ رشتہ پہلے سے مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ دارالاندلس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے امید ہے کہ دارالاندلس ارد گرد پھیلی ہوئی یونیورسٹیوں کے طلبہ وطالبات کے لیے بھی ایک مفید حوالہ ثابت ہوگا اور امت مسلمہ کو تاریخ سے رشتہ جوڑنے کا موقع فراہم کرے گا۔ کیونکہ آنے والا دور پکار پکار کر کہہ رہا ہے۔
سر بکف دوستو… صف شکن غازیو
اپنی تاریخ کو پھر سے ترتیب دو…

اپنا تبصرہ لکھیں