ایسی  ویسی ناک ، کیسی  ناک،   کس کی  ناک  !

زبیر حسن شیخ

جمہوریت میں جب جب ناک کی بات ہوگی اچھی بری تمام صفات کیساتھ یہ یوں لگ جائیگی جیسے ناک نہ ہوئی کان، آنکھ یا زبان ہوگئی جن کی اہمیت اعضائے غریبہ میں کم از کم ناک سے تو بہتر ہے… ناک بند ہوجائے تو منہ سے سانس پھر بھی لی جا سکتی ہے لیکن آنکھوں  اور کانوں کا متبادل کوئی نہیں ہوتا… اور پھر زبان تو زبان ہوتی ہے جس کی جراحی اور پیوند  کاری یا    ‘ٹرانسپلانٹیشن ‘  سائینس سے ثابت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو لیکن ادب سے  ثابت  ضرور  ہوئی   ہے ..اس لئے ادب  میں ناک کی وہ اہمیت نہیں ہے جو زبان کی ہے….. لیکن ناک کی اہمیت جمہوریت اور سیاست میں اسقدر اہم ہوجائیگی یہ ہم نے کبھی سوچا نہ تھا….ٹھیک ہے اب جمہوریت میں آنکھ اور زبان اور کان کا صحیح استعمال نہیں ہورہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ناک کو ہر ایک اعضاپر فوقیت حاصل ہوجائے…. اب کیا کیجئےگا کہ جمہوریت میں اسقدر حیرت ناک واقعات ہورہے ہیں کہ جسے رقم کرنے میں اردو کی  قواعد بھی احتجاج کررہی ہے ، حیرت افزائیاں لکھیں یا حیرت انگیزیاں یا حیرت ناکیاں یا  ہوس ناکیاں،   سب نے ناک میں دم کررکھا ہے،  بلکہ کہیں ناک بند  اور کہیں ناک پر ہاتھ رکھنے پر مجبور کر رکھا ہے….توبہ ہے اسقدر بو پھیلی ہے کہ امریکہ سے فرانس تک اور لندن سے دہلی تک اگر کسی کو سیاسی راہوں سے گزرنے کا اتفاق ہو تو ناک پر ہاتھ  رکھے بغیر گزرنا نا ممکن ہے..چین  کے تعلق سے  اس ضمن میں کچھ کہنا  انکی ‘غیرت ِ ناک’  کو للکارنا ہے …مغرب میں بیروزگاری نے محبوبہ اکانومی کا حال برا کر رکھا ہے اور محبوبہ نے جمہوریت کی   ناک  کو خم  کر رکھا ہے ..بلکہ مغرب  میں محبوباوں  نے  تو  اچھے اچھوں کی ناک کو خم کر رکھا ہے …..اس پر مصیبت یہ کہ اہل مغرب دوسری تمام   گزرگاہوں پر ناکہ بندی کر بیٹھے ہیں….اب بھلا اس حال میں اہل خبر کا جو خبر کی بو سونگھ کرکارخانہ صحافت کا کام چلاتے ہیں،  کیا حال ہوتا ہوگا کوئی انکی ناک سے پوچھے….

ہندوستان کا حال ہی دیکھ  لیجیے…. بی جے پی کو یہ شکوہ کہ  عام آدمی پارٹی نے ناک میں دم رکھا ہے اور ان کا کہنا کہ کانگریس اور بی جے پی نے کررکھا ہے…. ٹی وی میڈیا ہے کہ  سچ بتاتا ہی نہیں کہ کس کی ناک کا ذکر ہورہا ہے… کس کی ناک اور کس کا دم… میڈیا خود اپنی حیرت ناکیوں میں بلکہ ایکدوسرے کی ناک کاٹنے میں الجھا ہوا ہے…. زی نے ای کی یا جی نے پی کی، این نے ڈی کی یا آئی نے این کی …. ان میں سے چند کی کٹ چکی تو چند کی ٹی آر پی میں گراوٹ سے بہہ رہی ہے، اور چند نے بھگوا تنظیموں کو اپنی ناک کا بال بنا کر رکھا ہوا ہے…ان میں چند ‘لو جہاد’ کی کمائی کھارہے ہیں کیونکہ اس میں ملکی  اور  غیر ملکی دونوں   گنگا میں ہاتھ کے ساتھ ساتھ ناک دھونے کا موقع مل رہا ہے…. ایک دو تو ایسے بھی ہیں کہ بے شرمی کی انتہا پر پہنچ کر بھگوا تنظیموں اور سرمایہ داروں کے آگے ناک رگڑنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے…. مغربی تہذیب میں دہلیز پر ناک نہیں رگڑی جاتی بلکہ کاندھوں کا استعمال کیا جاتا ہے، وہی کاندھے جس کی قدر و اہمیت مشرق میں اس سے سوا ہے  کہ یہاں   زندگی  اور موت  دونوں  کو اس کی ضرورت  ہوتی ہے …..میڈیا مکھی کی طرح سرمایہ داروں کی خبروں کے آگے پیچھے بھنبھنا رہا ہے … اور  کچھ سرمایہ دار تو ایسے بھی  ہیں کہ انہیں اپنی ناک پر بیٹھنے نہیں دیتے….. اور بھگوا تنظیمیں انکی ناک چوٹی پر ہاتھ رکھے بیٹھی ہیں کہ سیاں بھئے کوتوال تو پھر ڈر کاہے کا….لیکن یہ سب تو جمہوریت اور سیاست جدیدہ کی پشت پر ہورہا ہے … سامنے جو کچھ ہورہا ہے اور جسے معتبر ذرائع ابلاغ میں دیکھا اور پڑھا جارہا ہے وہ بھی کچھ کم حیرت کی ناک میں دم کرنے والا نہیں ہے… انسان کا کچھ تو اعتبار اب بھی جمہوریت میں کسی پر قائم ہے، چوتھا ستون اب اسقدر بھی دیمک زدہ نہیں ہوا ہے…..اور یہ بھی ایک حیرت ناک بات ہے…

ذرائع ابلاغ کے مطابق عام آدمی پارٹی نے حیرت ناک اسٹنگ آپریشن کے ذریعے بی جے پی کا امیدواروں کی خرید و فروخت میں ملوث ہونا ثابت کر دیا ہے…. اب اس میں حیرت کی کیا بات بھلا! …. بغیر اسٹنگ آپریشن کئے یہ سب بات ایک دنیا نے  سو دن قبل   لوک سبھا الکشن میں بتا ئی تو  تھیں… اس میں ناک کے سوا حیرت کی کوئی بات ہمیں تو نظر نہیں آئی… حیرت کی بات کر رہے ہیں جبکہ ناک کی بات کرتے تو کچھ بات بھی تھی جو  سیاست  میں سب کی کٹ چکی ہے  … میڈیا   میں سے کچھ  امیت شاہ کی ناک کو یوں اونچی کرنے میں لگے ہیں کہ انکی  اپنی ناک بہنے لگی ہے…..امیت شاہ جیل سے چھوٹ کر گجرات کی عدالت عالیہ میں ملزم بلکہ معتبر صحافت کی نظر میں امکانی مجرم مانے جاتے ہیں،  وہ مودی راجہ کے قدم چوم کر بی جے پی کی صدارت سے سرفراز ہوئے،  پھر ریاستی الکشن میں پارٹی کی قیادت کرنے یوں چل پڑے کہ بقول شاعر…..”اس شان سے وہ آج پئے امتحاں چلے… فتنوں نے پاؤں چوم کے پوچھا کہاں چلے”….اور حزب مخالف کے منہ زور خطیب مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر ناک بھوں سکیڑتے رہے…. کچھ  اپنی  ناک نتھی  کرنے میں مصروف رہے  ….سنا ہے کٹی ہوئی ناک کو سکیڑنا بڑا معیوب   لگتا  ہے…..ہاں لوگوں کی آنکھوں سے جو چاہے چھپایا جاسکتا ہے لیکن کیمرہ کی آنکھ سے کوئی اعضا چھپے کہاں رہ سکتے ہیں، خاصکر اعضائے غریبہ تو ظاہر ہو ہی جاتے ہیں….. ویسے کیمرے کی آنکھ کا کیا ہے، اس کے لئے ناک کیا چیز ہے.. اسکی پہنچ غریبہ ہو یا   رئیسہ   کہاں کہاں تک ہے یہ کوئی خوش فہم ناظرین سے پوچھے….شکر ہے کیمرہ کی آنکھ  تو ہوتی ہے لیکن   ناک نہیں ہوتی…. ورنہ مغربی افکار کی ماری اس تہذیب میں کب کی کٹ گئی ہوتی…..لیکن سنا ہے جمہوریت کی سیاست میں بڑی ناک ہوتی ہے اور یہ ایک تشویش  ناک  حقیقت ہے ، امریکہ میں اکثر ایسا کہتے سنا ہے…بلکہ ہندوستانی سیاسی رہنماؤں کو خطر ناک انداز میں اسکی اہمیت کا اظہار کرتے دیکھا ہے جو اہل فکر و قلم کیلئے ہمیشہ افسوس ناک واقع ہوا ہے… البتہ پاکستان کے اکثر سیاسی رہنماؤں نے جمہوریت کی ناک میں دم کر رکھا ہے… لیکن ان میں چند ایسے عبرت ناک رہنما بھی ہوئے ہیں جن کا کہنا تھا….” رندوں کے ہاتھ سے نہیں ٹوٹی ہے ساقیا…….نشّہ میں چور ہوگئی بوتل شراب کی”…. اب شوق فرما ہی لیا ہے تو سنا ہے نشہ کا ‘اتارا’ بھی  تو ہوتا ہے…. لیکن یہ کیا کہ جام پر جام چڑھائے جا رہے ہو اور یہ کہہ رہے ہو کہ شراب سے شراب اترتی ہے، لیکن یہ کمبخت اترتی کہاں ہے… جب جب مغربی شراب پی گئی ہے اس نے حیرت ہو یا عبرت ہو یا افسوس ہو  یا ہوس ،،، سب کی ناک میں دم کر کے رکھا ہے… نشہ اترنے ہی نہیں دیتی کمبخت…. اور پھر ساقیا بھی سر پر کھڑا رہتا ہے صراحی لئے کہ کہیں یہ پھر واعظ کے نہ ہوجائیں….لیکن  عبرت کی ناک میں تو اس وقت دم ہوا ہے جب حال  ہی میں  ایک واعظ کے ہاتھ میں مغربی جام نظر آیا.. خالی تھا یا بھرا پتہ نہیں…..بس پھر کیا تھا رندوں نے شور مچا دیا کہ….. ساقیا! ہوش میرے مجھ کو تو واپس کردے…مدتوں بعد کوئی امید بر آئی ہے…..اس واعظ  کو دیکھ کر  جن کے ہاتھوں میں لرزہ طاری   ہوا  وہ کہہ اٹھے  …. جام رہ رہ کے  چھلکتا ہے کیوں    ہاتھوں میں یہاں ..اور  جنکی   آنکھیں نم ہوئی  وہ سب یہی کہنے لگے….”اتنی کدورت اشک میں،  حیران ہوں کیا کہوں ؟..دریا میں ہے سراب کہ دریا سراب میں”…. یہ تو پاکستان   کے   الم ناک ہونے کا فسانہ ہوا  …  ہندوستان کی  کہانی  بھی کچھ کم    درد ناک نہیں ہے .. الغرض  سب کی ناک کا ہی مسئلہ ٹہرا ..

مودی راجہ جاپان سے ثابت و سالم ہندوستا نی  ناک نقشہ کے ساتھ لوٹ کرآئے ….اور محترمہ وزیر خارجہ نے انکی ناک اونچی کر انہیں خوش  آمدید بھی  کہا…. مجال ہے جو کسی نے انکے نیو کلیئر سمجھوتوں پر ناک چڑھائی ہو…. ہندووں کے مقدس شہر کاشی کو عالمی شہر بنا کر بھگوا تنظیموں کو خوش کرنے کا سن کر ہندوستان کی جنوبی ریاستوں میں تو دور کی بات شمالی ریاستوں میں بھی کوئی  تشویش   ناک بات دیکھنے میں نہیں آئی….. اور نہ ہی گنگا ندی کی ‘پوترتا’ دوبالا کرنے کا بیڑہ جو جاپان نے اٹھایا ہے اس سے کسی ‘ٹیکس پیئر ” نے ناک منہ بنا یا….’بلیٹ ٹرین’ کی کہانی سے اہل گجرات اور خاصکر احمد آباد شہر کے تجار کو خوشی ہوئی کہ انکا ‘انویسٹمنٹ’ اب ریٹرن دینے والا ہے اور انکی حیثیت بی جے پی کی ناک کے بال برابر تو ہے ہی….لیکن پتہ نہیں کیوں راجہ جی بہت تنہا تنہا اور کچھ خموش سے لگے….انہیں پتہ نہیں ہے  کہ….. “خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے…..تڑپ اے دل! تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے”….. شاید انہیں خبر لگ چکی تھی کہ آتے ہی حزب مخالف ناکوں چنے چبانے پر مجبور کریگی … اور ملائم  سنگھ نے ناک چڑھا کر  یہ کام شروع بھی کردیا.. بلکہ اس کام کے لئے امر سنگھ  کی ناک   تو  اونچی  کردی لیکن  اعظم خان  کی  حیثیت   تشویش   ناک ہوگئی …. کانگریس نے افسوس کی ناک میں دم کردیا کہ مودی جاپان میں خوب ڈھول پیٹھ کر آئے ہیں…اب یہ محاورتا کہا یا انکے جاپان میں ڈھول پیٹنے کو لے کر واقعتا کہا، یہ کانگریس ہی جانے، جو ناک آوٹ ہو کر بھی ریاستی الکشن میں ناک میں دم کرنے کا دعوی کر رہی ہے….مودی جی کے آتے ہی ‘شکشکھ دیوس’ (یوم اساتذہ)  کا ‘بھگوا کرن’ کر اسے ‘گرو دیوس’ کردیا گیا …. بس پھر کیا تھا کانگریس کی ناک پر مکھی بیٹھ گئی… کانگریس کو شاید پتہ نہیں کہ اسکی اپنی پارٹی کے کتنے لیڈروں کا ‘بھگوا کرن’ کردیا گیا تھا، جنہوں نے بابری مسجد کی شہادت میں بھگوا تنظیموں کا ساتھ دے کر ملک کی  ناک کٹوا دی تھی… اب لاکھ ناک اونچی کی جائے لیکن تاریخ میں کٹی رہے گی، اور جس کا اظہار ہندوستان بلکہ دنیا کے اکثر و بیشتر اہل فکر و نظر و خبر اور سیاسی لیڈروں نے بھی کیا ہے…. اب یہ ناک تب ہی اونچی ہوگی جب سیکولرازم کے دعویدار بابری مسجد کی دوبارہ اصل جگہ تعمیر کر اپنی غلطی کا ازالہ کرینگے….. ہندوستان کے برہمنوں کی ذہانت کی ایک دنیا قائل رہی ہے لیکن کہتے ہیں سیانا کو  ا   پتہ نہیں کیا کچھ کھا جاتا ہے…اور  وہ یہاں مات کھا گئے کہ اب چاہے عدالتوں پر دباؤ ڈال کر یا اور کسی بھی سیاسی سازش سے وہ رام مندر بنانا چاہیں گے تو تاریخ میں یہ تنازعہ درج رہے گا ہی کہ سینکڑوں سال تک گپتہ، موریہ اور چانکیہ حکومتوں کے ہوتے ہوئے تو کبھی وہاں رام  مندر کی تعمیر و تزئین نہیں  کی گئی… جن آثار قدیمہ کا بھگوا پارٹیاں حوالہ دے رہی ہیں ان میں ان ہندو راجاؤں کے رام مندر  کی تعمیر و تزئین نو   کا یا   انکی   عقیدتوں  کا  کہیں کوئی سراغ نہیں پایا جاتا…. بلکہ دعوی یہ کیا جارہا ہے آثار قدیمہ کے تمام ثبوت چار پانچ یا آٹھ دس ہزار سال پرانے رامچندر جی سے متعلق ہیں ….اور درمیان کے با قی سارے ثبوت آس پاس کہیں بھی موجود نہیں ہیں!!… یہ اور ایسے ہی بے شمار حقائق ہیں جو بھگوا پارٹیوں کے دعووں کو کھوکلا ثایت کرتے ہیں اور عالمی  مورخوں    کے لئے ایک تشویش ناک  موضوع    کا باعث بن گئے ہیں…. اور تشویش کے ساتھ   تاریخ میں رقم ہوتے جار  ہے ہیں … ناک اونچی رکھنا کوئی عجیب و غریب بات نہیں ہے لیکن اسکے لئے آنکھ کان اور زبان کو بھی اونچا رکھنا ہوتا ہے تاکہ دیکھنے کہنے سننے میں بھی اونچائی یا بلندی ہو…. اور عقلمندی  کا پتہ چلے نہ چلے    اعلی ظرفی کا پتہ ضرور    چلنا چاہیے  …..ورنہ   پھر  بات  خطرناک ، المناک،    تشویش ناک ، ایسی ناک ویسی ناک    اسکی   ناک  اور اسکی ناک تک پہنچ جا تی ہے  ..اور یہ  ہندوستان کے  ناک نقشہ پر   کچھ جچتی نہیں ہے  ….

اپنا تبصرہ لکھیں