اک پھل موتیئے دا۔۔۔۔

باعث افتخار

انجینئر افتخار چودھری
کتنے مشکل موضوع چنتے ہیں ہم لوگ مگر کبھی ان دنوں کو یاد نہیں کرتے جو جوانی کی حسین یادوں پر محیط ہوتے ہیں ہر ایک کی اپنی زندگی ہے اور ہر کوئی ماضی میں زندہ رہنا چاہتا ہے۔ہم متوسط طبقے کے لوگ یا کہہ لیجئے غریب لوگ اپنے ارمانوں کو پورا کرنے جب ٹوٹی پھوٹی تعلیم اور تھوڑے سے تجربے کے ساتھ عرب پہنچے تو ۔تو ان مشکل دنوں میں صحراء کی ٹھنڈی ریت پر جب گدہ بغل میں دبائے شارع فلسطین سے تحلیہ روڈ کی جانب ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کی رہائیش گاہ میں مفت بھرے مہمان بنے تو سب نے اپنا سمجھا میرے خالہ زاد بھائی در ایمان اس کمپنی میں ڈرائیور تھے۔میں نے ڈپلومہ کیا اور اس کے بعد رانا موٹرز لاہور میں چند ماہ کام کر کے جدہ چلا گیا۔جدہ اس وقت پاکستان کیا دنیا بھر سے روزی کے متلاشی لوگوں کی آماجگاہ بن گیا تھا زیادہ تر لوگ ایئر پورٹ کے پاس ہی ٹھکانہ کرتے پرانا ایئر پورٹ کندرہ کے پاس تھا البدر بیکری کے سامنے جہاں آج کل چوک میں جہاز سجایا گیا ہے کہتے ہیں یہ جہاز امریکی صدر ٹرومین نے ملک عبدالعزیز کو تحفے میں دیا تھا ۔یہ جہاز بری بلا ہیں یہ تحفے میں ایک بادشاہ دوسرے کو دیتا ہے کبھی یہ نہیں ہوا کہ ایک بادشاہ نے کسی غریب کو اس کا جھونٹا بھی دوایا ہو۔
کندرہ کے اس ایئر پورٹ پر 25جولائی1977کو کوئی دس بجے کے قریب اترا۔کراچی سے شکیل ایکسپریس کے ذریعے یہاں خدا خدا کر کے پہنچا تھا ہاتھ میں ایک پتے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔اترتے ہی قریبی کھوکھے سے پیپسی اور سینڈوچ لیا اور کسی سے پوچھا کہ پاکستانی ہوٹل کہاں ہے۔مجھے بلد میں ایک ٹیکسی لے گئی جس نے مجھ سے سات ریال لئے۔وہ پاکستانی ہوٹل کیا تھا ایک ملیباری کا ہوٹل تھا لوگ اسے پاکستانی ہوٹل کہتے تھے یہ بلد میں الرجحی بینک کے سامنے ایک گلی میں واقع تھا۔ایک اجنبی جس کے ہاتھ میں ایک بیگ ہے اور اس کے علاوہ ایک چھوٹی سی چٹ جس پر streeters of Godal ming companyکا نام لکھا ہوا تھا ایک رحمدل بھائی نے کھانا کھلایا ایک لیٹر پیڈ چند ٹکٹیں لے کر دیں اور کہا گھر خط لکھ دو۔اور ڈاکخانہ میں ڈال دو اور وہیں پتہ کرنا اس کمپنی کا کہ یہ کہاں ہے۔میں کوئی دو بجے بلد میں واقع ڈاکخانے کی بلڈنگ کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا اور ہر آنے جانے والے سے سٹریٹرز آف گولڈن منگ کا پتہ پوچھنے لگا۔کوئی شام پانچ بجے ایک گورے نے مجھے اپنے ساتھ بٹھایا اور پاس ہی عمارہ ملکہ کے نیچے جدہ شہر کی سیوریج کا کام کرنے والی کمپنی کی ایک سائیٹ پر پہنچا دیا۔چھٹی ہونے والی تھی ایک مصری ڈرائیور کے ساتھ مجھے بٹھا دیا گیا ایک پاکستانی ملک غلام رسول جو پنڈی گھیپ کا رہائیشی تھا اس نے اس سے پہلے پرتپاک استقبال کیا۔میں نے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھتے ہی اس سے پوچھا کہ where are you from?وہ ہونقوں کی طرح مجھے دیکھ رہا تھا گھنگریالے بال مٹی سے بھرے حلیے والا مصری مجھے حیرانگی سے دیکھ رہا تھا کہ یہ کاٹھہ انگریز کہاں سے آ گیا ہے۔میں نے سادہ انگریزی میں پوچھاwich country?اس نے بتایا Egyptمیں مصر کو اخوانالمسلمون ،سید حسن بناء،سید قطب،حمیدہ قطب کے حوالے سے جانتا تھا جمال عبدالناصر وغیرہ۔اسلامی جمعیت طلبہ میں گزارے چند سال اتنا تو بندے دا پتر بنا دیتے ہیں کہ بندہ ساری عمر اسی کی بنیاد پر فلاسفر لیڈر مقرر بنا رہتا ہے۔جس عمر کے بچے لیپ ٹاپ پر ڈورے مان دیکھ رہے ہوتے ہیں ہم نے سمر و قند بخارا کی خونیں داستان ،رسالہ دینیات،بناؤ اور بگاڑ،سلامتی کا راستہ پڑھ لیا تھا۔ویسے میرے کالم چونکہ سادہ ہوتے ہیں۔اپنی زندگی کے واقاعت کو ااپنے قارئین کے سامنے رکھتا ہوں اسی سلسلے میں ایک لطیفہ یاد آ گیا۔جب میں عمرے ویزے کی تیاری کر رہا تھا تو والد صاحب نے کہا یار تو مودودی کی جماعت کا بندہ ہے ایسا کر ایک خط تو مودودی سے لے جا شاہ خالد کے نام کم از کم اتنا تو کام لے جماعت اسلامی سے۔میں نے والد صاحب کو کہا چا چا جی آپ سید مودودی کو کیا سمجھتے ہیں وہ اتنے ویلے ہیں کہ مجھے سفارشی خط دیں گے اور ویسے بھی یہ نامناسب بات نہیں کہ میں جماعت کے امیر سے کوئی سفارشی خط لوں۔اس کا میں تصور نہیں کر سکتا۔کہنے لگے پتہ نہیں مودودی نے تجھے کیا بنا دیا ہے؟
مصری ڈرائیور کی خوشنودی کے لئے میں نے اپنا بیگ جھولی میں گٹ کے رکھ لیا اور اس میں سے دو ٹافیاں نکال ر پیش کیں جو اس نے اکٹھی چبا لیں میں سمجھ گیا بھائی ہوری ساڈے کولوں وی گئے گزرے نیں۔اس دوست سے میں امت مسلمہ کے مسائل پر انگریزی میں گفتگو شروع کر دی۔اس تھوڑے سے سفر میں فلسطین مسجد اقصی روس مصر کی دوستی غرض میں بولتا رہا وہ یس یس کہتا رہا اور یوں ہم کلو بارہ مکہ روڈ پہنچ گئے۔جہاں میرے ننھیالی گاؤں کے عزیز موجود تھے ماسٹر غلام محمد ان کے فورمین تھے۔مجھے وہاں پہنچ کر دلی خوشی ہوئی ۔ہماری منزل کہیں اور تھی کھانا کھانے کے بعد اس خیمے سے مجھے کلو خمسۃ لے جایا گیا جہاں ایک بیت شعبی میں ایک کمرہ ملا ۔بیت شعبی دیسی گھر کو کہتے ہیں بلاکوں پر مشتمل گھر لکڑی کے بالوں کے اوپر سیمینٹ وغیرہ ڈال کر بے شمار گھر بنائے گئے تھے جو ان دنوں بڑی مشکل سے ملتے تھے۔
اس کمرے میں کوئی چھ گدے تھے جن پر دس لوگ سوتے تھے۔ان میں موضع لسن کے شفیق،بھائی ولی،بھائی کاکا،شیر زمان،اشرف عباسی،ماسٹر غلام محمد،کوئی دو ایک اور تھے جن کا نام یاد نہیں ۔یہیں وہ یاد گار اور مضحکہ خیز واقعہ پیش آیا ۔کمرے کا کرایہ پر کس تھا ایک سو ریا ل کے حساب سے چارج کیا جاتا تھا اس چھوٹے سے گھر میں تین کمرے تھے جن میں ملا کر کوئی بائیس لوگ تھے۔ایک شام مالک مکان آ گیا اور اس نے بغیر کسی نوٹس کے کرایہ تین سو ریال بڑھا دیا۔عربی کسی کو بھی نہیں آتی تھی میں نے قران پاک کے پانچ سیپارے ترجمے کے ساتھ پڑھے تھے لیکن یہ میر آخرت کا توشہ تو بن سکتے ہیں مگر وہاں جدہ کے کلو خمسۃ کے ظالم اور جابر مالک مکان کے سامنے کام نہ آئے۔اس نے جوتوں کے جوڑے گنوانا شروع کئے تو مجھے پتہ چلا یہ فی کس سو ریال کے حساب سے میرے تین جوڑوں کو بھی شمار کر رہا ہے جو دروازے کے سامنے پڑے تھے۔میں نے تینوں جوڑے اسے پہن کے دکھائے تو جان چھٹی لیکن اس کا فرمان تھا کہ جوتے اب تم سر کے نیچے رکھو گے۔
مجھے یہ سب کہانی کیوں یاد آئی یو ٹیوب پر لوک فنکار منصور ملنگی کا یہ شہرہ ء آفاق گیت سنا اک پھل موتئیے دا
مار کے جگا سوہنئے۔کوئی ضروری اور اہم وجہ تو نہ تھی کہ اسے موضوع بناتا مگر وہ دن یاد آ گئے عطاء اللہ عیسی خیلوی اور منصور ملنگی یہ فنکار پردیس میں رہنے والوں کے ساتھی رہے انہوں نے لوک گیتوں کو زندہ کیا سرائیکی بیلٹ اور وسیب کے ان لوگوں نے ہماری راتیں پر رونق کیں ۔ٹیڈی کے ایک اچھی خالی کیسیٹ دس ریال کی ملتی تھی ہمیں پتہ چلتا کہ کوئی نئی کیسیٹ آئی ہے تو اسے ادھار مانگ کر لاتے یا شہر میں کیسٹ کی دکانوں پر اسے کاپی کرا لیتے۔میں پھر اس صحراء اور گدے کی بات کروں گا جب بھائی درایمان کی کمپنی جس کا نام فالکن فریٹ تھا ۔اس کمنی کے باہر کھے صحراء میں گدہ بچھا کر نیشنل کی ایک سپیکر والی ٹیپ پر رات کے اس سمے جب ڈرائیور ھضرات خراٹے لے رہے ہوتے تھے تو میں چپکے سے منصور ملنگی کو سنتا اک پھل موتئیے دا مار کے جگا سوہنئے یہ ساری جوانی میں ایک خواہش تھی کہ کوئی پھل مار کر جگائے۔
ہم سادہ سے لوگ اس نزاکت بھری زندگی سے کتنے بھرے دور رہتے ہیں۔یہاں پر تو چھتوں سے آوازیں آیا کرتی تھیں اٹھ سورج نکل آیا ای کم تئے نئی جاناں۔منصور ملنگی ہمیں ان رتوں میں لے گیا جہاں موتئیے کی خوشبو رچی بسی تھی جہاں پیار ہی پیار تھا۔مجھے لوک گیت اچھے لگتے ہیں کوئی بھی فنکار میرا اپنا فنکار ہوتا ہے اگر مائی بھاگی کی بات کی جائے تو مجھے میر پور متھیلو سے آگے چار کلو میٹر نیا روڈ پر اپنی زمینیں یاد آ جاتی ہیں جہاں سونی ریڈیو میں ایک روپے کا چندہ بیٹری سیل ڈال کر ریڈیو حیدر آباد کی نشریات سنا کرتا تھا۔پہلی رات تو مچھر نہیں سونے دیتا تھا اور آکری پہر جاگ کر کوئی بھینس نہ کھول لے جائے۔بس ریڈیو ہی ساتھی تھا جسے ساتھ سینے سے لگائے دن گزار دیتا اور راتیں بسر ہوتیں پھر کبھی ہزارے کے لوک فنکاروں کی طرف جاؤں تو ماسٹر حسین بخش کبھی نہیں بھلا پاتا۔ہو ہو میرے ماہئے دا کالا کوٹ گلی وچوں لنگ ویناں ایں سڑ ویندا ایئے سارا لوک۔اس کی سریں اور سرگی دیا تاریا اب بھی سنتا ہوں تو دل سینے سے اچھلتا نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ میں نے شکیل اعوان کو اپنے ہر بچے کی شادی پر بلایا اور اس کے ساتھ شام ہزارہ منائی۔
اب بھی رات کے تین بجے ہیں سب جگ سو رہا ہے اور ہم جاگیں تاروں سے باتیں کرنے کی بجائے کچھ لفظ چن رہا ہوں اور ان دھرتی کے لوک فنکاروں کو یاد کر رہا ہوں۔میں اگر انجینئر نہ ہوتا تو سچ پوچھیں میں شاعر ہوتا ۔قدرت مناظر میری کمزوری ہیں۔جھامرہ نلہ چڑیلاہ میں ایک جگہ ہے میں نے وہاں اپنی چچا زاد بہنوں رشتے داروں کے ساتھ گرمی کی چھٹیاں گزاری ہیں ۔ساتھ والا گاؤں در کوٹ ہے درکوٹی کا کا اس کی بانسری کی دھنیں مجھے اور مجھے یقین ہے میرے بھائیوں کو بھی بھائی ہوئی تھیں یہی وجہ ہے کہ میں متعدد بانسریاں خریدیں مگر افسوس میں پھوں پھوں کے علاوہ کچھ بھی نہ نکال سکا۔۔شوکت علی کا وہ گیت تو میں کبھی نہیں بھول سکتا کیوں دور دور رہندے او حضور میرے کولں کوئی دس دیو ہویا کی قصور میرے کولوں۔ان گیتوں کے ساتھ جڑی یادیں بڑی تلخ سی ہو کر رہ گئی ہیں۔ٹیپ گانے گیت ریورس ہو جاتے ہیں مگر لوگ نہیں ملتے ۔راستے پتھر موڑ سب وہیں ہیں لیکن ان راستوں پر آپ کے ساتھ چلنے والے لوگ نہیں ملتے۔سوچتا ہوں منصور ملنگی کے موتئیے کے پھل اور میرے گھر 502کے پھولوں میں کوئی فرق تو نہیں ہو گا۔آج گجرانوالہ سے مرحوم بھائی کے پوتے پوتیاں آئے ہوئے تھے۔عئیشہ کہنے لگی ہمارے گھر میں بھی موتیا ہے۔اس کی خوشبو بھی ایسی ہی ہے اس ننھی پری کو کیا علم کہ پھول تو اپنی خوشبو اسی طرح بکھیرتے ہیں جب وہ منصور ملنگی کا موضوع ہوتے ہیں یا پھر ادھر میرے گھر میں مگر ان کی خوشبو سے مستفید لوگ نہیں رہتے میرے قبلہ والد صاحب کی طرح عائیشہ کے دادا ابو کی طرح۔اس پر ہجوم زندگی میں ٹیکنالوجی کا شکریہ کہ ہم اک پھل موتئیے دا سن کر اپنے آپ کو جدہ کی فالکن فریٹ کمپنی میں محسوس کرتے ہیں۔ان خوشبوؤں سے پردیس بھی مہکے اور میرا پاکستان بھی۔اذانیں ہو رہی ہیں اور کالم بھی مکمل ہو گیا ہے۔اللہ خدا کرے میری ارض پاک پر اترے وہ فصل گل جسے اندیشہ ء زوال نہ ہو۔نی اک پھل موتئے دا مار کے جگا سوہنئے

اپنا تبصرہ لکھیں