اوسلو میں خواتین کی تنظیم کا اجتماع

اوسلو میں خواتین کی تنظیم کا اجتماع

ناروے کی ڈائری

کالم نگار کالم نگار مسرت افتخار ہاشمی

پچھلے دنوں اوسلو میں ناروے کے کثیر ثقافتی بین ا لاقوامی خواتین گروپ کے زیر اہتمام ایک ایسا سیمینار منعقد ہوا،جس کی کامیابی نے الیکٹرانک میڈیا کی توجہ حاصل کر لی۔ناروے میں   IKKG ( interkulturell kvinne gruppe) کی تنظیم  برسوں خواتین کے حقوق کے حصول کے  لیے فعال ہے۔مگر اس ادارے میں بیشتر یورپی خواتین شامل تھیں۔ایشیائی خواتین کو نہ تو علم تھا اور نہ ہی اس ادارے کی افادیت سے متعلق کوئی معلومات تھیں۔اس لیے اس ادارے سے یورپین خواتین ہی مستفید ہوتی تھیں۔مگر ایشیائی خواتین محروم رہ جاتی تھیں۔پاکستانی نثراد محترمہ غزالہ نسیم جو کہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ وہ ملکی اور قومی سطح  پر ایک معروف سماجی کارکن بھی ہیں۔وہ اس ادارے میں مدت سے کام کر رہی تھیں مگر جب انہوں نے دیکھا کہ ایشیائی خواتین لاعلمی کی بناء پر مختلف مسائل کا شکار ہو رہی ہی تو انہوں نے  اس تنظیم کی سربراہ بنتے ہی سب سے پہلے ایشیائی خواتین کو  اکٹھا کر کے انہیں معلومات فراہم کی۔ایشیائی خواتین میں اس ادارے کی افادیت آگ کی طرح پھیل گئی۔محترمہ غزالہ نسیم نے تمام خواتین کو اکٹھا کر کے تمام سرکاری اورنیم سرکاری اداروں کی توجہ حاصل کر لی،اور آج محترمہ غزالہ نسیم اس تنظیم کی سربراہ ہیں۔انکی تنظیم میں تمام خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ اور  اپنے شعبے کی ماہر ہیں۔یہ خواتین مختلف ایشیائی ممالک سے تعلق رکھتی ہیں۔نصیرہ عبداللہ کا تعلق ترکی سے ،زینب کا تعلق عراق سے،حفیدہ کا تعلق مراکش سے جبکہ شبانہ شازیہ اور فرزانہ کا تعلق پاکستان سے ہے۔یہ تمام خواتین اپنے اپنے شعبوں کی ماہر ہیں اور بیشتر کی تعلیم ماسٹرز اور بیچلر گریڈ کی ہے۔شبانہ خالد ماہر تعلیم ہیں وہ ایک ایسے ادارے کی سربراہ رہ چکی ہیں جو خواتین کے مسائل حل کرتا ہے۔آسیہ اسلام اٹھارہ سال سے ایک ایسے ادارے کی سربراہ ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔غرضیکہ اتنی ماہر ٹیم کی سربراہ غزالہ نسیم نے اپنے ادارے کے اغراض و مقاصد بیان کیے۔اور خواتین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اس ادارے کا مقصد خواتین کوخود مختار بنانا ہے تعلیم معاشی اور تجارتی معلومات فراہم کرنا اور قانونی امداد فراہم کرنا ہے۔تاکہ ہر خا تون اپنی صلاحیتوں کے مطابق معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کرے  اور معاشرے میں ضرورتمند لوگوں کی امداد کرے۔غزالہ نسیم نے بتایا ہمارے مختلف پراجیکٹ ہیں۔تعلیمی اور تجارتی پراجیکٹ کے زیر اہتمام آپکو کورسز کروائے جا تے ہیں تاکہ آپ اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکیں۔مگر ہمارا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ آج کا سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔جس کا حل ہم نے نکالنا ہے۔اور وہ ہے وہ تمام بچے جن کے والدین حادثہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔یا پھر والدین کی آپس میں علیحدگی کی وجہ سے دیکھ بھال کا مسئلہ ہو جاتا ہے۔یا ناقص دیکھ بھال کی بناء پر دیکھ بھال کا ادارہ یہ بچہ والدین سے چھین لیتا ہے۔ایسے بچوں کو نارویجن خاندانوں کی تحویل میں دے دیا جاتا ہے۔اور آج  70  فیصد بچے جن کی عمریں زیرو سے لے کر بیس سال تک کی ہیں اور جن کے والدین تو ہیں مگر بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے نے انہیں والدین سے لے کر انہیں نارویجن والدین کے حوالے کر دیا ہے۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہاں پر ان بچوں کی کفالت کے لیے کوئی مسلمان آگے نہیں آتا۔اجب کہ  مسلمان بچوں کی دیکھ بھال کے لیے والدین چاہییں۔نمبر ٢ مسلمان بچوں کی دیکھ بھال کے لیے نارویجن ادارہ ایسے فیصلے کر جاتا ہے جس میں ہمارے ثقافتی پس منظر کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا۔اسکی مثال دو ہندوستانی بچوں کی ہے  جن کا کیس اداروں سے ہوتا ہوا حکومتی اداروں تک پہنچ گیا۔جب بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے سے پوچھا گیا کہ انہوں نے کس وجہ سے بچے والدین سے لیے ہیں تو انہوں نے دو الزام لگائے۔نمبر ایک الزام تو یہ تھا کہ بچوں کے والدین بچوں کو اپنے کمرے  میںاپنے ساتھ سلاتے تھے۔نمبر دو بچوں کی ماں بچوں کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی تھی۔اس بناء پر بچوں کے ادارے نے بچے انڈین ماں باپ سے لے لیے۔والدین نے ادارے پر مقدمہ کر دیا۔وکیل صفائی  نے کہا کہ  ایشیاء میں لوگ غربت اور تنگ دستی کی وجہ سے  الگ الگ کمروں میں نہیں رہتے  بلکہ دوکمروں کے گھر میں سب مل کر اکٹھے رہتے ہیںاور ایک کمرے میں سوتے ہیں۔ اس لیے بچوں کایک کمرے میں سونا روائیت بن چکی ہے۔یہ جرم نہیں۔ناروے میں پچاس برس قبل جب تیل نہیں نکلا تھا۔سب مل کر ایک کمرے میں سوتے تھے کہ ہیٹنگ سسٹم بھی نہ تھا۔سردی بھی اتنی ہوتی تھی اس لیے محبت غالب تھی سہولتیں کم تھیں۔اور ماں باپ چھری کانٹا نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہاتھوں سے چھوٹے بچوں کوکھانا کھلاتے تھے۔یہ حالات وقت اور مجبوریاں ہوتی ہیں جو عادات اور روایتیں بن جاتی ہیں۔پھر چاہے آپ شاہی محل میں بیٹھ  شاہی میز پر کھانا کھائیں۔آپکو اپنی ماں کے ہاتھ کا کھانا کھلانا ہمیشہ یاد آتا ہے۔محترمہ غزالہ نسیم نے بتایا کہ ہم نے عدالتوں اور بچوں کے رفاعی اداروں کو بہت کچھ بتانا ہے اور ایک جنگ لڑنی ہے۔کہ ہمارے بچوں کو جن کے والدین ہوتے ہیںان کے بچوں کو معمولی باتوں پر الگ نہ کیا کریں۔کیونکہ ساری دنیا ساری زندگی آپکو حاصل رہے گی مگر بچپن میں والدین کا پیار والدین کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔انہوں نے کہا ہمارا مقصد ہے کہ بچوں کو والدین کے ساتھ ہی رہنے دینا چاہیے۔لیکن اگر ستر فیصد مسلمان بچے غیر مسلموں کے خاندانوںمیں پرورش پا رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم خاندان بچوں کو پالنے کی خواہش ظاہر نہیں کرتے۔اس لیے آج میں آپ سب کو دعوت دیتی ہوںکہ جن کے بچے نہیں ہیں اور جو بچے لے کر پالنا چاہتے ہیںوہ آگے آئیں اور  فارم بھریں۔ان کو بچے بھی ملیں گے اور بچے کو پالنے کا خرچہ بھی ملے گا۔اور بچوں کو پالنے کے کورس بھی کروائے جائیں گے۔محترمہ غزالہ نسیم نے بچوں کی پرورش کی ماہر خاتون آسیہ اسلام کواسٹیج پر آنے کی دعوت دی تاکہ وہ اس سلسلے میں معلومات دیں۔انہوں نے بتایا کہ کس طرح بچے ذہنی اور جسمانی طور پر بیمار ہو کر رہ جاتے ہیں۔آسیہ اسلام نے بتایا کہ نارویجن اعدادو شمار کے مطابق  ستر سے نوے فیصد مسلم بچے غیر مسلموں کے گھروں میں پل رہے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان بچوں کو اپنے گھروں میں پالنے کے لیے کوئی آگے نہیں بڑھتا۔اور ان بچوں کی عمریں زیرو سے لے کر بیس سال تک کی ہیں۔اس کے لیے  جو گورنمنٹ کی ڈیمانڈ ہے کہ جو بچہ پالنا چاہتا ہے وہ ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ ہو۔انکا پولیس کے   ریکارڈ میں کوئی جرم نہ ہو۔اگر انکے اپنے بچے ہوں تو وہ بھی ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ اور نارمل ہوں۔اور ان بچوں کا بھی پولیس میں کوئی منفی ریکارڈ نہ ہو۔


ہال میں موجود بڑی تعداد کی خواتین نے اس خواہش کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں آج تک علم ہی نہ تھا کہ ہم ایسا بھی کر سکتے ہیں۔کئی خواتین کے بچے نہ تھے  وہ خوشی سے رونے لگ گئیں کہ ہمارے ملک میں بچوں کو  adopt   کرنا ناممکن ہے۔اگر ہمیں یہاں پر مسلم بچے مل جائیں تو ہماری زندگی بھی سنور جائے گی۔خواتین کے گھریلو مسائل پرامحترمہ غزالہ نے بتایا کہ ان کے کیا حقوق ہیں۔اور ان کے مسائل کے حل کے کیا طریقے ہیں۔اس سیمینار میں خواتین کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ محترمہ غزالہ بار بار سب خواتین کے سوالات کا جواب دے رہی تھیں۔پروگرام میں عرب خواتین نے دف بجا کر اپنے ملکی نغمے پیش کیے۔اور اپنے اپنے ملک کے لطیفے بھی سنائے۔پروگرام کے آخر میں ہر مہمان خاتون نے پراگرام لیڈر اور تنظیم کی سربراہ محترمہ غزالہ نسیم کو  فرداً فرداًگلے لگا لگا کر ہاتھ ملا کر شکریہ ادا کیا۔اتنا کامیاب سیمینار اور خواتین کا اتنا بڑے اجتماع اس بات کا ثبوت تھا کہ  IKKG   ایک ایسی تنظیم بن گئی ہے جوحالات کے مطابق اور ضرورت کے تحت  خواتین کی ایک مشترکہ آواز اور پکار بن گئی ہے۔محترمہ غزالہ نسیم نے پروگرام کے اختتام پر تمام خواتین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے علم نہ تھا کہ اس میں خواتین اتنی  بھرپور شرکت کریں گی۔اور اتنی دلچسپی کا اظہار کریں گی۔خواتین کی دلچسپی اور شمولیت نے ہمارا حوصلہ بڑھایا ہے۔یقناً خواتین  IKKG  کو ایک ایسا ادارہ پائیں گی جہاں گھریلو،سماجی، تعلیمی، تجارتی مسائل کا سب کو حل بھی ملے گا اور نئی کامیاب زندگی کا راستہ بھی ملے گا۔اس پروگرام کی کامیابی خواتین کی کامیابی ہے جو اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہتی ہیں۔اور اپنے لیے اور معاشرہ کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہیں۔اور ایک خود مختار زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔محترمہ غزالہ نسیم کی سربراہی میں یہ تنظیم خواتین کی ایسی پکار بن گئی ہے  جس نے ایک جلسہ  میں ہی  سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی توجہ حاصل کر لی ہے۔کئی بین الاقوامی اداروں نے  IKKG کو اپنے ساتھ تعاون کی پیشکش کی ہے۔یہ ناروے میں ایشیائی خواتین کی وہ پکار بن گئی ہے جو برسوں دبی رہی۔اور جیسے ہی ناروے میں ایشیائی خواتین کو موقع ملا ہے تو یہ نارویجن پینٹنگ ،چیخ ِ،کی طرح ایسی چیخ بن گئی جس   نے سب کو  اپنی طرف متوجع کر لیا ہے۔محترمہ غزالہ نسیم آج ایشیائی خواتین کی ایسی چیخ بن گئی ہیں جس نے سب کو اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے۔اگر ایک خاتون پر عزم ہو تو وہ ماتھائی بن کر نوبل پرائز تک حاصل کر لیتی ہے۔محترمہ غزالہ نسیم نہ صرف خود ایک بہادر اور باحوصلہ اور پر عزم خاتون ہیں  بلکہ ان کی تنظیم ایک ایسی پکار بن گئی ہے جو ناروے میں ہی نہیں بلکہ تمام دنیا میں گونجنے والی ہے۔بشکریہ مسرت افتخار نمائیندہ جنگ

اپنا تبصرہ لکھیں