اوسلومیں نسائیت کے موضوع پر سیمینار

اوسلومیں نسائیت کے موضوع پر سیمینار

تحریر شازیہ عندلیب
جمعہ کی شام کو اوسلو کے آلنا بی دیل فیورست میں حلقہ ارباب ذوق کے زیر اہتمام خواتین کے موضوع نسائیت یا نسوانیت کے پر ایک سیمینار منعقد ہوا۔یہ پروگرام ناروے میں خواتین کو ووٹ کا حق ملنے کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں منعقد کیا گیا تھا۔اس سیمینار میں شرکت کے لیے امریکہ سے ڈاکٹر ستیہ آنند پال،ڈنمارک سے شاعرہ صدف مرزا ، عمرانیات کے استاد ڈاکٹر مصطفی ٰحسن اور کراچی سے ڈاکٹر فاطمہ حسن اور ڈاکٹر ہماء بخاری تشریف لائیں تھیں۔ اس کے علاوہ مقامی معتبر اور سینیر شعراء مسعود منور اور جمشید مسرور بھی بطو رمہمان خصوصی شریک ہوئے۔ جبکہ مسعود منور اس مجلس کے صدر تھے۔نظامت کے فرائض استاد اور شاعر ارشد شاہین نے سر انجام دیے جبکہ اس تقریب کے انعقادمیں اوسلو کی معروف ادبی شخصیت سونیا خان اور ان کے شوہر طارق میر نے فعال کردار ادا کیا۔پروگرام کے آغاز میں میزبان ارشد شاہین نے تمام مہمان گرامی کا مختصراً تعارف پیش کیا۔
نامور صحافی ،شاعر اور دانشور ڈاکٹر ستیہ پال آنندامریکہ سے تشریف لائے تھے۔وہ وہاں انگلش کے پروفیسر ہیں اور اب تک انکی چالیس کے قریب کتب مختلف موضوعات پر چھپ چکی ہیں۔انہوں نے اردو زبان کی بہت خدمت کی ہے۔
ڈاکٹر فاطمہ حسن کراچی یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔وہ ایک معروف شاعرہ اور ادیبہ ہیں اب تک انکی تین کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ان میں خواتین کے حوالے سے انہوں نے کہانیاں تخلیق کی ہیں جو ایک منفرد تخلیق ہے ۔اس کے علاوہ ایک ایرانی خاتون کی شاعری پر انہوں نے تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے۔
ڈاکٹر ہماء بخاری اب تک مختلف قومی اور بین الاقوامی سیمیناروں میں شرکت کر چکی ہیں۔اس کے علاوہ اردو میں کئی تحقیقی مقالے لکھ چکی ہیں۔ہماء پی ٹی وی، اوراے آر وائے کی لائیو ٹرانسمشن میں کئی پروگرام پیش کر چکی ہیں۔
ڈنمارک کی شاعرہ صدف مرزا بھی کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں جبکہ انکا شاعری کا مجموعہ ، صحراء میں آب جو ،قابل ذکر ہیں ۔وہ ڈنمارک کے کیپیٹل کوپن ہیگن میں خواتین کے ایک منفرد چینل ٹی وی نساء کی سربراہ ہیں۔
صدف مرزا نے اپنی تقریر میں کہا کہ کچھ صدیاں پہلے یورپ میں خواتین کے لکھنے پر اس قدر پابندی تھی کہ وہ مردوں کے نام سے لکھتی تھیں۔پھر انیسویں صدی میں خواتین لکھاریوں کو کچھ آزادی نصیب ہوئی۔مگر معاشرے میں انکی تخلیقات کو بہت ذیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا حتیٰ کہ وہ خواتین ذہنی مریض بن گئیں اور انہیں اپنی زندگی کے آخری ایام ذہنی امراض کے ہسپتالوں میں گزارنے پڑے۔پھر اٹھارویں صدی میں خواتین نے نمائشی چیز بننے سے انکار کر دیا۔انہوں نے اپنے آپ کو انسانیت کے اولین درجے پر فائز کرنا ہی مقدم جانا۔انکا معاشرے سے یہ مطالبہ تھا کہ انہیں بھی انسان سمجھا جائے۔نسائیت کا مقصد بنیادی انسانی حقوق حاصل کرنا ہے۔جس میں معاشرتی کشاکش نہ ہو۔صدف مرزا انے اس موقع پر اپنی تصنیف کردہ نظم بہت خوبصورت انداز میں سنا کر حاضرین سے داد وصول کی۔یہ نظم انہوں نے مارچ مین خواتین کے دن کے موقع پر خصوصی طور پر لکھی تھی۔
گو تجھ کو میرے دل سے شکائیت نہیں سائیں
صدیوں سے تسلط تھا میرے جسم پہ تیرا
پر ذہن پہ اب تیری حکومت نہیں سائیں
اب پیار کے بولوںمیں نہ کر مجھ کو مقید
دوبارہ نہ کر مجھ سے سیاست میرے سائیں

محترمہ ہماء بخاری نے مائیک پر آ کرپر وقار انداز میں سر سبز شہر کے باسیوں کو سلام شام کہا۔انہوں نے نسائیت کے موضوع پر عورت کو ایک ایسی لڑکی کے روپ میں پیش کیا جو بھیڑیوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہے اور ان سے نجات کے لیے جدو جہد کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسملیوں میں عورتوں کی نشستیں بڑھا دینے سے یا عورت کو ووٹ کا حق دے دینے سے عورت کی حالت نہیں سنبھلی،بلکہ اس کے لیے ہمیں عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
ڈنمارک سے تشریف لانے والے داکٹر مصطفیٰ نے بھی خواتین کے حقوق کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ گذشتہ صدی میںعورت معاشرے کا ایک اہم رکن بن چکی ہے۔نسائیت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اردو محاوروں میں مرد کی برتری نظر آتی ہے۔اب اس طریقہ کو تبدیل ہونا چاہیے۔ناروے میں خواتین کے برابری کے حقوق کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اب یہ تبدیلی ممکن ہے۔
محترمہ ڈاکٹر فاطمہ نثار نے عورتوں کے مسائل کو اقتصادی تناظر میں پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ اصل مسلہء عورت کے مقام کا نہیں بلکہ اقتصادی نوعیت کا ہے اسی لیے مرد عورت کو اقتصادی طور پر مضبوط نہیں ہونے دیتا۔اور اسے کسی معاملے میں آگے بڑھنے نہیں دیتا۔اٹھارویں صدی میں ایک خاتون شاعرہ نے علامہ اقبال کے پائے کی نظم شکوہ جواب شکوہ کے طرز پر لکھی جو کہ علامہ اقبال کی نظم سے کم درجہ کی نہ تھی لیکن اسے ادب میں وہ مقام حاصل نہ ہوسکا جو کہ علامہ اقبال کے افکار کو حاصل ہوا۔انہوں نے کہا کہ معاشرے میں عورت کا حق تسلیم کرنے والا مرد سب سے بڑی رحمت ہے۔ذاھدہ حنائ،فہمیدہ ریاض اور زہرہ نگار کو انہوں نے اردو ادب میں ممتازشاعرات قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بقول مشتاق احمد
تبدیلی ء حالات کے چرچے تو بہت ہیں لیکن
حالت وہی ہیں ابھی بھی
جبکہ عذرا عباس کا کہنا ہے کہ
تبدیلی آئی ہے مگر وہ نہیں جو ہم چاہتے ہیں
ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے ڈائس پر آ کر کہا کہ دوستوں ان سے ہمدردی نہ جتانا انہیں آپکی ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے۔انہیں دیکھیں یہ ڈاکٹر فاطمہ ،حسن،ڈاکٹر ہماء بخاری اور صدف مرزا ان میں سے کسی نے بھی گریبان میں منہ دال کر بات نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ عورت خواہ حضرت فاطمہ ہوں،حضرت مریم ہوں یا سیتا ہو قابل احترام ہے مگر ہندو دھرم میں عورتوں کی بے حرمتی دیوتائوں کے ہاتھوں ہوتی رہی ہے۔مگر جب یہی عورت انتقام پر اتر آئی تو اس نے ہر چیز کو تباہ کر دیا۔

ڈاکٹر ستیہ پال کی تقریر کے بعد ناروے کے سینئر شاعر اور صدر مجلس جناب مسعود منور نے کہا کہ گو اس موقع پر میرا ارادہ کچھ کہنے کا نہ تھامگر میں رہ نہ سکا ۔یہ دین اسلام ہی ہے جس نے عورتوں کو اس وقت حقوق دیے جب انہیں زمین میں زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔اسلام نے عورتوں کو اعلیٰ مقام و حقوق دیے۔ہم لوگ اس بارے میں تحقیق نہیں کرتے بلکہ تحقیق کے بجائے کتابوں سے مواد اکٹھا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
وقفہ سوالات میں حاضرین نے مہمانوں سے سوالات کیے۔
خواتین کے موضوع پر لکھی جانے والی کتاب اثاثہ کی مصنفہ مینا اختر نے سوال کیا کہ ہم کب تک ایک دوسرے سے اپنی عزت کی بھیک مانگتے رہیں گے؟اور کب تک مرد اور عورت ایک دوسرے کے کورٹ میں گیند پھیکتے رہیں گے؟
اس بات کا جواب ڈاکٹر فاطمہ بخاری نے دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشرے میں عورت مذہب کے نام پر عورت پر بہت ظلم ہوتا رہا ہے۔
ایک صحافی نے کہا کہ ہم چاہے اس موضوع پر جس قدر ذیادہ تقاریر کر لیں میڈیا ہمیںخواہ کتنی ہی معلومات کیوں نہ دے ہم لوگ بالکل نہیں سمجھیں گے اور اس ہال سے باہر جاتے ہی سب کچھ بھول جائیں گے۔جبکہ خواتین کے حقوق کے بارے میں بات کرتے ہپوئے سینیر لکھاری و سفر نگار فیصل نواز نے کہا کہ ناروے میں ہر برس نارویجن اپنی بیویوں کو قتل کر دیتے ہیںتاہم انہوں نے کہا کہ یہ انفارمیشن ہے سوال نہیں۔
پروگرام کی منتظم سونیا خان ادبی حلقوں میں اپنی آزاد شاعری کے حوالے سے ایک جانی پہچانی شخصیت بن چکی ہیں۔ان کی دلکش شخصیت اور خوبصورت ادائیگی کی بناء پر انہیں ایک خاص مقبولیت حاصل ہے۔عنقریب ان کی شاعری کی کتاب منظر عام پہ آنے والی ہے۔انہوں نے کھانے کے وقفے سے پہلے سفرنامہ کی کتاب ،منزلوں کی کہکشاں،بیرون ملک سے آنے والے مہمان گرامی کو تحفتاً پیش کی۔

سیمینار کے بعد کھانے کا وقفہ دیا گیا جس میں حاضرین کی تواضع پیزا اور چائے سے کی گئی اس کے بعد پروگرام کا دوسرا دور شروع ہوا جو کہ مشاعرے پر مشتمل تھا۔تمام شعراء کو سات منٹ میں اپنی دو نظمیں سنانے کا پابند کیا گیا۔
اس موقع پر ارشد شاہین میزبان مجلس نے کہا کہ
غور و فکر کا نتیجہ نکلتا ہے فراز
غور و فکر بیکار نہیں ہو سکتا
اس کے بعد گلوکار جان دتًا نے اپنا کلام اور ایک گیت سنایا
انہوں نے یہ نظم سنا کر داد وصول کی
خود کو اپنا حال سنانا
دیوانوں کی عادت ہے
اس کے بعد سونیا خان کو اپنا کلام سنانے کی دعوت دی گئی ۔انہوں نے اپنی نظم سنانے سے پہلے اپنے مہمانوں اور خاص طور سے صدف مرزا ،ڈاکٹر فاطمہ حسن ،ڈاکٹر ستیہ پال اور ڈاکٹر ہماء بخاری کا شکریہ ادا کیا جن کی وجہ سے یہ خوبصورت محفل سجائی گئی۔
اس کے بعد مصنفہ مینا اختر نے اپنی آزاد نظم اور انگلش کی نظم سنائی
میں جانتی ہوں
اگر میں اپنی خاموشی کی قیمت
مجھے پتہ ہے وقت بیت رہا ہے
اگر اکیلی کھڑی رہی تو میں ایک اکائی
اس کے بعد محمد ادریس نے اپنی اردو اور پنجابی کی نظمیں سنا کر حاضرین سے داد وصول کی
یہ بھی ممکن ہے کہ ہم آپس میں گزارہ کرلیں
یا پھر اک دوسرے سے کنارہ کر لیں
پنجابی
برفاں دے اس شہر دے وچ
ہنیری جئی دوپہر دے وچ
محنت کردا شام سویرے
اس کے بعد نو جوان شاعر آفتاب وڑائچ نے بھی اپنی نظمیں سنا کر داد لی
بہت مشہور ہوتا جا رہا ہوں
میں خود سے دور ہوتا جا رہا ہوں
کھٹکتا تھا میں جن آنکھوں میں پہلے
اب انکا نور ہوتا جا رہا ہوں
اس کے بعد خالد تھتھال نے اپنی شاعری حاضرین کو سنائی
پرانے گھر وچ چھڑیا
نوی دیوار دا مسلہئ
خالد تھتھال کے پنجابی کلام کے بعد ڈاکٹر سید ندیم حسین نے اپنا کلام پیش کیا
آنکھیں خواب دیکھتی ہیں
اک ایسے جہاں کا
جہاں آدم زاد کو انسان سمجھا جائے

چلیں اس پری چہرہ سے پوچھیں
کہ ہم سے بچھڑ کر شب و روز کیسے بسر ہوتے ہیں

اس کے بعد حیدر حسین نے اپنا کلام سنایا
نفرتیں ہر سو پھیلانا چھوڑ دے
رات دن فتوے لگانا چھوڑ دے
رحمت اللعالمین کے نام پر گھر جلانا چھوڑ دے
اس کے بعد جمشید مسرور نے اپنا کلام پیش کیا
اتنی ایماندار تھی وہ
پھول واپس کیا کتاب کے ساتھ
میں بھی پایا گیا مردہ تتلیوں کے ساتھ
محترمہ فاطمہ نثار نے اپنا کلام پیش کر کے حاضرین سے خوب داد وصول کی
میری بیٹی انگلی چھوڑ کر چلنا سیکھ گئی
سنگ میل پہ ہندسوں کی پہچان سے آگے
آتے جاتے رستوں کے نام سے آگے
پڑھنا سیکھ گئی
میری دنیا کے نقشے پہ اپنی مرضی کے رنگ بھرنا سیکھ گئی

میری زمین پہ لگی یاکسی کے گھر پہ لگی
لگی ہے آگ کسی کے بھی گھر پہ لگی

اس کے بعد انہوں نے اپنی مشہور نظم سنا کر خوب داد پائی
آنکھوں میں نہ ذلفوں میں رنگ میں نہ رخسار میں دیکھ
مجھے میرے خیالات میرے افکار میں دیکھ
سب سے آخر میں ڈاکٹر ستیہ پال نے اختتامی تقریر کی اور اسی یادگار اور رنگا رنگ تقریب کا اختتام ہوا۔

اوسلومیں نسائیت کے موضوع پر سیمینار“ ایک تبصرہ

  1. اوسلو میں نسائیت پر سیمینار
    تبصرہ زیب مسہود
    درامن
    یہ ایک زبردست پروگرامتھا اس طرح کے پروگراموں کو اکثر ہونا چاہیے کیونکہ اکیسویں صدی میںرہتے ہوئے مشرق کی عورت کو آدھے تو کیا پچیس فیص حقوق بھی نہیں ملے اور یہ بات  خصوصاًمسلم خواتین کے حوالے سے  بہت افسوسناک ہے کہ اسلام جو دین فطرت ہے اس 
    میں خواتین کے حقوق کے بارے میں جو  فرائض مسلم معاشرے پر  عائد کیے گئے ہیں۔ان پر عام لوگ تو کیا مولوی حضرات بھی خاموش ہیں۔مثلاً آج بھی عورتوں کو کاری وٹہ سٹہ خریدو فروخت اور دشمنی کا بدلہ لینے کے لیے کسی کو بے عزت کرنا، یا تیزاب ڈال کرجیتے جی مار دینا اور ایک نارمل لڑکی کی شادی  قرآن سے کرنے کی من گھڑت رواج سے ابنارمل زندگی گزارنے پر مجبور کرنا وغیرہ۔
    اس لیے میرے خیال میں اس طرحکے پروگرام تسلسل سے ہوتے رہیں تو تسلسل سے گرتے پانی پتھر میںسوراخکر سکتے ہیںتو پھر مسلسل جدو جہد سے اس جہالت کے جنگل میںراستے بھی بنائے جا سکتے ہیں۔
    اس سیمینار میںبہت اچھی شاعری بھی پیش کی گئی جس میں خاص طور سے آفتاب وڑائچ کی نظم 
    بہت مشہور ہوتا جا رہا ہوں میں 
    اور فاطمہ حسن کی یہ نظم بہت پسند آئی
    میری بیٹی انگلی چھوڑ کے چلنا سیکھ گئی

اپنا تبصرہ لکھیں