انکل ہم ہیں ناں

Mid pic

Baise iftikhar

یہ وہ نوجوان ہیں جنہیں اللہ نے ہمت دی اور مشکلات بھری زندگی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں چراغ جلانے کا حوصلہ دیا یقیناًان کے ساتھ اور بھی لوگ ہیں لیکن میں ان تینوں
کو جانتا ہوں بہت قریب سے ان میں سے ایک دائیں ہاتھ پر نوجوان ہے جو پاکستان کی ایک بڑی پارٹی کی ضلعی تنظیم کا سیکریٹری انفارمیشن ہے میر پہلی ملاقات ایک تقریب میں ہوئی مگر اس سے پہلے ایک احتجاجی مظاہرے میں اسے ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کیا گیا تو میرے بیٹے نوید نے کہا کہ ابو قیصر کے لئے لکھیں میں نے اس سے رابطہ کیا اور احتجاج بھی اللہ نے کیا وہ اس جعلی مقدمے سے باہر نکل آیا۔ایک روز اس نے ایک بڑی تقریب میں اس کا اعتراف بھی کیا۔
دوسرا اسی پارٹی کا متحرک نوجوان ہے جو کمپیئرنگ کے فن سے بھی آشناء ہے اس سے ملاقات بہن آمنہ مسعود جنجوعہ کے ساتھ شارع دستور پر سنگ مر مر کی عمارت کے باہر نعرے لگاتے دیکھا۔کبھی جی چاہتا ہے کہ سڑکوں کے ان ساتھیوں پر لکھوں مگر وقت میسر نہیں ورنہ میں نے جن کے ساتھ جد و جہد کی ان کی داستان بیان کروں تو کتابیں لکھ دوں۔ تیسرا اسی تنظیم کی یوتھ ونگ کا اعلی عہدے دار ہے۔ میرے بیٹے نوید کا ساتھی اور دوست جو پاکستان میں ایک تبدیلی کے لئے سر گرام ہیں نوجوانوں کا یہ ٹرائیکا پاکستان کے ماتھے کا جھومر بن چکا ہے ۔یہ تینوں کراچی ایئر پورٹ پر پہنچے ہیں ۔انہیں اے آر وائی نے خاص طور پر بلایا ہے۔کیوں بلایا ہے؟ دکھی انسانیت کی خدمت کے نعرے تو سب نے لگائے مگر ان کے دکھوں کا مداوا کم لوگوں نے کیا اقرار الحسن اور وسیم بادامی نے یہ ہیرے ڈھونڈے ہیں۔قیصر کیانی، فرقان اور احسن کی یہ ٹرایکا عدل فاؤنڈیشن کے بانی ارکان ہیں انہوں نے اس دور میں غریب کی عزت نفس کی بات کی ہے۔انہوں نے جب انسان کو اتنا دکھی دیکھا تو سوچ لیا کہ کہ ہم نے کسی سے نہیں مانگنا کیانی نے اپنی دکان پیش کی اپنے دوستوں سے ملے کوئی اشفاق صاحب ہیں جو ان کے پیچھے ایک مضبوط دیوار ہیں انہوں نے آئیڈیا فلوٹ کیا کیانی نے کہا کل نہیں آج پھر وہ اس کٹھن راستے پر چل نکلے پہلے پہل آنکھوں کے فری کیمپ لگائے ریڈ کریسینٹ سے مل کر بلڈ دونرز کا گروپ تیار کیا۔کچھ نوجوان خواتین شازیہ راجہ کی قیادت میں ساتھ چلیں تو سلائی کڑھائی کے سینٹر بنا دیئے پرانے کپڑے لیئےدھلایا استری کرایا اور بیس روپے میں بیچ دیئے۔اب بیس رمضان کو انہوں نے نئے کپڑے بیس روپے میں دینے شروع کیئے ہیں ۔پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ خیرات کی جاتی ہے اصحاب خیر دھڑا دھڑ نئے کپڑے پہنچا رہے ہیں جوتے بھیج رہے ہیں گھڑیاں کھلونے سب کچھ اور غریب لوگ جو دکانوں کے شیشوں کے پیچھے سے جھانک کر نکل جاتے تھے اب شاپنگ کر رہے ہیں۔غربت بری بلا ہے ۔اگر یہ کام میں اور آپ اپنے محلے اپنی گلی میں کر لیں تو کتنے لوگوں کا بھلا ہو جائے گا۔اللہ نے اس ملک میں دولت کی ریل پیل دی ہے ۔اللہ نے لوگوں کو دل بھی دیا ہے بس بانٹ کھانے کی ضرورت ہے۔۔کسی نے کہا ہے کہ اگر زکوۃ ہی مکمل دی جائے تو پاکستان غربت سے پیچھا چھڑا سکتا ہے۔اللہ کے پیارے نبیﷺ کے پاس ایک غریب آیا تو آپ نے اس کی ہتھیلی پر رقم نہیں رکھی انہوں نے اسے ایک کلہاڑا اور رسی لے کر دی جاؤ جنگل سے لکڑی کاٹ کر بازار میں بھیجو۔کیا ہم ایسا نہیں کر سکتے کیا ہمارے صنعت کار فنی ادارے نہیں بنا سکتے؟بات دور نکل جائے گی کسی کے راستے کا پتھر اٹھا دینا اگر عبادت ہے تو کئی پتھر ہیں جو اٹھانے چاہئیں۔میں ان جوانوں کو سلام کرتا ہوں جنہوں نے ظلمت شب کے شکوؤں کی بجائے اپنی حصے کی شمع جلائی ہے۔بس یہی کچھی کرنا ہے ۔مجھ سے کچھ نہیں ہو سکا میں چند سطریں پیش کر رہا ہوں۔ میرا اللہ قبول کر لے ۔آپ ان جوانوں نے ان نمبروں پر رابطہ کر سکتے ہیں۔انہوں نے اب فاؤنڈیشن بھی بنا لی ہے جس کا نام عدل رکھا ہے۔قیصر کیانی ۰۳۴۵۵۳۰۹۷۰۳ فرقان ۰۳۳۶۵۰۴۳۴۸۱ احسن ۰۳۳۳۵۰۰۰۳۵۱۔ فرقان تو ۲۰۰۷ سے مجھے آمنہ مسعود جنجوعہ بہن کے ساتھ سڑکوں پر ملتا رہا۔
یقین کیجئے اگر حکومتیں یہ کام کرتیں تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ پاکستان سے غربت ختم ہو جاتی لیکن ہوا یہ ہے کہ جو کوئی آیا اس نے پاکستان کو جی بھر کے لوٹا باریاں لینے والے اس ملک کو کنگال کر گئے جس کسی کو موقع ملا اس نے اپنی نسلوں کو سنوارا اور کچھ اس قدر سنوارا کہ کی معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو گیا۔دنیا بھر میں اصحاب خیر اپنی بے پناہ دولت سے دکھی انسانیت کا مداوا کرتے ہیں ۔عمران خان نے ایک بار جدہ میں اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں جب شوکت خانم کے لئے چندہ مانگنے جاتا ہوں تو امیر لوگ مجھ سے ہزار سوال کرتے ہیں اومیں چپ ہو کے رہ جاتا ہوں کہ ان سے کیا بحث کروں یہ فیزیبیلٹی کی بات کرتے ہیں لیکن میں جب غریب کے پاس گیا تو اس نے اپنا سب کچھ لوٹا دیا۔یہ ورلڈ کپ جیتنے کے بعد کا دورہ تھا جس میں میں نے بھی اس انتظامی کمیٹی کے سیکرٹری کا کردار ادا کیا جو فنڈ جمع کرتی تھی۔میرا اس واقعے کا تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے غریب لوگوں کا دکھ متوسط طبقہ دور کر سکتا ہے۔میں نے اپنی آنکھوں سے ان لوگوں کو دیکھا ہے جن کی ایک سے کئی فیکٹریاں بن گئیں مگر ان کے مزدوروں کی حالت نہیں بدلی ۔یہ سرا سر زیادتی ہے۔اس زیادتی کا ازالہ کیسے ہو گا۔عدل فاؤنڈیشن کی شازیہ راجہ خواتین کی نمائیندگی کرتے ہوئے فنی ورکشاپ بنا رہی ہیں سلائی کڑھائی سکھائی جاتی ہے یہ ہے وہ قیمتی اور لاجواب کام جو میں نبی اکرمﷺ کے واقعے میں بیان کر چکا ہوں۔حکومت اس کارخیر میں اس طرح کام لے سکتی ہے کہ وہ بڑے بڑے صنعت کاروں کو پابند کرے کہ وہ اس ملک میں فنی ادارے قائم کریں۔آج فلپائن دنیا بھر میں سکلڈ لیبر دینے والوں میں ایک نمبر پر ہے۔دنیا کی بہترین کمپنیوں کو حکومت نے مجبور کیا ہے کہ آپ اگر یہاں سے ہنر مند لے جانا چاہتے ہیں تو یہاں انسٹی ٹیوٹ قائم کریں ۔گاڑیوں کا پینٹ بنانے والی کمپنیوں نے اچھے پینٹر تیار کرنے کے لئے وہاں ادارہ قائم کیا جس سے فارغ التحصیل لوگ اچھے معاوضوں پر مڈل ایسٹ میں کام کر رہے ہیں۔عدال فاؤنڈیشن نے ابتدائی اینٹ رکھی ہے اور مجھے پوری امید ہے کہ اس پر ایک شاندار عمارت تیار ہو گی ایسی عمارت جو پاکستان کے غریب کے ماتھے سے پریشانیوں کو دور کر دے گی ۔پاکستان کو اللہ نے سب کچھ دے رکھا ہے اس قوم کو دیوار سے لگانے والوں نے جب کرکٹ کے میدان ویران کئے تو اللہ نے انہیں دنیا کا چیمپئین بنا دیا ۔اس سے پیار کیجئے اس کے لوگوں سے محبت کیجئے یقین کریں جب بھی کوئی اس قوم کو برا کہتا ہے جی چاہتا ہے اس کے گلے پڑ جاؤں اور جو کرئی بھی اس کے لٹیروں کی بات کرتا ہے ان کے نام کیتا ہے تو مجھے یہ نوجوان اس بات کا حوصلہ دیتے ہیں کہ انکل ہم ہیں ناں۔

انکل ہم ہیں ناں“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں